Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

’زمان پارک کا سیاسی فیسٹیول‘ اور عمران خان کے قریب فون لے جانے پر پابندی

زمان پارک کے اندر ہونے والی غیر رسمی ملاقاتوں کا سارا احوال میڈیا پر روزانہ نشر ہو رہا ہوتا ہے (فائل فوٹو: عمران خان، فیس بک پیج)
پاکستان کے سیاسی میدان کا مرکز ان دنوں لاہور ہے۔ ویسے تو پنجاب کے صوبائی دارالحکومت لاہور کو ہمیشہ سے ہی سیاسی لیڈروں کی آماج گاہ کہا جاتا رہا ہے، تاہم پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان بنی گالہ اسلام آباد میں واقع اپنے گھر کے بجائے گذشتہ چند ماہ سے لاہور میں اپنے آبائی گھر زمان پارک میں ٹھہرے ہوئے ہیں۔
ان دنوں زمان پارک کے علاقے سے گزرنا ایک نیا امتحان ہوتا ہے۔ اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ مال روڈ کے انڈر پاس سے گزرتے ہی جیسے ہی ایچی سن کالج کی دیوار ختم ہوتی ہے تو زمان پارک کا علاقہ شروع ہو جاتا ہے۔
اس مقام پر دو مستقل تبدیلیاں واقع ہو چکی ہیں۔
ایک تو میڈیا کی لائیو نشریات والی گاڑیاں مستقل سڑک کے بائیں جانب کھڑی ہیں، دوسرا سڑک پر اور گرین بیلٹ پر تحریک انصاف کے کارکنوں کے خیمے اور ان میں مسلسل چلتا میوزک اور پارٹی ترانے ہیں۔
عمران خان سے ملاقات کا اتفاق ہوا تو گاڑی ایچی سن کالج کے پاس ہی لگانا پڑی کیونکہ مال روڈ انڈرپاس سے دھرم پورہ انڈرپاس تک نہر پر گاڑیاں چیونٹیوں کی رفتار سے حرکت کر رہی ہوتی ہیں حتیٰ کہ پیدل چلنا بھی دشوار ہوتا ہے۔
گھر کے چاروں اطراف خان صاحب کی کئی درجات کی سکیورٹی اور چھت پر پولیس چوکیاں اور ذاتی سکیورٹی گارڈز۔ یوں معلوم ہو رہا تھا گھر کے چپے چپے کی نگرانی کی جا رہی ہے۔
عمران خان سے ملاقات کے لیے آنے والوں کے لیے گھر کے احاطے میں عارضی خیمے نصب کیے گئے ہیں جہاں اکثر آپ کو تحریک انصاف کی قیادت، صحافی یا نمایاں کارکن ہی نظر آتے ہیں۔
گھر کے اندرونی حصے میں جانے کے لیے آپ کو موبائل فون، سمارٹ واچ یا ایسا کوئی بھی آلہ جس سے آواز ریکارڈ ہو سکتی ہو یا تصویر بن سکتی ہو وہ آخری چیک پوسٹ پر جہاں خان صاحب کے ذاتی سکیورٹی گارڈز کھڑے ہیں، وہاں رکھوانا پڑتے ہیں۔

عمران خان سے ملاقات کے لیے آنے والوں کے لیے گھر کے احاطے میں عارضی خیمے نصب کیے گئے ہیں۔ (فائل فوٹو: ٹوئٹر، پی ٹی آئی)

گھر کے اندرونی حصے میں ایک خیمہ ہے جس میں کرسیاں بھی لگی ہیں۔
اگر خان صاحب کی پہلے سے جاری میٹنگ ابھی ختم نہیں ہوئی تو پھر کچھ وقت یہاں بھی گزارنا پڑ سکتا ہے۔ جہاں آپ کے پاس فون نہیں ہے لیکن تحریک انصاف کی اعلیٰ قیادت آپ کی دسترس میں ہے۔
جب میں وہاں پہنچا تو اسد عمر، عمران اسماعیل، علی زیدی، مسرت چیمہ اور چند اور رہنما موجود تھے۔
مسرت چیمہ نے صحافیوں سے مسکراتے ہوئے پوچھا کہ کیسا لگا آپ کو زمان پارک کا سیاسی فیسٹیول؟ ان کا اشارہ باہر لگے درجنوں خیموں میں لگی رونق جو ایک میلے کا سماں پیش کر رہی تھی، اس کی طرف تھا۔
وہ یہ سوال پوچھنے کے بعد گویا ہوئیں کہ ’اصل رونق تو رات کو لگتی ہے۔ ساری ساری رات لوگ کیمپوں میں بیٹھے ہوتے ہیں، میوزک چلتا ہے اور چائے ہوتی ہے۔‘
’بڑی طرح کی سرگرمیاں، آپ کا وہاں سے کہیں اور جانے کو دل ہی نہیں کرتا۔ یہی ہماری پارٹی ہے ہم نے پاکستان میں سیاسی کلچر بدل دیا ہے۔
خان صاحب کی ملاقاتوں کے لیے مخصوص ڈرائنگ روم میں کونے پر جیمرز لگائے گئے ہیں کہ اگر کوئی چھپا کر کوئی ڈیوائس اندر لے بھی آیا ہے تو کم سے کم سگنلز سے محروم ہی رہے۔
جب مسرت چیمہ سے یہی سوال پوچھا کہ ’اتنی سختی کی وجہ کیا ہے؟ تو انہوں نے جواب دیا کہ ’آپ کو تو پتا ہی ہے آج کل کیسے آڈیو اور ویڈیو کی سیاست چل رہی ہے۔ اس لیے ہم بھی احتیاط کر رہے ہیں۔
ایسا ہوا ہے کہ ایک دفعہ ان غیر رسمی ملاقاتوں کو بھی ریکارڈ کرنے کی کوشش کی گئی ہے، اب مکمل پابندی ہے۔ ہر ایک تلاشی کے بعد ہی اندر آسکتا ہے۔

نوجوانوں کی ٹولیاں بھی شام کو عمران خان کی رہائش گاہ کے باہر ڈیوٹی دیتی نظر آتی ہیں۔ (فائل فوٹو: فیس بک، تحریک انصاف)

زمان پارک کے اندر ہونے والی غیر رسمی ملاقاتوں جن کا سارا احوال میڈیا پر روزانہ نشر ہو رہا ہوتا ہے، ان کو تحریک انصاف کی اپنی ٹیم مکمل طور پر ریکارڈ بھی کرتی ہے کہ اگر کہیں باہر جا کر لوگ مِس رپورٹ کریں تو اصل گفتگو محفوظ ہو۔
آخر میں آنے والے ملاقاتیوں کی تصاویر اور ویڈیوز (بغیر آواز کے) میڈیا کو جاری کر دی جاتی ہیں۔
زمان پارک کے باہر آپ کو دو طرح کے لوگ ملتے ہیں۔
ایک وہ جن کو مستقبل کے ٹکٹ ہولڈرز اپنی ڈیوٹی سمجھ کر لاتے ہیں اور روزانہ ایک ایم پی اے اور ایم این اے کے ٹکٹ ہولڈر کی ڈیوٹی ہوتی ہے کہ وہ وہاں کم سے کم 50 بندے لائے۔
باہر سڑک پر ٹکٹ ہولڈرز کے بڑے بڑے بینرز اور اشتہارات سے صاف عیاں ہے کہ وہ اس سیاسی فیسٹیول میں خود کو نمایاں کرنے کی دوڑ میں شامل ہیں۔
اس فیسٹیول میں آنے والے دوسری قسم کے لوگ مستقل مندوب ہیں جو مسلسل وہاں قیام کرتے ہیں اور عمران خان کے مستقل فین اور کارکن ہیں۔
یہ افراد یوٹیوبرز کی آنکھ کا تارا ہیں کیونکہ ان کے ساتھ گھنٹوں وی لاگ کرنا کوئی مسئلہ نہیں ہے۔

گزشتہ چند مہینوں سے عمران خان زمان پارک لاہور میں مقیم ہیں۔ (فائل فوٹو: عمران خان، فیس بک پیج)

نوجوانوں کی ٹولیاں بھی شام کو ڈیوٹیاں دیتی نظر آتی ہیں۔ تحریک انصاف کو خدشہ ہے کہ کہیں حکومت عمران خان کو گرفتار نہ کر لے۔ اس لیے تین سے چار بار رات گئے پارٹی کے آفیشل سوشل میڈیا اکاؤنٹس سے کارکنوں کو کال دی گئی کہ وہ زمان پارک پہنچیں اور پھر سینکڑوں کی تعداد میں کارکنان پہنچے بھی۔
نوجوانوں کی ٹولیاں اپنے نعروں سے روزانہ یہ ریہرسل کرتی دکھائی دیتی ہیں کہ اگر عمران خان کو گرفتار کرنے کی کوشش کی گئی تو اس کا ردعمل بھی دیا جائے گا۔
البتہ زمان پارک کے باسی اور وہ شہری جن کو روزانہ گھر جانے کے لیے زمان پارک سے گزرنا پڑتا ہے، ان کی مشکلات ان کے چہروں سے صاف دکھائی دیتی ہیں۔

شیئر: