پیرس میں پولیس اور مظاہرین میں جھڑپیں‘، ’فائرنگ کرنے والا نسل پرست تھا‘
جمعے کو فرانسیسی شہری کی فائرنگ سے کُرد کمیونٹی کے تین افراد ہلاک ہو گئے تھے (فوٹو: اے ایف پی)
پیرس میں جمعے کو تین افراد کی ہلاکت کے بعد پولیس اور کُرد کمیونٹی کے ارکان کے درمیان سنیچر کو دوسرے روز بھی جھڑپیں جاری رہیں۔
فرانسیسی خبر رساں ایجنسی اے ایف پی کے مطابق ’مظاہرین نے کئی گاڑیاں اُلٹ دی گئیں جبکہ کم سے کم ایک گاڑی کو جلا دیا گیا۔‘
مطاہرین نے ریپبلک سکوائر کے قریب آگ بھی لگائی، یہ وہ مقام ہے جہاں عام طور پر مظاہرے کیے جاتے ہیں اور یہاں کردوں نے پہلے پرامن احتجاج کیا تھا۔
پیرس میں جھڑپیں اس وقت شروع ہوئیں جب چند مظاہرین نے سکوائر سے باہر نکل کر پولیس پر اگ کے گولے پھینکے جبکہ پولیس نے جوابی طور پر مظاہرین کے خلاف آنسو گیس کا استعمال کیا۔
پولیس اور مظاہرین کے درمیان یہ جھڑپیں تقریباً دو گھنٹے تک جاری رہیں، بعد ازاں مظاہرین وہاں سے منتشر ہو گئے۔
اس سے قبل پیرس میں کرد ثقافتی مرکز میں فائرنگ کر کے تین افراد کو ہلاک کرنے والے 69 سالہ فرانسیسی شہری نے تفتیش کاروں کو بتایا کہ ’وہ نسل پرست تھا۔‘
جمعے کے روز پیرس کے کرد ثقافتی مرکز اور حجام کی دکان میں کی گئی فائرنگ سے فرانسیسی دارالحکومت کے جدید علاقے میں خوف و ہراس پھیل گیا۔ بعد ازاں پولیس نے حملہ آور کو گرفتار کر لیا۔
حکام کے مطابق ’کرد ثقافتی مرکز اور حجام کی دکان میں فائرنگ کے اس واقعے میں تین افراد ہلاک جبکہ تین شدید زخمی ہوئے۔جس جگہ فائرنگ کی گئی وہاں کُرد آبادی کی اکثریت ہے۔‘