Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

اسمبلیوں کی تحلیل: کیا عمران خان کی حکمتِ عملی کامیاب ہو پائے گی؟

ماہرین کے مطابق ’عمران خان کے اقدام سے حکومت مشکل میں آگئی ہے‘ (فائل فوٹو: پی ٹی آئی ٹوئٹر)
سابق وزیراعظم اور چیئرمین تحریک انصاف عمران خان کی جانب سے پہلے پنجاب اسمبلی اور آئندہ دو روز میں خیبر پختونخوا اسمبلی تحلیل کرنے کے اعلان نے معاشی مسائل کی شکار وفاقی حکومت کو سیاسی مشکلات میں بھی دھکیل دیا ہے۔
جمعرات کو وزیراعلٰی پنجاب پرویز الٰہی نے صوبے کے گورنر بلیغ الرحمان کو اسمبلی تحلیل کرنے کے لیے خط لکھ دیا اور اس اقدام کے ذریعے عمران خان نے وفاق میں حکومت کو جلد الیکشنز پر مجبور کرنے کے لیے ایک بہترین پتہ کھیل دیا ہے۔
پاکستان میں اگلے عام انتخابات اکتوبر 2023 میں ہونے ہیں لیکن عمران خان گذشتہ سال اپریل میں اپنی حکومت کے خاتمے کے بعد سے جلد انتخابات کے مطالبے پر ڈٹے ہوئے ہیں۔
پاکستان تحریک انصاف کے سربراہ کئی بار کہہ چکے ہیں کہ ’صوبائی اسمبلیاں ٹوٹنے سے 66 فیصد پاکستان الیکشنز میں چلا جائے گا اور پی ڈی ایم کے لیے وفاق میں حکومت چلانا مشکل ہو جائے گا۔‘
عمران خان کے مطابق ’الیکشن کمیشن کی آئینی ذمہ داری ہے کہ اسمبلی تحلیل ہونے کی صورت میں 90 دن کے اندر انتخابات کروائے۔‘
وفاقی حکومت کے لیے الیکشن میں تاخیر مشکل
اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے سیاسی تجزیہ کار ضیغم خان کا کہنا تھا کہ ’ان کے خیال میں عمران خان کے اقدام سے حکومت اور اسٹیبلشمنٹ پر بہت پریشر بڑھ گیا ہے کیونکہ اگر پنجاب میں الیکشنز ہوں گے تو وفاق میں الیکشنز نہ کرانا مشکل ہو جائے گا۔‘
اگر وفاق میں الیکشنز نہیں کراتے تو اس سال کئی ماہ تک الیکشن سیزن چلے گا اور صوبوں اور وفاق کی سطح پر منتخب حکومتیں اس عرصے میں نہیں ہوں گی۔‘
ضیغم خان کے مطابق ’دوسرا پہلو یہ بھی ہے کہ جب دو صوبوں میں الیکشن ہوں گے تو وفاق میں نیوٹرل حکومت نہیں ہو گی اور جب وفاق میں الیکشنز ہوں گے تو صوبوں میں نیوٹرل حکومت نہیں ہوگی۔‘

تجزیہ کاروں کے مطابق ’عمران خان کے اقدام نے پی ڈی ایم حکومت کو مشکل میں ڈال دیا ہے‘ (فائل فوٹو: اے ایف پی)

ان کا کہنا تھا کہ ’پی ٹی آئی کے فیصلے کے بعد ملک میں سیاسی اور معاشی سطح پر ایک بڑا بحران پیدا ہو گیا ہے اور لگتا ہے کہ اسٹیبلشمنٹ بھی اب کہے گی کہ جلد الیکشنز کروا ہی لیے جائیں۔‘
عمران خان کی سیاسی حکمت عملی کے حوالے سے سوال پر ضیغم خان کا کہنا تھا کہ ’سابق وزیراعظم احتجاج کے ذریعے حکومت کو الیکشنز پر مجبور کرنے میں ناکام ہونے کے بعد اب آئینی طریقے سے حکومت کو دباؤ میں لانے میں کامیاب ہو گئے ہیں۔‘
ان کا کہنا ہے کہ ’اگر معاشی بحران نہ ہوتا تو یہ سیاسی بحران اتنا بڑا نہ ہوتا۔‘

اگر وفاق میں الیکشنز نہ ہوئے تو عمران خان کی حکمت عملی ناکام تصور ہو گی

پلڈاٹ کے صدر احمد بلال محبوب کا کہنا تھا کہ ’عمران خان کے اقدام سے حکومت مشکل میں آگئی ہے کیونکہ اب اس کی معاشی حالات سے توجہ بٹ جائے گی۔‘
’حکومت کو اندازہ ہے کہ عوامی مقبولیت ان کے حق میں نہیں ہے اس لیے حکومت فوری طور پر الیکشنز میں نہیں جانا چاہتی، تاہم اب وہ دفاعی پوزیشن میں آگئی ہے کیونکہ آئین کے مطابق صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات بہرحال کروانا ہوں گے۔‘
احمد بلال محبوب کہتے ہیں کہ ’اگر حکومت صوبائی الیکشنز بھی کرواتی ہے تو امن و امان کے مسائل بھی ہیں اور معاشی مسائل بھی درپیش ہوں گے، تاہم اب دیکھنا یہ ہوگا کہ ان انتخابات کے نتائج کس کے حق میں آتے ہیں۔‘

پلڈاٹ کے صدر کا کہنا تھا کہ ’عمران خان کے اقدام سے حکومت مشکل میں آگئی ہے‘ (فائل فوٹو: عمران خان فیس بک)

اس سوال پر کہ کیا عمران خان نے اپنے سیاسی پتے درست طور پر کھیل دیے ہیں پلڈاٹ کے سربراہ کا کہنا تھا کہ ’سابق وزیراعظم نے ذاتی مفاد کے مطابق تو درست فیصلہ کیا مگر ملکی حالات کے مطابق یہ ذمہ دارانہ اقدام نہیں ہے۔‘
’دوسری طرف اہم پہلو یہ بھی ہے کہ کیا وہ حکومت کو وفاق میں الیکشنز پر مجبور کر پائیں گے۔ مجھے تو نہیں لگتا کہ حکومت الیکشنز پر مجبور ہوگی اور اگر وفاق میں الیکشنز نہ ہوئے تو سوال یہ ہو گا کہ عمران خان کو کیا ملا؟‘
ان کے مطابق ’دونوں صوبوں میں تو پہلے ہی ان کی حکومت تھی، اگر دوبارہ بن گئی تو بھی کیا ہو گا اور یہ بھی ہو سکتا ہے کہ وہ ہار جائیں۔‘
’اگر خیبر پختونخوا اور پنجاب میں اسمبلیاں تحلیل ہوتی ہیں تو ان صوبوں میں نئے انتخابات وفاق میں پی ڈی ایم حکومت کی نگرانی میں ہوں گے جس پر تحریک انصاف کو اعتراض ہوسکتا ہے۔‘

شیئر: