Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

الروحاء ، سیرت طیبہ کا ایک اہم مقام

’’ اس جگہ  مجھ سے قبل 70 نبیوں نے نماز پڑھی ہے،  اس وادی سے  موسیٰ بن عمران  70 ہزار بنو اسرائیل کو لے کر گزرے تھے‘‘
 
 میں نے کہا بکری کے صرف دو ہی بازو ہوتے ہیں، اس پر  رسول اللہ نے فرمایا کہ اگر تم جھک کر بکری کا بازو  حاصل کرنا چاہتے تو تمہیں  اور بازو مل جاتا
 
 
الروحاء کنواں  ان  مبارک کنوئو ں میں سے ایک ہے  جن سے  رسول اللہنے پانی پیا  اور جہاں  پیغمبر اسلام نے  نماز  ادا کرنے کا اہتمام کیا۔ الروحاء سے ایک مسجد بھی  منسوب ہے جہاں رسول اللہ نے نماز ادا کی تھی۔  الروحاء  وادی کا بھی نام ہے ۔ یہ تقریباً 25  مربع کلومیٹر میں پھیلی ہوئی ہے۔ وادی  السیالہ سے شروع ہوتی ہے  اور شرف الروحاء میں ختم ہوجاتی ہے۔  یہ مدینہ منورہ کی ایک وادی ہے۔ مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ کے درمیان قدیم روڈ پر  واقع ہے،  یہ دیار حرب  میں آتی ہے۔ اس میں   ایک معروف کنواں واقع ہے  جسے  ’’ بئر الروحاء‘‘  کہا جاتا ہے۔  نبی  کریم جب بھی عمرہ یا حج کا ارادہ کرتے  یا کسی غزوہ سے واپس ہوتے  تو  اس جگہ منزل کیا کرتے تھے۔
 
شرف الروحاء 
 
یہ وادی الروحاء کے آخر میں مغرب کی جانب واقع ہے۔  یہ  پہاڑی نما سطح مرتفع ہے ۔ یہ وادی الروحاء پر سایہ فگن ہے۔  اس میں ایک مسجد  اور ایک کنواں  الروحاء کے نام سے منسوب  ہیں۔
 
مسجد الروحاء 
 
 امام بخاری ؒ نے  نافع کی روایت  پیش کرکے  بیان کیا ہے کہ نبی اکرم   شرف الروحاء  میں موجود مسجد سے پہلے   چھوٹی مسجد میں نماز پڑھا کرتے تھے۔ 
 
الروحاء قافلوں کی منزل ہے۔ یہ  سیرت طیبہ کے معروف مقامات  میں سے  ایک ہے۔ رسول اللہ  عمرہ یا حج کیلئے آتے جاتے وقت  یا  بعض غزوات سے واپس ہوتے وقت اس میں ٹھہرا کرتے تھے۔ اس مقام سے بہت سارے واقعات جڑے ہوئے ہیں۔ احادیث مبارکہ میں اس کا تذکرہ کثرت سے آیا ہے۔ سیرت  کی کتابوں میں بھی  الروحاء  کا ذکر  خوب ملتا ہے۔  
 
الروحاء کا محل وقو ع
 
الروحاء مدینہ منورہ سے  80 کلومیٹر دور ہے۔  یہ  مدینہ منورہ سے دوسری  منزل ہے۔ یہ  پہلی منزل  السیالہ کے بعد  آتا ہے۔  یہ مدینہ منورہ سے  جانے والے  قافلوں کی منزلوں میں سے  ایک ہے۔
حضرت عبداللہ بن عمر  ؓبتاتے ہیں کہ  نبی کریم نے  شرف الروحاء میں  واقع مسجد سے پہلے  ایک چھوٹی سی مسجد میں نماز ادا کی تھی۔ حضرت عبداللہ بن عمر ؓ  کو وہ جگہ اچھی طرح سے معلوم تھی جہاں  رسول اللہ نے نماز ادا کی تھی۔  یہ مسجد  یمن کے  اس راستے  کے کنارے واقع تھی  جب آپ  مکہ جارہے ہوں اور آپ کے اور بڑی مسجد کے درمیان  ایک پتھر  کے پھینکنے کا فاصلہ باقی رہ جاتا ہو۔  
 
حضرت نافع بتاتے ہیں کہ عبداللہ نے انہیں بتایا کہ رسول اللہ عمرہ کیلئے  ذی الحلیفہ میں منزل کیا کرتے اور  حج کیلئے جاتے  تب بھی  وہاں ٹھہرا کرتے تھے۔   اسی جگہ  ذوالحلیفہ  کی مسجد بنی ہوئی ہے۔  
 
سعودی اسکالرز کی  ایک ٹیم نے  الروحاء کنویں  اور مسجد  کے نقوش متعین کرنے اور  اس کی تاریخی حیثیت  دریافت کرنے کیلئے  بدر روڈ  پر باقاعدہ  سفر کیا تھا۔  اسکالرز کی ٹیم میں  مدینہ منورہ  ریسرچ اینڈ اسٹیڈیز سینٹر کے  اسکالر ڈاکٹر احمد  شعبان  اور  استاد محمد یوسف  بھی شامل تھے۔  سفر کا آغاز 12 شوال 1430 ھ کو کیا گیا تھا۔  
 
روحاء کنویں ، مسجد اور وادی  کی   تاریخی حیثیت    دریافت کرنے کیلئے  نکلنے والی  اسکالرز کی ٹیم  نے  سفر کا آغاز غمیس الحمام سے کیا۔   یہ اِن دنوں  الغمیس کے نام سے مشہور  ہے  جبکہ ماضی میں  اسے غمیس الحمام کہا جاتا تھا۔  یہ  برساتی نالہ ہے  ،اس میں  السیال نامی درخت  کثیر تعداد میں پائے جاتے ہیں۔ اس سے گزرنے والا سیلاب  مغرب سے مشرق  اور پھر  شمال کی جانب جاتا ہے۔ آخر میں   عدنہ پہاڑ کے قریب  ملل کے نیچے جاملتا ہے۔  مکہ مکرمہ اور بدر کا راستہ غمیس الحمام ہوکر گزرتا ہے۔ پھر  ماضی  ٔقریب تک  السیالہ کی جانب جاتا تھا لیکن اب  پکا راستہ جنوب کا رخ کرلیتا ہے جہاں سے  وہ شمال کی طرف چل نکلتا ہے۔ 
 
اسکالرز کا کہنا ہے کہ غمیس الحمام کے بعد ہم  صخیرات  الیمام یا  الثمام  سے ہوکر گزرے ۔صخیرات  جمع کا صیغہ ہے۔  مفرد صخیرہ ہے  ،یہ صخیرہ کی تصغیر ہ ہے۔  الیمام  ایک  پرندے کا نام ہے۔  مقامِ مذکور گویا  الیمام پرندے  کا مسکن ہونے کے ناتے اسی کے نام سے  منسوب ہوگیا ہے۔ جہاں تک الثمام کا تعلق ہے تو  یہ  ایک معروف پودے کا نام ہے۔ صخیرات 200 میٹر کی  بلندی پر  قائم ہے۔   سیاہی مائل رنگ ہے۔ پہلے  صخیرات  راستے کے  دائیں جانب پڑتا  تھا ،اب  اس سے گزرنے والا  راستہ  جنوب میں پڑتا ہے۔ صخیرات کو دور سے دیکھا جاسکتا ہے۔ 
 
اسکالرز بتاتے ہیں کہ صخیرات الیمام  کے بعد وہ   عرق الظبیہ  سے ہوکر گزرے ۔ ماہرین لغت کہتے ہیں کہ  الظبیہ کا تلفظ 2 طرح سے ہوتا ہے۔ ایک تو یہ کہ ’’ظ ‘‘پرپیش  اور’’ ب‘‘ پر سکون’’ ی‘‘ پر زبر  دے کر پڑھا جائے ۔ دوسرا تلفظ یہ ہے کہ  ’’ظ ‘‘پر فتحہ دے کر پڑھا جائے۔  یہ  الظباء سے منسوب ہے۔  یہ مشہور جانور ہے ۔ اب بھی  اس علاقے میں    الظباء نامی جانور پایا جاتا ہے۔  ماضی میں گویا یہ  یا تو غار تھا یا  الظباء جانور کی چراگاہ۔ عرق  چٹان یا غار کو  کہتے ہیں۔  عرق الظبیہ سڑک کے  دائیں جانب واقع ہے ۔ آپ مدینہ منورہ سے آرہے ہوں تو یہ آپ کے دائیں جانب  پڑے گا۔  یہ  السیالہ سے 9 میل کے فاصلے پر ہے اور الروحاء کنویں سے 2 میل دور ہے۔ 
 
آجکل یہ  مدینہ منورہ سے  68 کلومیٹر اور الروحاء کنویں سے  ساڑھے 3 کلومیٹر کے فاصلے پر ہے۔  جنوب کی جانب سے اس کے بالمقابل  واقع الفج کو  ھبت کہا جاتا ہے  اور  مشرقی جانب سے  اس کے بالمقابل واقع گھاٹی کو  سفا کہتے ہیں۔ قدیم زمانے سے ہی  اس کا یہی نام چلا آرہا ہے۔  
 
 عرق  الظبیہ  وہ تاریخی مقام ہے جہاں مسلمانوں نے  قید سے فرار ہونے کی کوشش کرتے ہوئے  عقبہ بن ابی معیط کو قتل کیا تھا۔ 
 
 عمر بن عوف المزنی  بتاتے ہیں کہ   رسول اللہ  کا پہلا غزوہ  (غزہ  ابواء) تھا۔ میں  آپ کے ہمراہ تھا ۔جب وہ  عرق الظبیہ کے پاس  الروحاء پہنچے تو  آپ نے فرمایا  :کیا تمہیں اس پہاڑ کا نام معلوم ہے؟   (ورقان) صحابہ ؓ نے کہا کہ اللہ اور اس کے رسول  کو اس کا زیادہ علم ہے۔ یہ سن کر  آپ نے فرمایا: یہ  حمت ہے۔  یہ جنت کے  پہاڑوں میں سے ایک ہے،اے اللہ! ہمارے لئے  اس میں برکت  پیدا فرما  اور  اس پہاڑ کے باشندوں کیلئے  اس میں  خیرو برکت ڈال دے۔  رسول اللہ نے دریافت کیا آپ لوگ جانتے ہیں کہ اس وادی کا  کیا نام ہے؟  (وادی الروحاء)  آپ نے خود  ہی اپنے سوال کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ یہ  وادی  سجاسج ہے۔ اس جگہ  مجھ سے قبل 70 نبیوں نے نماز پڑھی ہے اور  اس وادی سے  موسیٰ بن عمران  70 ہزار بنو اسرائیل کو لے کر گزرے تھے۔  موسیٰ بن عمران  ورقہ نامی  اونٹنی  پر سوار تھے اور وہ  2 قطوانی عبائے اوڑھے ہوئے تھے۔  قیامت اس وقت تک نہیں آئے گی  تاوقیکہ کہ عیسیٰ بن مریم علیہ السلام حاجی یا معتمر کی حیثیت سے  یہاں سے نہ گزر جائیں۔ ممکن ہے کہ  اللہ تعالیٰ ان کیلئے یہ سب کچھ  جمع کردے۔ 
 
الواقدی اپنی  کتاب  مغازی کے صفحہ 46 پر تحریر کرتے ہیں 
رسول اللہ 14 رمضان کو عرق الظبیہ سے گزرے تھے ۔   ایک اعرابی   تہامہ سے حاضر ہوا ۔ اس موقع پر  صحابہ کرام رضی اللہ  تعالیٰ عنہم نے اس سے دریافت کیا کہ کیا  تمہیں  ابو سفیان بن حرب  کا کچھ پتہ ہے؟  اس نے جواب دیا  مجھے ابو سفیان کا کوئی علم نہیں۔  صحابہ کرام نے کہا آؤ رسول اللہ کو سلام کرو۔  اس پر اس نے کہا  کیا تمہارے ساتھ اللہ کے رسول ہیں؟  صحابہ کرام نے کہا جی ہاں۔ اس پر اس نے کہا  کہ تم میں سے کون شخص اللہ کا رسول ہے۔ صحابہ نے اشارے کرتے ہوئے کہا کہ یہ ہیں۔  اعرابی نے پوچھا کہ کیا آپ اللہ کے رسول ہیں؟ آپ نے جواب دیا جی ہاں۔  یہ سن کر اعرابی نے کہا کہ  اگر آپ سچے ہیں تو یہ بتائیں کہ  میری اونٹنی کے پیٹ میں کیا ہے؟  سلمہ بن سلامہ بن وقش نے کہا تھا کہ  آپ نے اس سے نازیبا حرکت کی ہے اور وہ  آپ سے امید سے ہے۔  رسول اللہ کو اس کی بات ناگوار گزری اور آپنے اس کی  طرف سے منہ پھیر لیا۔ 
 
خلاصہ الوفاء  باخبار  دار المصطفیٰ جلد دوم صفحہ 475  پر  تحریر ہے 
الاسدی کہتے ہیں کہ  جب آپ   السیالہ سے الروحاء کی طرف  جارہے ہوں اور  9 کلومیٹر  دور ہوں تو  نبی اکرم کی ایک مسجد آ تی ہے جسے  مسجد الظبیہ کہا جاتا ہے۔  یہا ںرسول  اللہ نے الروحاء سے 2 میل پہلے  اہل بدر سے  جنگ کا مشورہ کیا تھا۔
 
حضرت عائشہ صدیقہ  رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں 
 نبی اکرم نے  فجر کی نماز عرق الظبیہ میں ادا کی اور آپ ابن  شیبہ کیلئے  عرق الظبیہ میں  فروکش ہوئے تھے۔  یہ مسجد  الروحاء سے پہلے آتی ہے۔  آپنے یہاں صحابہ کرامؓ سے دریافت کیا  کہ کیا آپ لوگ اس پہاڑ کا نام جانتے ہیں؟ صحابہ  نے کہا کہ اللہ اور اس کے رسول کو  اس کا زیادہ علم ہے۔  یہ سن کر  آپنے فرمایا : یہ   حمت ہے ، یہ جنت کے پہاڑوں میں سے ایک  پہاڑ ہے، اے اللہ! ہمارے لئے  اس میں برکت  پیدا فرما  اور  اس پہاڑ کے باشندوں کیلئے  اس میں  خیرو برکت ڈال دے۔  رسول اللہ نے دریافت کیا آپ لوگ جانتے ہیں کہ اس وادی کا کیا نام ہے؟  (وادی الروحاء)  آپ نے خود  ہی اپنے سوال کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ یہ  وادی  سجاسج ہے۔ اس جگہ  مجھ سے قبل 70 نبیوں نے نماز پڑھی ہے۔  یہ جنت کی  وادیوں میں سے ایک وادی ہے۔ ایک روایت میں  ہے کہ رسول اللہ نے فرمایا کہ اس مسجد میں  70 نبیوں نے نماز ادا کی۔
 
راوی کہتا ہے کہ اس مسجد کے  نشانات  اب تک پائے جاتے ہیں۔  
اسکالرز کا کہنا ہے کہ شروع میں ہمیں  قدیم عمارتوں کے نشانات نظر آئے ۔ ہمارا خیال ہے کہ یہ مسافروں  کے قدیم  مراکز ہونگے۔  غالب گمان ہے کہ ان مقامات  پر مسافر منزل کیا کرتے ہونگے۔ 
 
اسکالرز بتاتے ہیں کہ ہمارا کارواں  عرق الظبیہ مسجد  پہنچا جہاں  رسول اللہ اور آپ سے قبل نبیوں نے نماز ادا کی تھی۔  اسکالرز کی ٹیم  نے  جگہ کی نشاندہی پر  ڈاکٹر احمد  الشعبی  کا جن کا تعلق  مدینہ منورہ سے ہے خصوصی شکریہ ادا کیا۔ 
 
اسکالرز بتاتے ہیں کہ  ہمارا قافلہ  رفتہ رفتہ  الروحاء پہنچا ۔  مقامات  کی تاریخ بیان کرنے والوں کی زبان میں یہ  طویل  مقام ہے۔ الروحاء  کا ابتدائی حصہ  تنگ  وادی  جیسا ہے۔ درمیانی حصہ کشادہ ہے ۔ اس کا آغاز  السیالہ  اور اختتام  المنصرف پر ہوتا ہے۔  تاریخ نویسوں نے  الروحاء  سے متعلق  مختلف تخمینے دیئے ہیں۔  غالب گمان یہ ہے کہ  الروحاء  25 کلومیٹر طویل ہے۔  الروحاء  مقام پر نبی کریم نے  الحارث بن حاطب  العرمی کو  بنی عمرو  بن  عوف  بھیجا تھا  ۔آپ نے انہیں  بنی عوف سے  ملنے والی  ایک اطلاع  کے حوالے سے تصدیق کیلئے بھیجا تھا۔ وہاں  ابو ہند نے   بدر سے آتے ہوئے  رسول اللہ نے ملاقات کی تھی۔ ابو ہند کے پاس  اصلی گھی  سے بھرا ہوا ایک مرتبان  تھا۔ ابو ہند رسول اللہکے حجام بھی تھے۔ 
 
 یاقوت  الحموی معجم البلدان میں لکھتے ہیں
  الروحاء  روح  اور  راحہ سے ماخوذ ہے۔  آرام  چاہنے کے معنیٰ میں آتا ہے۔  عرب  خوشگوار دن کیلئے یوم روح  استعمال کرتے ہیں۔  ابن  الکلبی بتاتے ہیں کہ جب   تبع  مدینہ کے باشندوں  سے لڑائی کرکے مکہ کیلئے واپس ہوا  تھا تو اس نے الروحاء  میں منزل کی تھی اور وہاں آرام کیا تھا اسی وجہ سے اس جگہ کا نام  الروحاء پڑ گیا تھا۔  بہت سارے لوگوں سے  دریافت کیاگیا کہ آخر  الروحاء کی وجہ تسمیہ کیا ہے؟  انہوں نے بتایا کہ  یہ جگہ کھلی ہوئی ہے اور آرام والی ہے  اسی وجہ سے  اسے یہ نام دے دیا گیا۔  
 
المطالب  العالیہ  بزوائد  المسانید الثمانیہ  میں  آیا ہے کہ ابو  یعلیٰ کہتے ہیں  اسامہ بن زید  بن حارثہ  رضی اللہ  تعالیٰ عنہ  نے خارجہ بن زید سے  بتایا کہ ہم  رسول اللہ  کے ساتھ سفر حج پر نکلے۔ جب ہم   الروحاء   کے درمیان پہنچے تو  رسول اللہ کے سامنے سے ایک خاتون ایک بچے کو  لے کر گزری۔  اس نے رسول اللہ  کو سلام کیا ۔ آپ اسے دیکھ کر رک گئے ۔ اس خاتون نے کہا کہ اے  اللہ کے رسول !یہ میرا فلاں بیٹا ہے۔  اس ذات کی ختم جس نے آپ کو حق کے ساتھ بھیجا ہے ،  میں نے جب سے اسے جنا  ہے  تب سے اب تک   یہ گھٹن کا شکار ہے۔  رسول اللہ نے   بچے کا  ہاتھ  پھیلایا  اور اپنے  اور کجاوے کے درمیان  رکھا  پھر رسول اللہ نے اس کے منہ میں اپنا لعاب ڈالا اور کہا  اللہ کے دشمن نکل جا۔ میں  اللہ کا پیغمبر ہوں۔ پھر رسول اللہ نے بچے کو خاتون کے حوالے کردیا  اور فرمایا  و اسے لے لو  اور آج کے بعد انشاء اللہ تمہیں اس بچے کے ساتھ کوئی ایسی چیز نظر نہیں آئے گی جس سے تم کسی الجھن میں پڑو۔ 
 
اسامہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیںکہ ہم نے حج کیا، پھر واپس ہوئے ۔ روحا ء میں منزل کی ۔ وہاں  اس بچے کی ماں  پھر ہمارے سامنے آگئی ۔  وہ ایک بکری بھنی ہوئی  لے کر آئی تھی۔ خاتون نے کہا کہ اے اللہ کے رسول! میں اس  بچے کی ماں ہوں جسے لے کر  میں آپکی خدمت میں حاضر  ہوئی تھی۔   اس نے کہا قسم اس ذات کی  جس نے آپ  کو  حق کے ساتھ بھیجا ہے ۔ میں نے  اس   بچے میں  اس وقت سے لے کر اب تک   ایسی کوئی چیز نہیں دیکھی جس سے میں الجھن میں پڑتی۔سیدنا  اسامہ رضی اللہ عنہ بتاتے ہیں کہ رسول اللہ نے  مجھ سے  کہا کہ اے  اسیم !  (امام  الزہری بتاتے ہیں کہ  رسول اللہ انہیں اسی نام سے پکارا کرتے تھے) مجھے اس کا بازو دو۔  اسامہ بتاتے ہیں کہ میں نے بکری کا بازو  توڑا اور  رسول اللہ کے حوالے  کردیا۔ آپ نے اسے  تناول کیا پھر آپنے فرمایا  :  مجھے اس کادوسرا بازو دو، میں نے اس کا  بازو توڑ کر رسول اللہ کے حوالے کردیا۔ آپنے اسے تناول کرکے کہا اے  اسیم! مجھے بازو دو۔   یہ سن کر میں نے کہا اے اللہ کے رسول  !  آپنے مجھ سے  فرمایا تھا ، اس کا بازو  دو  میں نے پیش کردیا تھا ، آپ نے اسے تناول کرلیا ، پھر آپنے فرمایا تھا کہ بازو دو ، جو میں نے  پیش کردیا تھا اور اسے  آپنے تناول کرلیا ۔اب آپ فرما رہے ہیں کہ مجھے بازو دو ۔  میں  نے کہا  کہ اے  رسول اللہ()! بکری کے صرف2 ہی بازو ہوتے ہیں۔ یہ سن کر  رسول اللہ نے فرمایا : اگر تم جھک کر بکری کا بازو  حاصل کرنا چاہتے تو تمہیں  اور بازو مل جاتا۔
 
’’روضۃ المحیبین ونزہ المشتاقین‘‘  میں  صفحہ 205 پر  آیا ہے کہ صحیحین میں  حضرت انس رضی اللہ عنہ نے  روایت کیا ہے کہ  رسول اللہ خیبر تشریف لائے ۔جب  اللہ تعالیٰ نے  قلعہ  آپکے ہاتھوں فتح کیا تو  آپ کے سامنے صفیہ بنت  حیی  کے حسن کی  تعریف کی گئی۔  ان کے شوہر کو  جنگ میں قتل کردیا گیا تھا۔  وہ دلہن تھیں۔  رسول اللہنے انہیں اپنے لئے منتخب فرما لیا تھا۔  آپ انہیں  لے کر روانہ ہوئے  اور جب  الروحاء  بند  کے پاس پہنچے تو  آپ نے  ان کے ساتھ رات گزاری ۔   پھر ایک چھوٹے سے  برتن میں  شوربہ  تیار کیاگیا۔ رسول اللہ نے فرمایا: لوگوں کو  بلا لو ۔  یہ  صفیہ بن حیی  کے ساتھ رسول اللہ کی شادی کا ولیمہ تھا۔ پھر ہم لوگ مدینہ  کیلئے نکل گئے۔  میں نے رسول اللہ کو دیکھا کہ  آپ  حضرت صفیہ  کے عبائے سے ان کیلئے پردہ کرتے پھر  اپنے اونٹ کے پاس بیٹھتے اور  اپنا گھٹنا پیش کرتے  اور  حضرت  صفیہ  اپنا پاؤں آپ کے گھٹنے پر رکھ کر اونٹ پر  سوار ہوجاتیں۔  
 
حضرت عائشہ رضی  اللہ تعالیٰ عنہا فرماتی ہیں کہ رسول اللہنے  حج اِفراد کیا  ۔اہل مدینہ  نے اسی کو اختیار کیا  اور یہی ان  کی روایت بن گئی۔  حضرت عائشہ فرماتی ہیں کہ اتوار کے روز  رسول اللہ  کو تھکان محسوس ہوئی تو آپنے شرف السیالہ میں  رات کا کھانا تناول کیا۔ آپنے وہیں مغرب و عشاء کی نماز ادا کی۔  آپنے فجر کی نماز  الروحاء اور السیالہ کے درمیان  واقع  عرق الظبیہ میں پڑھی۔ یہ الروحاء سے پہلے واقع ہے، پھر رسول اللہ  روحاء میں اترے۔
 
 
 
 
 
 

شیئر: