Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

عمران خان کے خلاف مقدمات کے ممکنہ نتائج کیا ہو سکتے ہیں؟ 

عمران خان کو سیشن کورٹ اور بینکنگ کورٹ نے آئندہ سماعت پر حاضری یقینی بنانے کا حکم دیا ہے۔ (فوٹو: اے ایف پی)
سابق وزیراعظم اور پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان کی قانونی جنگ کا آغاز ایک بار پھر سے ہو گیا ہے۔
منگل کو سابق وزیراعظم عمران خان کے خلاف تین مقدمات کی سماعت تھی تاہم طبیعت کی ناسازی کے باعث وہ کسی بھی عدالت کے سامنے پیش نہیں ہوئے۔ 
عمران خان کو سیشن کورٹ اور بینکنگ کورٹ نے آئندہ سماعت پر حاضری یقینی بنانے کا حکم دیا ہے۔
منگل کو عمران خان کے خلاف توشہ خانہ ریفرنس میں فوجداری مقدمے کی سماعت ہوئی جس میں عدالت نے سات فروری کو فرد جرم عائد کرنے کی تاریخ مقرر کر دی جبکہ بینکنگ کورٹ نے آئندہ سماعت تک ان کی ضمانت میں توسیع کر دی۔

عمران خان کے خلاف کون کون سے مقدمات زیرسماعت ہیں؟ 

عمران خان کے خلاف اس وقت ملک کی مختلف عدالتوں میں کئی مقدمات زیرسماعت ہیں۔ قانونی ماہرین کے مطابق عمران خان کے خلاف سب سے اہم مقدمہ توشہ خانہ کے تحائف اثاثوں میں ظاہر نہ کرنے سے متعلق فوجداری مقدمہ ہے۔
اسلام آباد کی سیشن عدالت الیکشن کمیشن کی درخواست پر عمران خان کا مبینہ طور پر کرپٹ پریکٹسز کے مرتکب ہونے پر ٹرائل کر رہی ہے۔ 
اس کیس میں الیکشن کمیشن سابق وزیراعظم کو اثاثوں میں توشہ خانہ کے تحائف چھپانے پر ڈی سیٹ کر چکا ہے جبکہ فوجداری کارروائی کے لیے سیشن کورٹ سے رجوع کیا ہے۔ 
الیکشن کمیشن نے الیکشن ایکٹ 137 اور 170 کے تحت فوجداری مقدمہ دائر کیا ہے۔ اس کیس میں جرم ثابت ہونے کی صورت میں تین سال قید یا جرمانے کی سزا ہو سکتی ہے۔
ماہر قانون شاہ خاور کے مطابق فوجداری مقدمہ ثابت ہونے کی صورت میں نہ صرف سزا ہو گی بلکہ عمران خان پر نا اہلی کی تلوار بھی لٹک رہی ہے۔

عمران خان کے خلاف بینکنگ کورٹ میں بھی دائر ایک مقدمہ زیرسماعت ہے۔ (فوٹو: اے ایف پی)

مبینہ بیٹی چھپانے کا کیس 

عمران خان کے خلاف اسلام آباد ہائی کورٹ میں بھی ایک مقدمہ زیرسماعت ہے۔ جس میں ایک شہری نے سابق وزیراعظم کی جانب سے مبینہ بیٹی چھپانے کے خلاف کارروائی کی درخواست دائر کر رکھی ہے۔
شہری کی درخواست میں موقف اختیار کیا گیا ہے کہ عمران خان نے اپنے کاغذات نامزدگی میں مبینہ بیٹی کو چھپایا ہے اس لیے ان کے خلاف کارروائی عمل میں لائی جائے۔ 
عدالت نے سابق وزیراعظم سے جواب طلب کر رکھا ہے تاہم ان کے وکیل نے متعدد بار جواب جمع کروانے کے لیے وقت مانگا ہے۔ عمران خان پر اس کیس میں جرم ثابت ہونے کی صورت میں بھی نااہلی کی تلوار لٹک رہی ہے۔ 
شاہ خاور کے مطابق یہ کیس ثابت ہونے پر سابق وزیراعظم صادق اور امین نہ ہونے پر نااہل ہو جائیں گے کیونکہ درخواست گزار نے کاغذات نامزدگی کو چیلنج کیا ہے اور وہ کاغذات نامزدگی میں جھوٹ بولنا تاحیات نااہلی کی طرف لے جا سکتا ہے۔

ممنوعہ فنڈنگ حاصل کرنے کے خلاف بینکنگ کورٹ میں درخواست

عمران خان اور ان کے ساتھیوں کے خلاف ایف آئی اے کی جانب سے بینکنگ کورٹ میں دائر ایک مقدمہ زیرسماعت ہے۔
پچھلے برس الیکشن کمیشن کی جانب سے ممنوعہ فنڈنگ کیس کا فیصلہ دیا گیا تھا جس میں پی ٹی آئی پر ممنوعہ سورس سے فنڈ حاصل کرنا ثابت ہوا ہے۔
ایف آئی اے نے الیکشن کمیشن کے فیصلے کی روشنی میں کارروائی کرتے ہوئے ایف آئی آر درج کی ہے۔
عمران خان بینکنگ کورٹ سے اس مقدمے میں ضمانت پر ہیں تاہم آئندہ سماعت پر انہیں حاضری یقینی بنانے کی ہدایت کی گئی ہے۔ 
اس کیس میں ایف آئی اے نے تاحال چالان جمع نہیں کرایا جبکہ پی ٹی آئی نے اس معاملے پر اسلام آباد ہائی کورٹ سے رجوع کیا تھا جس کے بعد معاملہ ایک بار پھر الیکشن کمیشن کو بھیج دیا گیا ہے۔

2022 میں الیکشن کمیشن نے عمران خان کے خلاف ممنوعہ فنڈنگ کیس کا فیصلہ سنایا تھا۔ (فوٹو: عمران خان فیس بک)

الیکشن کمیشن نے اظہار وجوہ کے نوٹسز جاری کر دیے ہیں جس پر تحریک انصاف ایک بار پھر مفصل جواب جمع کرائے گی۔ 
الیکشن کمیشن جواب سے مطمئن نہ ہونے کی صورت میں ممنوعہ ذریعے سے حاصل کردہ فنڈز ضبط کرنے کا اختیار رکھتا ہے۔ 

پارٹی سربراہی سے ہٹانے کا کیس

عمران خان کو پارٹی سربراہی سے ہٹانے کی درخواست الیکشن کمیشن میں زیرالتوا ہے۔ تاہم اس نوعیت کی ایک اور درخواست لاہور ہائی کورٹ کے سامنے بھی موجود ہے۔
پاکستان تحریک انصاف نے بھی اس معاملے پر الیکشن کمیشن کو کارروائی سے روکنے کے لیے ہائی کورٹ سے رجوع کر رکھا ہے۔

شیئر: