Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

پاکستانی نوجوانوں کی نفسیاتی مشیر ’آنٹی ایگنی‘ کون ہیں؟

پاکستان کے معروف انگریزی روزنامہ ’ڈان‘ کے سنڈے میگزین میں ایک کالم چھپتا ہے جس میں قارئین کی نفسیاتی الجھنوں کا حل بتایا جاتا ہے، یہ کالم بالخصوص نوجوان نسل میں بہت مقبول ہے اور وہ اپنے ذاتی، خانگی، تعلیمی، حساس اور پیشہ ورانہ معاملات پر کالم نگار سے مشورے طلب کرتے ہیں جو انہیں ہر الجھن کا مناسب حل بتاتی ہیں۔
’آنٹی ایگنی‘ کے نام سے مسائل کا حل پیش کرنے والی یہ خاتون کبھی اپنا نام یا تعارف پیش نہیں کرتیں، تاہم ان کو خط لکھنے والے اور ان کا کالم پڑھنے والے ان سے مانوس اور خیالات سے بخوبی آگاہ ہیں۔
آنٹی ایگنی درحقیقت کراچی کی شہرزاد سمیع الدین ہیں جو سعودی عرب میں پلی بڑھی ہیں۔ پاکستان کے نوجوانوں اور مسائل کے شکار افراد کی الجھنوں کا حل پیش کرنے کا خیال انہیں بین الااقوامی جریدوں سے آیا۔
شہرزاد سمیع الدین نے اردو نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ معاشرے کے حساس موضوعات پر بات کرنا کبھی بھی آسان نہیں رہا، معاشرے کے اتنے مسائل سامنے آتے ہیں کہ کئی بار تو سوچنا پڑتا ہے کہ ایک محدود  کالم میں کیسے تمام الجھنوں کا احاطہ کیا جائے۔
انہوں نے بتایا کہ ان کو مشورے کے لیے سب سے زیادہ خطوط بہتر مستقبل کے لیے پریشان نوجوان لکھتے ہیں۔ جبکہ پیار اور دوستی میں درپیش مسائل بیان کرنے والوں کے خطوط بھی کم نہیں ہیں۔
شہرزاد کا کہنا تھا کہ کبھی کبھی تو ایسے خط آجاتے ہیں کہ انہیں لکھ بھی نہیں سکتے ہیں۔ ایسے ایسے مسائل ہوتے ہیں کئی ایسے موضوع ہوتے ہیں جن پر معاشرے میں بات کرنا بھی آسان نہیں ہے۔
’ایک خط جو میرے دماغ میں رہ گیا، اس میں لکھنے والے کے خاندان کے ایک فرد کا قتل ہوا تھا اور وہ فیملی کے کسی فرد نے ہی کیا تھا۔ وہ ایک ایسا لیٹر تھا کہ مجھے سمجھ نہیں آیا کہ جواب کیسے دوں۔ لیکن میں نے اس کا جواب دیا۔‘
انہوں نے کہا کہ وہ ’آنٹی ایگنی‘ کالم میں چھپنے والے تمام مسائل کا جواب دینے سے پہلے اس کے بارے میں مکمل تحقیق کرتی ہیں۔

لوگوں کی زیادہ الجھنیں کس بارے میں ہوتی ہیں؟

شہرزاد سمیع الدین کے مطابق سب سے زیادہ خطوط نوجوانوں کے مستقبل سے متعلق آتے ہیں جو اس بارے میں پریشان ہوتے ہیں۔ اس کے بعد وہ خطوط آتے ہیں جن میں نوجوان دوستی اور تعلقات  کے معاملے پر پوچھتے ہیں۔

شہرزاد سمیع الدین نے کہا کہ ’عوام کے بہت سنجیدہ مسائل ہیں جو وہ ہم سے شیئر کرتے ہیں۔‘ (فوٹو: سکرین گریب)

’ابتدا میں جب یہ سلسلہ شروع کیا تھا تو لائٹر موڈ میں شروع کیا تھا۔ لیکن وقت کے ساتھ یہ ایک سنجیدہ معاملہ بنتا گیا ۔ یہ عوام کے بہت سنجیدہ مسائل ہیں جو وہ ہم سے شیئر کرتے ہیں۔ خودکشی کے متعلق بہت سے خطوط آنے لگے تھے تو ہم نے اس کے خلاف ایک مہم چلائی۔ ہمارے ہر کالم کے ساتھ ڈسکلیمر ڈالا جاتا ہے۔‘
انہوں نے کہا کہ ’ہمارا معاشرہ ایک روایتی معاشرہ ہے۔ کچھ چیزیں ہمارے معاشرے میں اچھی ہیں لیکن کچھ چیزیں خراب بھی ہیں۔ کئی لیٹرز کو ڈراپ بھی کرنا ہوتا ہے۔ ایک تو جگہ کا مسئلہ ہے اور دوسرا کئی ایسے موضوعات ہوتے ہیں جن پر بات نہیں کرسکتے۔ کبھی ایسے موضوعات پر کیس سٹڈی دیکھ کر فیصلہ کیا جاتا ہے۔‘
شہرزاد کا کہنا تھا کہ ’کبھی بھی کسی کو مکمل جواب نہیں دیتے ہم صرف انہیں گائیڈ کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ لوگوں کو راہ بھی دکھاتے ہیں یہ بھی راستہ ہے۔ اس طرح بھی سوچ سکتے ہیں۔ کوئی کسی کو یہ نہیں کہہ سکتا کہ یہ کرو۔ البتہ لوگوں کے سامنے یہ چیزوں کو کھول کر رکھ سکتے ہیں۔ ’یہ کردار ہے جو پورا کرنے کی کوشش کرتی ہوں۔‘

کالم کیسے شروع ہوا؟

شہرزاد سمیع الدین کے مطابق جب وہ انگریزی میگزین پڑھتی تھیں تو اس میں ایک کالم ہوتا تھا جس میں لوگ اپنے مسئلے لکھتے تھے اور ایک ’ایگنی آنٹی‘ ہوتی تھیں جو اس کا جواب دیتی تھیں۔ انہیں یہ لگتا تھا کہ پاکستان میں یہ چیز نہیں ہے تو انہوں نے یہ آئیڈیا پیش کیا۔
 ’سال 2007 میں جب یہ آئیڈیا ایڈیٹر کے سامنے رکھا تو کچھ مشکلات سامنے آئیں۔ انہوں نے کہا کہ ایک دو کر کے دیکھیں کیسا رسپانس آتا ہے۔ جب کالم لکھنا شروع کیا تو بہت اچھا رسپانس آیا۔ لوگوں نے اسے پڑھا اور پسند کیا گیا۔ پھر یہ سلسلہ شروع ہو گیا جو آج تک جاری ہے۔‘

شیئر: