Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

پنجاب اسمبلی کی تحلیل: صوبے میں نگران حکومت کیسے قائم ہو گی؟

پاکستان کے سب سے بڑے صوبہ پنجاب کی اسمبلی کو تحلیل کرنے کی سمری پر وزیراعلٰی چوہدری پرویز الٰہی نے دستخط کر دیے ہیں۔
جمعرات کی رات کو گورنر بلیغ الرحمان نے سمری گورنر ہاؤس کو موصول ہونے کی تصدیق بھی کردی۔
پاکستان کے آئین کے مطابق اب گورنر پنجاب کو آئندہ 48 گھنٹوں تک اسمبلی کو تحلیل کرنے کا نوٹی فیکیشن جاری کرنا ہوگا بصورت دیگر پنجاب اسمبلی خود بخود تحلیل تصور ہوگی۔
بظاہر ایسے معلوم ہو رہا ہے کہ صوبے کی سب سے بڑی اپوزیشن جماعت مسلم لیگ ن اسمبلی تحلیل کرنے کے عمل کو مزید روکنے کا ارادہ نہیں رکھتی۔
لیگی رہنما عطااللہ تارڑ نے اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ ’ابھی واضح پارٹی پالیسی اس حوالے سے نہیں آئی کہ آئندہ کا لائحہ عمل کیا ہو گا۔‘
’تاہم میری رائے ہے کہ اسمبلی کو تحلیل ہونے دیا جائے ہمارا زیادہ فائدہ اسی میں ہے۔‘
خیال رہے کہ اس سے پہلے مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی نے مل کر پنجاب اسمبلی کی تحلیل کو رکوانے کے لیے وزیراعلٰی پرویز الٰہی کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک جمع کروائی تھی۔
 بعد ازاں گورنر پنجاب نے بھی وزیراعلٰی کو اعتماد کا ووٹ لینے کا کہا تھا تاہم کوئی تدبیر بھی کارگر نہیں ہوئی۔
قانون کے مطابق اسمبلی کی تحلیل کے بعد وزیراعلٰی اور اپوزیشن لیڈر مشاورت سے نگران وزیراعلٰی کا انتخاب کریں گے جو کہ انتخابات تک نگران حکومت کے سرابرہ ہوں گے۔
اگر وزیراعلٰی اور اپوزیشن لیڈر کسی نگران وزیراعلٰی کے ایک نام پر متفق نہیں ہوتے آئین کے مطابق اس کے بعد ایک پارلیمانی کمیٹی جس میں حکومت اور اپوزیشن کے ممبران ہوں گے کسی ایک نام پر اتفاق کی کوشش کرے گی۔

وزیراعلٰی پرویز الٰہی نے 12 جنوری کو اسمبلی تحلیل کرنے کی سمری پر دستخط کیے (فوٹو: پرویز الٰہی ٹوئٹر)

اگر کمیٹی بھی کسی نتیجے تک نہیں پہنچتی تو پھر الیکشن کمیشن نگران وزیر اعلٰی اپنی مرضی سے لگائے گا۔ نگران حکومت نئے انتخابات تک اپنی ذمہ داریاں نبھائے گی۔
اس وقت پنجاب کے اپوزیشن لیڈر حمزہ شہباز ملک سے باہر ہیں۔ مسلم لیگ ن کے مطابق وہ لندن میں ہیں تاہم ان کی واپسی کب ہو گی اس حوالے سے ابھی کوئی اعلان نہیں کیا گیا۔
قانونی ماہرین کے مطابق اپوزیشن لیڈر کی موجودگی کے بغیر نگران وزیر اعلٰی  لگائے جانے کا عمل مکمل نہیں ہو سکتا۔
آئین میں مشاورت کے حوالے سے ٹائم فریم بھی طے ہے کہ اسمبلی تحلیل ہونے کے فوری بعد وزیراعلٰی اور اپوزیشن لیڈر کے پاس تین دن کا وقت ہو گا کہ وہ نگران وزیراعلٰی کو نامزد کریں۔
تین دن میں یہ عمل مکمل نہ ہونے کی صورت میں دونوں پارٹیوں کی پارلیمانی پارٹی کے پاس تین دن کا وقت ہو گا کہ وہ نگران وزیراعلٰی کو نامزد کرے۔
اگر وہ بھی تین دن میں کسی حتمی نتیجے پر نہیں پہنچتی تو پھر دونوں طرف سے ایک ایک نام الیکشن کمیشن کو بھیجا جائے گا وہ جسے مرضی نگران وزیر اعلٰی لگا دے۔

نگران وزیراعلٰی کے نام پر اتفاقِ رائے نہ ہونے پر حتمی فیصلہ الیکشن کمیشن کرے گا (فائل فوٹو: اے ایف پی)

گورنر کی جانب سے اسمبلی تحلیل کی سمری پر دستخط ہوتے ہی صوبائی کابینہ خود بخود تحلیل ہو جائے گی۔ البتہ وزیراعلٰی نگران وزیراعلٰی کی تعیناتی تک صوبے کے علامتی سربراہ رہیں گے۔
اسی طرح اپوزیشن لیڈر کے پاس بھی اس وقت تک پروٹوکول رہے گا جب تک مشاورت کا عمل مکمل نہیں ہو جاتا۔
اس وقت دونوں بڑی سیاسی جماعتیں تحریک انصاف اور مسلم لیگ ن یہ دعویٰ کرتی نظر آرہی ہیں کہ اسمبلی کی تحلیل کا سیاسی فائدہ انہیں ہو گا۔
تحریک انصاف اس کو عام انتخابات کی طرف پیش قدمی بتا رہی ہے تو ن لیگ کا کہنا ہے کہ اسمبلی تحلیل کر کے تحریک انصاف نے اپنا نقصان کیا ہے۔
سیاسی مبصرین کا خیال ہے کہ نگران حکومت کے لیے بھی پیچیدگی پیدا ہو سکتی ہے کیونکہ عمران خان الیکشن کمیشن کو تنقید کا نشانہ بناتے رہے ہیں۔
اسی طرح نئے اضلاع میں حلقہ بندیوں کے لیے بھی الیکشن کمیشن کو وقت درکار ہوگا۔ اس لیے انتخابات کا وقت پر ہونا مشکل بھی ہو سکتا ہے۔

شیئر: