Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

کیا متحدہ ایم کیو ایم اپنی کھوئی ہوئی مقبولیت دوبارہ حاصل کر سکے گی؟

خالد مقبول صدیقی کا کہنا ہے کہ مینڈیٹ تقسیم اور سازش کرنے والوں کو آج مایوسی ہوئی۔ (فوٹو: سکرین گریب)
پاکستان کے صوبہ سندھ کے شہری علاقوں میں متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) سے الگ ہونے والے دھڑوں کے رہنماؤں نے ایک بار پھر ایم کیو ایم کے بینر تلے متحد ہونے کا اعلان کر دیا ہے۔
جمعرات کو ایم کیو ایم پاکستان کے مرکز بہادر آباد میں مشترکہ پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے ایم کیو ایم کے کنوینر خالد مقبول صدیقی، پی ایس پی کے سربراہ مصطفٰی کمال اور تنظیم بحالی کمیٹی کے صدر فاروق ستار نے ایم کیو ایم کے دھڑوں اور پی ایس پی کے انضمام کا اعلان کیا۔  
انہوں نے کہا کہ مینڈیٹ تقسیم اور سازش کرنے والوں کو آج مایوسی ہوئی۔
خالد مقبول صدیقی نے کہا کہ ’مشترکہ کاوشیں رنگ لائی ہیں۔ فاروق ستار نے ایم کیو ایم کو ’ری برانڈ‘ کرنے کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ ’ماضی کی چھاپ اُتاریں گے۔ ایک دوبارہ اصلاح شدہ ایم کیو ایم بنائیں گے۔‘ 
خیال رہے سندھ کے شہری علاقوں میں ایم کیو ایم کے دھڑوں کے انضمام کے حوالے سے  ہلچل اس وقت شروع ہوئی جب وزیراعظم شہباز شریف کی حکومت نے ایم کیو ایم پاکستان کے رہنما کامران ٹیسوری کو سندھ کا گورنر مقرر کیا۔
کامران ٹیسوری نے نہ صرف ایم کیو یم کے تمام دھڑوں کے رہنماؤں سے رابطے کیے بلکہ انہیں ایک چھت تلے ساتھ بٹھانے میں بھی کامیاب رہے۔
انضمام سے ایک دن پہلے کراچی میں متحدہ قومی موومنٹ کے تحت صوبائی الیکشن کمیشن کے دفتر کے باہر سندھ میں حلقہ بندیوں کے خلاف احتجاجی مظاہرے میں تمام دھڑوں کے رہنماؤں نے شرکت کی تھی۔
ایم کیو ایم پاکستان کی رابطہ کمیٹی کے رکن وسیم آفتاب نے اردو نیوز کو بتایا کہ تمام جماعتوں کے رہنماؤں پر باہمی اختلافات بُھلا کر ساتھ بیٹھنے کا عوامی دباؤ تھا کیونکہ ’پی پی پی اپنی وڈیرانہ ذہنیت سے باہر نہیں آرہی۔

Caption

وسیم آفتاب نے کہا کہ ضم اس لیے ہوئے کیونکہ اگر ہر آدمی اپنے الگ انتخابی نشان پر کھڑا ہوگا تو مسئلہ برقرار رہے گا۔

ایم کیو ایم کے تمام دھڑوں کو ساتھ بیٹھنے کی ضرورت کیوں محسوس ہوئی؟

ایم کیو ایم پاکستان کو اپنے بانی رہنما الطاف حسین سے علیحدگی اختیار کرنے کے بعد 2018 کے عام انتخابات میں عمران خان کی جماعت پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے ہاتھوں شکست کا سامنا کرنا پڑا تھا۔
ایم کیو ایم پاکستان نے 22 اگست 2016 کو الطاف حسین کی کراچی میں ایک تقریر کے بعد خود کو اپنے رہنما سے الگ کر لیا تھا۔
کراچی میں تقریباً تین دہائیوں سے زیادہ حکمرانی کرنے والی ایم کیو ایم الطاف حسین سے علیحدگی کے بعد شہر میں 21 میں سے صرف 4 قومی اسمبلی کی سیٹیں جیت پائی تھی جبکہ پی ٹی آئی نے شہر سے 14 قومی اسمبلی کی نشستیں جیت کر سب سے بڑی پارٹی بن گئی تھی۔
شہری سندھ سے ایم کیو ایم نے صوبائی اسمبلی کی 15 جبکہ پی ٹی آئی نے 22 نشستیں جیتی تھیں۔
کراچی کی شہری سیاست پر گہری نگاہ رکھنے والے تجزیہ کار ضیا الرحمان کا کہنا ہے کہ ’ایم کیو ایم سندھ کے شہری علاقوں کی ایک مضبوط جماعت ہوا کرتی تھی لیکن 2013 میں شروع ہونے والے سکیورٹی آپریشن اور پھر 2016 میں الطاف حسین کی تقریر کے بعد ایم کیو ایم دھڑوں میں تقسیم ہوگئی جس سے پارٹی کے ووٹ بینک کو نقصان پہنچا۔
ایم کیو ایم کے دھڑوں کی قربت پر تبصرہ کرتے ہوئے ضیا الرحمان کا کہنا تھا کہ ’کچھ حلقے یہ سمجھتے ہیں کہ پی ٹی آئی کو کراچی میں کاؤنٹر (روکنے) کے لیے ایم کیوایم کے دھڑوں کو اکٹھا کیا جا رہا ہے۔
ضیا الرحمان کے مطابق ایم کیو ایم  کے تمام دھڑے اکٹھے ہونے کے باوجود بھی اگست 2016 سے پہلے والی ایم کیو ایم دوبارہ بننا مشکل ہے۔

ضیا الرحمان کہتے ہیں کہ ایم کیو ایم کو متحد ہونے کے باوجود  ایک نہیں بلکہ دو چیلنجز کا سامنا ہے۔ (فوٹو: اے ایف پی)

وہ سمجھتے ہیں کہ ’نئی مردم شماری کے بعد جو نئی حلقہ بندیاں کی گئی ہیں اس کے تحت کسی بھی لسانی تنظیم کا بڑی تعداد میں سیٹیں جیتنا ناممکن ہے اور پی ٹی آئی کی کراچی میں جیت ایسے ہی عمل میں آئی تھی۔‘
نئی حلقہ بندیوں کے بعد انتخابات میں جیتنے کے چانسز اس جماعت کے زیادہ ہیں جس کی تمام زبانیں بولنے والی برادریوں میں مقبولیت ہو گی۔‘
ایم کیو ایم پاکستان کے رہنما وسیم آفتاب، ضیا الرحمان سے اتفاق کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ان کی پارٹی کو درپیش مسائل کی وجہ وہ تقسیم ہے جس کا شکار ایم کیو ایم کے دھڑے ہیں۔‘
تاہم وہ یہ بات ماننے پر راضی نہیں کہ پی ٹی آئی کی مقبولیت میں سندھ کے شہری علاقوں میں اضافہ ہوا ہے۔ ’پی ٹی آئی کا ووٹ بینک ہے اور اس سے کوئی انکار نہیں کر سکتا لیکن یہ بھی سچ ہے کہ پی ٹی آئی کو 2018 میں کراچی سے موقع ملا لیکن انہوں نے شہر کے لیے کوئی کام نہیں کیا۔‘

کیا ایم کیو ایم اپنا کھویا ہوا مقام واپس پا سکتی ہے؟

ضیا الرحمان کہتے ہیں کہ ’ایم کیو ایم کو متحد ہونے کے باوجود  ایک نہیں بلکہ دو چیلنجز کا سامنا ہے۔‘
ایک طرف پی پی پی ہے جو ایم کیو ایم کی کمزوری کو فائدہ اٹھا کر سندھ کے شہری علاقوں میں جگہ بنانا چاہتی ہے جب کہ دوسری جانب پی ٹی آئی جو 2018 کے انتخابات میں کراچی میں تقریباً ایم کیو ایم کا متبادل ثابت ہوئی ہے۔‘
ان کا مزید کہنا تھا کہ ’ایم کیو ایم کے تمام دھڑوں کو متحد ہونے کے باوجود ان چیلنجز سے نبرد آزما ہونا آسان نہیں ہوگا۔‘
کراچی میں ہی مقیم ایک اور تجزیہ کار عامر ضیا نے اردو نیوز کو بتایا کہ’پے در پے انتخابی ناکامیوں کے سبب ایم کیو ایم کے تمام دھڑوں پر کارکنان کا دباؤ تھا کہ اگر اب ایک نہیں ہوئی تو شاید اگلے الیکشنز میں بھی شکست کا منہ دیکھنا پڑے گا۔
ایم کیو ایم کے لندن میں مقیم بانی الطاف حسین کی حمایت میں بینرز اور پوسٹرز اب اکثر کراچی میں نظر آتے ہیں جس سے یہ قیاس آرائیاں بھی جنم لے رہی ہیں کہ شاید ان کے لیے سندھ کی سیاست میں دوبارہ جگہ بن سکتی ہے۔

عامر ضیا کے مطابق ایم کیو ایم اگر پھر سے لسانی نعروں پر الیکشنز لڑے گی تو اس کا مستقبل اچھا نہیں ہوگا۔ (فوٹو: اے ایف پی)

اس حوالے سے کراچی میں تعینات ایک حساس ادارے کے افسر نے اردو نیوز کو بتایا کہ ’مجھے نہیں لگتا کہ الطاف حسین کی کراچی کی سیاست میں کوئی جگہ ہے۔ جو الطاف حسین کے بینرز یا پوسٹرز بھی چھاپتے ہیں ان کے پاس ہم اُس ہی دن پہنچ جاتے ہیں اور انہیں طریقے سے منع کرتے ہیں کہ ایسا آئندہ نہیں ہونا چاہیے۔‘
ایم کیو ایم کے مستقبل کے حوالے سے عامر ضیا کا کہنا تھا کہ ’الطاف حسین اپنی پارٹی سے بڑی شخصیت تھے اور ان کے بغیر یہی ہوگا کہ ایم کیو ایم کا جو دھڑا طاقتور ہوگا وہ پارٹی میں اپنا لیڈر لگا لے گا۔‘
انہوں نے مزید کہا کہ ’ایم کیو ایم کو اب نیا بُت تراشنا ہوگا کیونکہ الطاف حسین 1990 کی دہائی سے برطانیہ میں مقیم ہیں اور نئی نسل انہیں نہیں جانتی۔‘
عامر ضیا کے مطابق ایم کیو ایم اگر پھر سے لسانی نعروں یا پرانے بیانیے پر الیکشنز لڑے گی تو اس کا مستقبل اچھا نہیں ہوگا کیونکہ کراچی میں پاکستان کی تمام قومیں آباد ہیں اور اسے دوبارہ اپنا کھویا ہوا مقام پانے کے لیے مہاجر نعروں سے بالاتر ہو کر سب کے لیے سیاست کرنا ہوگی۔

شیئر: