Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

گوادر میں حالات کشیدہ: موبائل، انٹرنیٹ سروس معطل

بلوچستان کے وزیر داخلہ ضیا اللہ لانگو نے کہا ہے کہ ’ ہم نے مذاکرات کی کوشش کی لیکن مولانا ہدایت الرحمان نے تمام حدیں عبور کیں اور حکومتی رٹ کو چیلنج کیا۔‘ (فائل فوٹو: پی پی آئی)
گوادر میں جاری احتجاج کے باعث صورتحال معمول پر نہیں آ سکی ہے۔ گوادر اور ملحقہ شہروں میں دکانیں، مارکیٹیں اور کاروباری و تجارتی مراکز چوتھے روز بھی بند رہے۔
انٹرنیٹ اور موبائل فون سروس کے بعد بجلی کی فراہمی بھی معطل ہو گئی ہے۔
جمعرات کو بھی شہر کی سڑکوں پر مظاہرین اور پولیس میں آنکھ مچولی کا سلسلہ جاری رہا۔ پولیس نے مزید 25 کارکنوں کو گرفتار کر لیا جس کے بعد گرفتار ہونے والے افراد کی تعداد 100 سے تجاوز کر گئی ہے۔
بلوچستان حکومت نے گوادر میں دفعہ 144 نافذ کر کے ایک ماہ کے لیے اسلحے کی نمائش اور مظاہروں پر پابندی عائد کر دی ہے۔
پولیس اہلکار کے قتل، جلاؤ گھیراؤ اور پُرتشدد احتجاج کے الزام میں مولانا ہدایت الرحمان سمیت ’حق دو تحریک‘ کے رہنماؤں کے خلاف مقدمہ درج کر لیا گیا ہے۔
حکومت نے گوادر میں گزشتہ چار دنوں سے موبائل فون نیٹ ورک اور انٹرنیٹ سروس بھی معطل کر رکھی ہے جس کی وجہ سے میڈیا کو بھی معلومات کے حصول میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔
گوادر سے حب چوکی پہنچنے والے گوادر کے رہائشی اور نیشنل پارٹی کے مرکزی سیکریٹری ماہی گیری آدم قادر بخش نے اردو نیوز کو ٹیلی فون پر بتایا کہ ’گوادر میں حالات اب بھی معمول پر نہیں آ سکے ہیں تاہم مکران کوسٹل ہائی وے تین دن تک بند رہنے کے بعد کھل گئی ہے۔‘
’گوادر، جیونی، پسنی، اورماڑہ اور دیگر شہروں میں مظاہرین بدستور سڑکوں پر موجود ہیں۔ پولیس اور مظاہرین کے درمیان تصادم کے واقعات بھی ہو رہے ہیں۔‘

اطلاعات کے مطابق پسنی اورماڑہ، جیونی، سربندر اور پیشکان میں چوتھے روز بھی شٹر ڈاؤن ہڑتال کی گئی۔ (فائل فوٹو: ٹوئٹر)

انہوں نے بتایا کہ ’انٹرنیٹ اور موبائل فون سروس کے بعد دو دنوں سے بجلی بھی بند کر دی گئی ہے جس کی وجہ سے شہریوں کی مشکلات مزید بڑھ گئی ہے۔‘
’شہر کی تمام دکانیں، مارکیٹیں اور بازار بند ہیں۔ شہریوں کو اشیائے ضرورت خریدنے میں مشکل پیش آ رہی ہے۔ گوادر میں کام کرنے والے غیرمقامی مزدور اور باہر سے آئے ہوئے سیاح سب سے زیادہ پریشان ہیں۔‘
آدم قادر بخش کے مطابق ’گوادر کی ڈیڑھ لاکھ آبادی میں 80 فیصد کا انحصار ماہی گیری پر ہے مگر گزشتہ چار دنوں سے ماہی گیر سمندر نہیں جا سکے ہیں، ان کی کشتیاں ساحل پر کھڑی ہیں۔‘
اطلاعات کے مطابق گوادر کے باقی علاقوں پسنی اورماڑہ، جیونی، سربندر اور پیشکان میں چوتھے روز بھی شٹر ڈاؤن ہڑتال کی گئی۔
گوادر پولیس کے ایک افسر نے ٹیلی فون پر اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’پولیس نے گزشتہ شب حق دو تحریک کے فعال کارکنوں کی گرفتاری کے لیے ان کے گھروں پر چھاپے مارے۔ سڑکوں پر احتجاج کے دوران پولیس کی کارروائی اور ان چھاپوں کے دوران 25 سے زائد کارکنوں کو گرفتار کیا گیا۔‘
انہوں نے کہا کہ ’اب تک حق دو تحریک کے100 سے زائد کارکنوں کو گرفتار کیا جا چکا ہے۔‘
کوئٹہ میں گوادر کی صورتحال مانیٹر کرنے والے ایک سرکاری افسر نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ ’28 دسمبر کو گوادر میں احتجاج کے دوران مبینہ طور پر مظاہرین کی فائرنگ سے قتل ہونے والے پولیس اہلکار کا مقدمہ درج کر لیا گیا ہے۔ جلاؤ گھیراؤ، سرکاری املاک کو نقصان پہنچانے اور بلوا کے الزام میں مولانا ہدایت الرحمان سمیت حق دو تحریک کی قیادت کو مقدمے میں نامزد کیا گیا ہے۔‘

’گوادر کو حق دو تحریک‘ کی جانب سے غیرقانونی ماہی گیری کے خاتمے سمیت دیگر مطالبات کے حق میں 27 اکتوبر سے دھرنا دیا جا رہا تھا۔ (فائل فوٹو: ٹوئٹر)

دوسری جانب ’حق دو تحریک‘ کی جانب سے ٹوئٹر پر جاری کیے گئے ایک بیان میں الزام عائد کیا گیا ہے کہ ’اورماڑہ میں پولیس کے تشدد سے تحریک کے ایک کارکن کی موت ہو گئی ہے۔‘
تاہم اس خبر کی سرکاری طور پر اور موبائل فون نیٹ ورک بند ہونے کی وجہ سے آزاد ذرائع سے تصدیق نہیں ہو سکی۔
یاد رہے کہ بلوچستان کے ساحلی ضلع گوادر میں ’گوادر کو حق دو تحریک‘ کی جانب سے غیرقانونی ماہی گیری کے خاتمے، سرحدی تجارت آسان کرنے، لاپتہ افراد کی بازیابی، غیرضروری چیک پوسٹوں کے خاتمے سمیت دیگر مطالبات کے حق میں 27 اکتوبر سے دھرنا دیا جا رہا تھا۔ 25 اور 26 دسمبر کی درمیانی شب پولیس نے دھرنے کو ختم کرنے کے لیے کارروائی کی اور متعدد رہنماؤں اور کارکنوں کو گرفتار کر کے ٹینٹ وغیرہ اکھاڑ دیے۔
پولیس کی اس کارروائی کے بعد خواتین سمیت ہزاروں افراد سڑکوں پر نکل آئے اور مکران کوسٹل ہائی وے اور گوادر شہر کو بند کر دیا۔
احتجاج کے پہلے اور دوسرے روز مظاہرین نے ڈپٹی کمشنر کے سرکاری گھر، ڈی آئی جی پولیس کے دفتر اور دیگر سرکاری عمارتوں کا محاصرہ بھی کیا جس کے جواب میں پولیس نے مظاہرین پر آنسو گیس کی شیلنگ اور لاٹھی چارج کیا۔
صوبائی حکومت نے صورتحال پر قابو پانے کے لیے کوئٹہ اور صوبے کے باقی اضلاع سے ایک ہزار سے زائد اہلکاروں کو گوادر میں تعینات کیا ہے لیکن بھاری نفری کی موجودگی کے باوجود صورتحال معمول پر نہیں آ سکی ہے۔
مولانا ہدایت الرحمان کا تعلق جماعت اسلامی سے ہے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ بلوچستان حکومت نے جماعت اسلامی کی مرکزی قیادت سے رابطہ کیا ہے اور ان سے صورتحال کی بہتری میں تعاون مانگا ہے۔

حکومت کی جانب سے جلاؤ گھیراؤ اور بلوا کے الزام میں مولانا ہدایت الرحمان سمیت حق دو تحریک کی قیادت کو مقدمے میں نامزد کیا گیا ہے۔ (فائل فوٹو: سوشل میڈیا)

ادھر ضلع کیچ کے علاقے تربت میں گوادر میں حکومتی کارروائی کے خلاف احتجاج کرنے والے سابق رکن قومی اسمبلی مولانا عبدالحق بلوچ کے بیٹے صبغت اللہ شاہ اور وسیم سفر سمیت متعدد افراد کو گرفتار کر لیا گیا ہے۔
جماعت اسلامی نے گوادر میں مظاہرین پر تشدد کے خلاف ملک کے مختلف شہروں میں احتجاج کیا ہے۔ جماعت اسلامی سندھ نے جمعے کو سندھ میں یوم احتجاج منانے کا اعلان کیا ہے۔
بلوچستان کے وزیر داخلہ ضیا اللہ لانگو کا کہنا ہے کہ ’بلوچستان حکومت نے حق دو تحریک کے تمام مطالبات مان لیے تھے اس کے باوجود احتجاج جاری رکھنا سمجھ سے بالاتر ہے۔ حکومت کو احتجاج کے مقاصد کے حوالے سے خدشات اور تحفظات ہیں۔‘
کوئٹہ میں مشیر اطلاعات، ایڈیشنل سیکریٹری داخلہ، آئی جی پولیس اور محکمہ ماہی گیری کے حکام کے ہمراہ پریس کانفرنس کرتے ہوئے ضیا اللہ لانگو کا کہنا تھا کہ ’مولانا ہدایت الرحمان نے گوادر اور ملحقہ علاقوں کو یرغمال بنایا ہوا ہے اور حکومتی رٹ کو چیلنج کیا ہوا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ’مولانا ہدایت الرحمان کے مطالبات پر بلوچستان حکومت نے ہر ممکن کام کیا اور وفاق سے متعلق مطالبات پر بھی تعاون اور مدد کی پیشکش کی۔ بعض معاملات پر قانون سازی کی ضرورت ہے جس پر کام جاری تھا لیکن وقت کے ساتھ ساتھ حق دو تحریک کے مطالبات تبدیل اور فہرست لمبی ہوتی گئی۔‘
’انہوں نے وزیراعلیٰ اور حکومتی مذاکراتی وفد کا مذاق اڑایا، غیرسنجیدگی کا مظاہرہ کیا اور مذاکرات کے دوران کوئی لچک نہیں دکھائی۔‘

احتجاج کے دوران مظاہرین نے ڈپٹی کمشنر کے سرکاری گھر، ڈی آئی جی پولیس کے دفتر اور دیگر سرکاری عمارتوں کا محاصرہ بھی کیا۔ (فائل فوٹو: سوشل میڈیا)

ضیا لانگو کا کہنا تھا کہ ’چینی باشندوں کی سکیورٹی کے معاملات پر سمجھوتہ نہیں کر سکتے۔ مظاہرین نے ان کا راستہ بند کیا، سیاح کئی دن سے محصور تھے اس سے عالمی سطح پر ملک کی بدنامی ہورہی تھی۔ ہم نے مذاکرات کی کوشش کی لیکن مولانا ہدایت الرحمان نے تمام حدیں عبور کیں اور حکومتی رٹ کو چیلنج کیا۔‘
اس موقع پر آئی جی پولیس بلوچستان عبدالخالق شیخ کا کہنا تھا کہ حکومت دو ماہ سے جاری احتجاج کے شرکا کے مطالبات پر کام کر رہی تھی لیکن ان کے مطالبات 17سے بڑھ کر 39 ہو گئے۔‘
’مولانا ہدایت الرحمان کا مقصد مسائل کو حل کرنا نہیں احتجاج کو طول دینا تھا۔ جب احتجاج سے اپنی مرضی کی توجہ نہیں ملی تو اس میں تشدد کا عنصر لایا گیا۔‘

شیئر: