’صدر ایوب کی سالگرہ کے دن ایسٹ (مشرقی) پاکستان ہاؤس کا افتتاح ایک حسین اتفاق ہے‘، یہ الفاظ تھے مشرقی پاکستان کے گورنر عبدالمنعم خان کے جو انہوں نے راولپنڈی میں 14 مئی 1967 کو ایک تقریب سے خطاب کے دوران ادا کیے۔
اس تقریب کا پس منظر یہ تھا کہ پاکستان کے دارالحکومت کی کراچی سے اسلام آباد منتقلی کے وقت راولپنڈی کو عبوری دارالحکومت بنایا گیا تھا۔
مزید پڑھیں
-
مشرقی پاکستان میں بہاری بنگالی کی تفریق بچپن سے دیکھیNode ID: 135641
-
ایسا لگا جیسے پورے مشرقی پاکستان میں آگ لگ گئیNode ID: 150841
-
مشرقی پاکستان کے بحران کا حل صرف مذاکرات میں تھاNode ID: 360636
اسمبلی اجلاس اور دیگر سرکاری امور کے لیے مشرقی پاکستان سے آنے والے افسران اور زعما کو ٹھہرانے کے لیے وزارت دفاع سے ایک عمارت لی گئی۔ جس کی مرمت وغیرہ کر کے پانچ فروری 1962 کو اسے مشرقی پاکستان ہاؤس بنایا گیا۔
چونکہ اس عمارت میں محدود تعداد میں رہائش کا بندوبست تھا اس لیے ضرورت محسوس کی گئی کہ اس مقصد کے لیے بڑی عمارت تعمیر کی جائے۔
سنہ 1964 میں مشرقی پاکستان کے گورنر اور مرکزی حکومت کی کوششوں سے سکیم کی منظوری ہوئی، اور سنہ 1965 میں تعمیر کا آغاز ہو گیا۔
تقریباً دو برس کے عرصے میں 20 لاکھ روپے کے اخراجات سے افسران کے لیے 18 کمروں سمیت چار وی آئی پی رہائش گاہیں اور گورنر کے لیے علیحدہ بلاک کی تعمیر مکمل ہوئی۔
صدر ایوب خان نے اپنی سالگرہ کے دن یعنی 14 مئی 1967 کو اس کا افتتاح کیا۔ جہاں ان کے ساتھ تقریب میں مشرقی پاکستان کے گورنر عبدالمنعم خان، گورنر مغربی پاکستان محمد موسیٰ اور سپیکر قومی اسمبلی عبدالجبار خان سمیت مرکزی کابینہ کے ارکان موجود تھے۔

افتتاحی تقریب کے بعد راولپنڈی میں مقیم ایک بنگالی کتب فروش روحیل اسلام نے بنگالی میں لکھی ہوئی اسلامی کتابوں کا تحفہ صدر کو دیا۔
روزنامہ جنگ راولپنڈی سے وابستہ سینیئر صحافی حافظ طاہر خلیل نے شہر کے مال روڈ پر موجود اس مشرقی پاکستان ہاؤس کے بارے میں تفصیلات بیان کرتے ہوئے اردو نیوز کو بتایا کہ دارالحکومت کی منتقلی کے بعد راولپنڈی میں پہلے ویسٹ پاکستان ہاؤس کی تعمیر کی گئی جو آج کل پنجاب ہاؤس کہلاتا ہے اور پھر ایسٹ پاکستان ہاؤس بھی تعمیر ہوا۔
ان کے مطابق اُن دنوں قومی اسمبلی کے اجلاس لال کڑتی میں ہوا کرتے تھے۔ موجودہ نیشنل ڈیفنس کالج میں قائم آڈیٹوریم اس وقت کے نیشنل ڈیفنس سکول میں قائم تھا۔ دارالحکومت کی منتقلی کے وقت اسی نیشنل ڈیفنس آڈیٹوریم میں قومی اسمبلی کے اجلاس ہوا کرتے تھے، اسی لیے اس کے قریب ہی ایسٹ پاکستان ہاؤس قائم کیا گیا۔
شیخ مجیب الرحمان کی جیل
طاہر خلیل نے کہا یہ عمارت (مشرقی پاکستان ہاؤس) گورنر اور سیاسی شخصیات کی رہائش گاہ ہونے کے باعث سیاسی سرگرمیوں کا اہم مرکز تھی۔
’اس وقت کی سیاست کے تقریباً تمام ہی بڑے نام ایسٹ پاکستان ہاؤس میں ہونے والی ملاقاتوں میں شریک ہوتے تھے۔ مشرقی پاکستان کی علیحدگی کے موقع پر شیخ مجیب کو گرفتار کر کے پہلے ایسٹ پاکستان ہاؤس ہی میں رکھا گیا، جس کے بعد انہیں ویسٹ پاکستان ہاؤس میں منتقل کر دیا گیا۔‘
مشرقی پاکستان ہاؤس کی سپریم کورٹ میں تبدیلی
اس حوالے سے ایک اتفاق یہ بھی ہے کہ مشرقی پاکستان ہاؤس کی افتتاحی تقریب کے شریک اور اُس وقت کے ڈپٹی سپیکر قومی اسمبلی چوہدری فضل الہیٰ نے بعد میں اسی عمارت کا بطور صدر دوبارہ افتتاح کیا۔

اس کی تفصیل یہ ہے کہ مشرقی پاکستان کی علیحدگی کے بعد کچھ عرصہ تو یہ عمارت اسی طور پر برقرار رہی، اور بنگلہ دیش سے آنے والے بھی اس میں قیام کرتے رہے۔ لیکن سنہ 1973 کے آئین کی منظوری کے بعد جب وفاقی دارالحکومت میں سپریم کورٹ قائم کرنے کا فیصلہ ہو گیا تو اس وقت اسلام آباد میں فوری طور پر ایک بڑی عمارت کی تعمیر ممکن نہیں تھی، لہٰذا راولپنڈی میں موجود مشرقی پاکستان ہاؤس کی عمارت فیصلہ سازوں کی مرکز نگاہ ٹھہری۔
کچھ تبدیلیوں کے بعد اس وقت کے صدر چوہدری فضل الہیٰ نے 25 نومبر 1974 کو اسی عمارت کاایک مرتبہ پھر افتتاح بطور سپریم کورٹ آف پاکستان کیا۔
بھٹو کی پھانسی اور مارشل لا کے خلاف اپیلوں کی سماعت کا مرکز
سپریم کورٹ کے یہاں قیام کے بعد ذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی کی اپیل بھی اسی عمارت میں مسترد ہوئی۔
سینیئر صحافی حافظ طاہر خلیل نے اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ وہ ان چند صحافیوں میں شامل تھے جنہوں نے یہاں عدالتی کارروائیوں کی رپورٹنگ کی۔
’فنڈز کی کمی باعث سپریم کورٹ کی موجودہ عمارت کی تعمیر تاخیر کا شکار تھی۔ سنہ 1989 میں فنڈز کی فراہمی کے بعد اس کی تعمیر تیزی سے شروع ہوئی۔ اور 31 دسمبر 1993 کو سپریم کورٹ اسلام آباد کی شاہراہ دستور پر اپنی موجودہ عمارت میں منتقل ہو گئی۔‘
اس عمل کو یاد کرتے ہوئے حافظ طاہر خلیل کا کہنا تھا کہ یہ بھی ایک دلچسپ اتفاق تھا کہ ’سپریم کورٹ کی نئی عمارت کا سنگ بنیاد نواز شریف نے رکھا تھا جب کہ اس کا افتتاح بے نظیر بھٹو نے بطور وزیراعظم کیا۔‘
