Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

’ٹینک بنیادی ضرورت‘، یوکرین کے مطالبے پر اتحادی متفق نہ ہو سکے

ولادیمیر زیلنسکی نے کہا کہ انہیں ان سب سے زیادہ جنگی ٹینکوں کی ضرورت ہے (فوٹو:اے ایف پی)
یوکرین کے صدر ولادیمیر زیلنسکی نے کہا ہے کہ ’مغرب کے لیے یوکرین کو بھاری ٹینک دینے کے علاوہ کوئی متبادل (آپشن) نہیں۔‘
فرانسیسی خبر رساں ایجنسی اے ایف پی کے مطابق جرمنی کیئف کو ممکنہ حملے کے لیے اپنی مطلوبہ ’لیپرڈ‘ ٹینک فراہم کرنے کا وعدہ پورا کرنے میں ناکام رہا ہے۔
یوکرین کے تقریباً 50 اتحادیوں کا ایک امریکی سربراہی اجلاس ہوا جس میں اربوں ڈالر مالیت کے فوجی ہارڈ ویئر، روسی افواج کو پیچھے دھکیلنے کے لیے بکتر بند گاڑیوں اور جنگی سازوسامان کی ضرورت پر تبادلہ خیال کیا گیا۔
ولادیمیر زیلنسکی نے اس بات پر زور دیا ہے کہ انہیں ان سب سے زیادہ جنگی ٹینکوں کی ضرورت ہے۔
انہوں نے ایک ویڈیو خطاب میں گروپ پر زور دیا کہ وہ ہتھیاروں کی ترسیل کو ’تیز‘ کریں اور جرمنی کا ’لیپرڈ‘ ٹینک بنیادی ضرورت ہے۔
انہوں نے کہا کہ ’ہر روز ہم یہ مزید واضح کرتے ہیں کہ کوئی متبادل نہیں ہے، ٹینکوں کے حوالے سے فیصلہ ہونا چاہیے۔‘
یوکرین کے رابطہ گروپ کے اجلاس سے قبل توقعات بڑھ گئی ہیں کہ جرمنی اس بات پر متفق ہو جائے گا کہ دیگر ممالک جن کے پاس ’لیپرڈ‘ ٹینک ہیں انہیں کیئف کی فوج کو فراہم کرنے کی اجازت دی جائے گی۔
جرمنی کے وعدے سے پیچھے ہٹنے کی وجوہات واضح نہیں ہیں تاہم برطانیہ نے اپنے ’چیلنجر 2‘ ٹینکوں میں سے 14 یوکرین بھیجنے پر اتفاق کیا ہے۔
جرمن وزیر دفاع بوریس پسٹوریئس نے صحافیوں کو بتایا کہ ’جب لیپرڈ ٹینک کے حوالے سے ابھی تک یہ نہیں کہہ سکتے کہ فیصلہ کب کیا جائے گا، اور فیصلہ کیا ہوگا۔‘
اُدھر امریکی وزیر دفاع لائیڈ آسٹن نے کہا ہے کہ ’ہم سب مزید کچھ کر سکتے ہیں۔‘

روس نے جمعے کو ایک بیان میں کہا ہے کہ ’مغربی ٹینکوں سے کوئی فرق نہیں پڑے گا۔‘ (فوٹو: اے ایف پی)

امریکی حکام کا کہنا ہے کہ یوکرین کو روسی افواج کے خلاف اب بھی شدید جنگ کا سامنا ہے جو حملے کے 11 ماہ بعد بھی ملک کے پانچویں حصے پر قابض ہیں۔
امریکی جوائنٹ چیفس کے چیئرمین جنرل مارک ملی نے کہا کہ ’میرے خیال میں یوکرینی شہریوں کے لیے یہ ممکن ہے کہ وہ یوکرین کے زیادہ سے زیادہ علاقے کو آزاد کرانے کے لیے ایک اہم حکمت عملی اپنائیں حتیٰ کہ آپریشنل سطح کی جارحانہ کارروائی کریں۔‘
وائٹ ہاؤس کے ایک سینیئر اہلکار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر کہا کہ ’کیئف کو ہر قیمت پر مشرقی شہر باخموت کا دفاع نہیں کرنا چاہیے اور اس کے بجائے موقع کا فائدہ اُٹھاتے ہوئے روسی افواج کے خلاف ایک بڑے جوابی حملے کی تیاری کرنی چاہیے۔‘
اہلکار نے کہا کہ یوکرین کو زیادہ جدید اور بھاری ہتھیاروں سے لیس فورس بنانے پر توجہ دینی چاہیے جو جنوب میں جارحیت شروع کرنے کے قابل ہو۔
دوسری جانب روس نے جمعے کو ایک بیان میں کہا ہے کہ ’مغربی ٹینکوں سے کوئی فرق نہیں پڑے گا۔‘
کریملن کے ترجمان دمتری پیسکوف نے نامہ نگاروں کو بتایا کہ یہ یوکرین کے لیے مسائل میں اضافہ کرے گا لیکن اس سے روس کے اپنے مقاصد کے حصول کے لیے آگے بڑھنے میں کوئی تبدیلی نہیں آئے گی۔‘

شیئر: