محمد عمران کا تعلق راولپنڈی سے ہے لیکن ان کے والدین ایک عرصے سے سعودی عرب میں مقیم ہیں۔ ایف ایس سی کے بعد محمد عمران نے ایم بی بی ایس کرنے کے لیے پاکستان کے مختلف میڈیکل کالجز میں آن لائن داخلے کے لیے اپلائی کیا تو آن لائن درخواست ایک مرحلے پر پہنچ کر مزید پروسیس ہونا رُک گئی۔
آن لائن درخواست میں یہ آپشن لازمی مکمل کرنا ضروری رکھا گیا تھا کہ داخلے کے خواہش مند طلبہ اپنا ڈومیسائل (شناختی دستاویز) اپ لوڈ کریں گے تو ہی درخواست مکمل ہوگی۔
مزید پڑھیں
دوسری جانب داخلے کی آخری تاریخ بھی گزرتی جا رہی تھی۔
محمد عمران اور ان کے والد نے کالجز کی انتظامیہ سے رابطہ کیا اور انہیں بتایا کہ وہ اوورسیز پاکستانی ہیں اور ان کے پاس ڈومیسائل نہیں ہے لیکن انہیں جواب ملا کہ ’فارمیلٹی تو پوری کرنا ہو گا۔‘
مرتے کیا نہ کرتے کے مصداق محمد عمران ہنگامی بنیادوں پر ٹکٹ خرید کر پاکستان پہنچے۔ ڈومیسائل بنوایا اور وہ اپ لوڈ ہونے کے بعد ان کا داخلہ فارم مکمل ہوا۔
ایسا ہی ایک واقعہ سعودی عرب میں ہی مقیم شازیہ انور کے ساتھ پیش آیا جنہوں نے انجیئرنگ کے شعبے میں اوورسیز کے کوٹے پر بیک وقت دو تین جامعات میں داخلے کی کوشش کی۔
اردو نیوز سے گفتگو میں انہوں نے بتایا کہ ابتدائی معلومات آن لائن فراہم کرنے کے بعد جب فارم جمع کرانے کی کوشش کی تو اس پر اعتراض ہوا کہ جب تک آپ ڈومیسائل کی فوٹو اپ لوڈ نہیں کریں گی، اس وقت تک ابتدائی داخلہ فیس جمع کرانے کے لیے چالان فارم جاری نہیں کیا جائے گا۔
ان کا کہنا ہے کہ وہ جدہ میں تھیں اور انہیں انٹری ٹیسٹ کی تیاری کے بعد اپنے خاندان کے ساتھ پاکستان آنا تھا۔ لیکن اس شرط کی وجہ سے انہیں ہنگامی بنیادوں پر اکیلے پاکستان کا سفر اور ڈومیسائل حاصل کر کے یونیورسٹی میں جمع کروانا پڑا۔
شازیہ انور نے بتایا کہ درخواست دینے کے بعد انہیں بتایا گیا کہ ڈومیسائل 15 دن بعد ملے گا لیکن ان کی یونیورسٹی میں داخلے کی آخری تاریخ چار دن بعد تھی۔
اس کے بعد انہیں مختلف دفاتر میں منت سماجت کرنا پڑی اور بہت مشکلات سہنے کے بعد چوتھے دن یونیورسٹی میں داخلے کا وقت ختم ہونے سے ایک گھنٹہ پہلے انہیں بغیر دستخط کے کاپی فراہم کی گئی اور کہا گیا کہ اس کو اپ لوڈ کر دیں، گزارا چل جائے گا۔ دستخط شدہ ڈومیسائل بعد میں ملے گا۔
ڈومیسائل کیا ہے اور کیوں ضروری ہے؟
پاکستان کے سیٹیزن شپ ایکٹ 1951 کے تحت جاری ہونے والی ایک شناختی دستاویز جو اس بات کی تصدیق کرتی ہے کہ آپ کس تحصیل یا ضلع کے رہائشی شہری ہیں، ڈومیسائل کہلاتی ہے۔
پاکستانی بیوروکریسی کے اعلٰی افسر اور سابق ڈپٹی کمشنر اسلام آباد حمزہ شفقات کے مطابق ’سیٹیزن شپ ایکٹ کے تحت علاقے کا ڈپٹی کمشنر کچھ دستاویز جن میں ریونیو رپورٹ، بجلی کا بل وغیرہ شامل ہیں کو دیکھ کر تصدیق کرتا ہے کہ ڈومیسائل کے لیے درخواست دینے والا شہری متعلقہ علاقے کا رہائشی ہے کہ نہیں۔‘
’کسی بھی صوبے کا ڈومیسائل حاصل کرنے کے لیے ضروری ہے کہ سائل وہاں کم از کم تین سال سے رہ رہا ہو۔‘
پاکستان کے بڑے تعلیمی اداروں میں داخلے اور سرکاری ملازمتوں کے حصول کے لیے کوٹہ نظام رائج ہے اور اس کوٹے کے تحت خود کو ایک مخصوص علاقے کا شہری ثابت کرنے کے لیے ڈومیسائل کو لازمی قرار دیا جاتا ہے۔

یہ نظام آئین پاکستان میں دیا گیا ہے جسے بتدریج ختم ہونا تھا لیکن جن محرومیوں کی وجہ سے یہ متعارف کرایا گیا تھا وہ محرومیاں ختم ہوئیں اور نہ ہی یہ کوٹہ سسٹم۔
کوٹہ سسٹم 1948 میں رائج ہوا اور اس میں مختلف ترامیم ہوتی رہیں لیکن 1973 سے اب تک اس میں کوئی ترمیم نہیں کی گئی۔
1973 کے کوٹہ سسٹم کے مطابق سرکاری ملازمتوں میں پنجاب کا کوٹہ 50 فیصد، سندھ کا 19 فیصد، بلوچستان کا 4.5 فیصد، خیبر پختونخوا 11.4 فیصد، گلگت بلتستان اور فاٹا 4 فیصد جبکہ پاکستان کے زیرانتظام کشمیر کا کوٹہ دو فیصد ہے۔ فاٹا اصلاحات کے بعد فاٹا کا کوٹہ بھی خیبرپختونخوا میں ضم کر دیا گیا ہے۔
اس کوٹہ سسٹم کی منصفانہ تقسیم کے لیے ہی ڈومیسائل کا نظام ابھی تک چل رہا ہے تاکہ متعلقہ علاقے کے شہری اپنے علاقے کے کوٹے سے محروم نہ کیے جا سکیں۔
بڑے تعلیمی اداروں میں کوٹے کا معیار مختلف ہے لیکن اس کے باوجود ڈومیسائل کی شرط وہاں بھی لازم ہے۔
حمزہ شفقات کے مطابق ’ڈومیسائل صرف اس صورت میں درکار ہے جب آپ کو کسی ایسی جگہ ملازمت یا تعلیم حاصل کرنی ہو جہاں کوٹہ قانون لازم ہے بصورت دیگرڈومیسائل بنوانے کی ضرورت نہیں ہے۔‘
شناختی کارڈ کے ہوتے ہوئے ڈومیسائل کی اہمیت کیوں ہے؟
پاکستان میں شناختی کارڈ بنوانے کے لیے جو معلومات اور دستاویزات رجسٹریشن اتھارٹی ’نادرا‘ کی جانب سے طلب کی جاتی ہیں اور ان کے ڈیجیٹل ریکارڈ کا حصہ بنتی ہیں، وہ اس بات کا تعین کرنے کے لیے کافی ہیں کہ متعلقہ شہری کا بنیادی تعلق کس صوبے، ضلعے اور تحصیل سے ہے۔
صرف یہی نہیں بلکہ عارضی پتے کے اندراج سے اس کی رہائش کا بھی پتا چلایا جا سکتا ہے۔
اس لیے قانونی ماہرین سمجھتے ہیں کہ ڈومیسائل کا اجراء عوام اور سرکار کے وسائل کے ضیاع کے مترادف ہے۔ اور اس کا قانون پرانا ہو چکا ہے جسے ختم کر دیا جانا چاہیے۔
سپریم کورٹ آف پاکستان کے وکیل ریاض راہی ایڈووکیٹ کے مطابق ’1973 میں نیشنل رجسٹریشن ایکٹ لاگو ہو جانے کے بعد سیٹیزن شپ ایکٹ 1951 ختم ہوجانا چاہیے تھا۔ اگر کسی کو رہائشی سرٹیفکیٹ کی پھر بھی ضرورت ہو تو متعلقہ تحصیل دار بنا کر دے سکتا ہے۔ ڈومیسائل کا قانون ایک زمانے میں ان افراد کے لیے بنایا گیا تھا جو انڈیا سے ہجرت کرکے پاکستان آئے تھے۔ اب عملی طور پر اس کی ضرورت نہیں رہی۔‘
