Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

پاکستان کا موجودہ معاشی ’بحران‘ کتنا سنگین ہے؟

شہباز رانا کے مطابق ڈیفالٹ کا خطرہ کافی عرصے تک برقرار رہے گا (فوٹو: اے ایف پی)
وفاقی حکومت کی جانب سے معاشی ایمرجینسی کے نفاذ کو خارج از امکان قرار دیے جانے کے باوجود ملک میں زرمبادلہ کے زخائر میں کمی اور آئی ایم ایف سے اگلی قسط آنے میں تاخیر کی وجہ سے ملکی معیشت کے حوالے سے تشویش بڑھتی جا رہی ہے۔
جمعے کو وزیرداخلہ رانا ثنا اللہ نے بھی تسلیم کیا کہ ملک کا معاشی بحران ایک جماعت حل نہیں کر سکتی اور اس کے لیے ایک چارٹر آف اکانومی کی ضرورت ہے جس میں تمام جماعتوں کو مل کر بیٹھنا ہو گا۔
اسی سلسلے میں وزیرخزانہ  سینیٹر اسحاق ڈار نے صدر عارف علوی سے بھی ملاقاتیں کر کے پی ٹی آئی کے ساتھ معاشی معاملات پر تعاون پر بات چیت کی ہے۔
جمعرات کو سٹیٹ بینک آف پاکستان نے بتایا تھا کہ ملک کے زرمبادلہ کے ذخائر میں 2 دسمبر تک مزید 78 کروڑ 40 لاکھ ڈالر کی کمی ہوگئی جس کے بعد مرکزی بینک کے پاس موجود ذخائر چھ ارب 71 کروڑ ڈالر رہ گئے۔
اسی حوالے سے جمعے کو بھی وفاقی وزیر خزانہ کی زیر صدارت ملک کی معاشی صورتحال پر بین الوزارتی اجلاس ہوا۔
اجلاس میں وزیر قانون و انصاف اعظم نذیر تارڑ، وزیراعظم کے معاون خصوصی برائے خزانہ طارق باجوہ، وزیراعظم کے معاون خصوصی برائے ریونیو طارق پاشا، گورنر سٹیٹ بینک، سیکریٹری خزانہ، سیکریٹری داخلہ، چیئرمین ایف بی آر، ڈی جی ایف آئی اے، ڈی جی آئی اینڈ آئی کسٹمز اور فنانس ڈویژن اور انٹیلی جنس ایجنسیوں کے سینیئر افسران نے بھی شرکت کی۔
اجلاس میں اقتصادی صورتحال اور غیر ملکی کرنسی کے موجودہ طریقہ کار پر تبادلہ خیال اور جائزہ لیا گیا۔ گندم اور یوریا کی سمگلنگ اور انسداد سمگلنگ نظام کو مضبوط بنانے کے لیے مختلف اقدامات پر تبادلہ خیال کیا گیا۔
وزیر خزانہ نے ملک کی معاشی صورتحال پر روشنی ڈالتے ہوئے اس مقصد کے لیے تمام ضروری پلیٹ فارمز کے درمیان ہم آہنگی کی ضرورت پر زور دیا۔ انہوں نے متعلقہ حکام پر مزید زور دیا کہ وہ ملک میں معاشی اور مالی استحکام لانے کے لیے مختلف اشیاء کی سرحد پار سمگلنگ کو روکنے کے لیے ایک مضبوط اور فعال روڈ میپ وضع کریں۔
اس وقت معاشی صورتحال کتنی سنگین ہے؟
اس حوالے سے اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے معاشی تجزیہ کار خرم حسین نے بتایا کہ ملک کی اقتصادی صورتحال سنگین تو ہے مگر ان کے نزدیک ابھی بحران کی صورتحال پیدا نہیں ہوئی۔
ان کا کہنا تھا کہ آنے والے ہفتوں میں اگر ملک کو بیرونی امداد نہ ملی تو پھر بحران کی صورتحال پیدا ہو سکتی ہے۔ ’ایسا ممکن ہے مگر ابھی میرے نزدیک ایسا نہیں ہوا میری نظر میں بحران اس وقت ہوتا ہے جب عوام کی زندگی پر براہ راست اثر پڑنا شروع ہو جائے۔ مثلا پٹرول کی سپلائی متاثر ہو جائے یا ضروری اشیا ملنا بند ہو جائیں۔‘
خرم حسین کا کہنا تھا کہ ملک اس وقت جس معاشی صورتحال سے گزر رہا ہے وہ بے مثال نہیں ہے۔ ماضی میں بھی کئی بار ایسی صورتحال سامنے آئی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ 2014 میں بحران کی صورتحال تھی جس میں پٹرول کا بحران ایسا سنگین تھا کہ ملک میں عوام کی زندگی بری طرح متاثر ہو گئی تھی۔ ٹرانسپورٹ اور سپلائی لائن متاثر ہوئی تھی۔

صحافی شہباز رانا کے مطابق اس وقت ملک میں معاشی صورتحال کافی سنجیدہ ہے (فوٹو: اے ایف پی)

پھر 2013 میں بجلی کے بحران کی صورتحال سنگین تھی جب کئی علاقوں میں سولہ سولہ گھنٹوں کی لوڈ شیڈنگ ہوتی تھی۔
معاشی امور کے صف اول کے صحافی شہباز رانا کے مطابق اس وقت ملک میں معاشی صورتحال کافی سنجیدہ ہے۔ زرمبادلہ کے زخائر صرف چھ ارب 71 کروڑ ڈالر رہ گئے ہیں جو کہ صرف پانچ ہفتوں کی درآمدات کے لیے کافی ہیں۔
جنوری سے مارچ تک اگلے تین ماہ میں پاکستان نے ساڑھے آٹھ ارب ڈالر کی بیرونی ادائیگیاں کرنی ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ حکومت نے ان ادائیگیوں کے بندوبست کا منصوبہ بنا لیا ہے، تاہم اس پر کس حد تک عمل ہو گا یہ ابھی دیکھنا باقی ہے۔
شہباز رانا کے مطابق ڈیفالٹ کا خطرہ کافی عرصے تک برقرار رہے گا۔
ان کا کہنا تھا کہ آئی ایم ایف پروگرام اس لیے رکا ہوا ہے کیونکہ پاکستان نے کچھ شرائط پوری نہیں کیں جیسا کہ سیلاب کے بعد بحالی کا پروگرام دینا، بجلی کی قیمت مزید بڑھانا وغیرہ۔
شہباز رانا کے مطابق ابھی بھی آئی ایم ایف کی جانب سے پاکستان کو قسط ملنے میں دو ماہ تک کا وقت لگ سکتا ہے، تاہم آئی ایم ایف کی جانب سے دیگر ڈونرز کو عندیہ دیا جا سکتا ہے کہ پاکستان کا پروگرام بحال ہو جائے گا جس کے بعد وہ ڈونر پاکستان کو رقم فراہم کر سکتے ہیں۔

شیئر: