پنجاب پولیس کا بیرون ملک مقیم اشتہاریوں کی گرفتاری کا آپریشن کس حد تک کامیاب؟
پنجاب پولیس کا بیرون ملک مقیم اشتہاریوں کی گرفتاری کا آپریشن کس حد تک کامیاب؟
ہفتہ 4 مارچ 2023 8:39
رائے شاہنواز -اردو نیوز، لاہور
پنجاب پولیس نے ملک سے باہر روپوش ہونے والے اشتہاریوں کے خلاف کریک ڈاؤن فروری کے وسط میں شروع کیا۔ (فائل فوٹو)
گزشتہ ہفتے مشرق وسطیٰ کے ایک مصروف علاقے میں خرید و فروخت کرتے ایک پاکستانی شہری عمر شہزاد کو یہ علم نہیں تھا کہ یہ ان کی آخری شاپنگ ہو سکتی ہے۔ جب انٹرپول کی ایک ٹیم نے انہیں عین اس وقت گرفتار کر لیا جب وہ اپنی روز مرہ کی اشیا کی خریداری کر رہے تھے۔ گرفتاری کے فوری بعد انہیں بنیادی چھان پھٹک کے بعد پاکستانی سفارتخانے کے حوالے کر دیا گیا۔ سفارتخانے میں پہلے سے ہی ایف آئی اے کی ایک ٹیم موجود تھی جو عمر شہزاد کو لے کر پاکستان روانہ ہو گئی۔
عمرشہزاد کا تعلق پاکستان کے شہر سیالکوٹ سے ہے اور ان پر الزام ہے کہ وہ سال 2018 میں قتل کی ایک بہیمانہ واردات کے بعد ملک ہی چھوڑ گئے تھے۔
ان کے خلاف سیالکوٹ تھانے میں تفتیش کا عمل ملزم کی گرفتاری نہ ہونے کے باعث جامد ہو چکا تھا۔ پولیس روایتی طریقوں سے ملزم کا کھوج لگانے میں ناکام رہی۔ پانچ سال کے بعد کئی محکموں کی مشترکہ کارروائی سے نہ صرف ملزم کا سراغ لگایا گیا ہے بلکہ انہیں گرفتار بھی کر لیا گیا ہے۔
فروری کی 15 تاریخ کو مشرق وسطیٰ سے انٹرپول نے پاکستان کے دو شہریوں علی حسنین اور محمد وحید نیازی کو مختلف علاقوں سے حراست میں لیا اور بعد ازاں انہیں پاکستانی حکام کے حوالے کر دیا گیا۔
علی حسنین کا تعلق گوجرانوالہ جبکہ وحید نیازی کا تعلق وہاڑی سے ہے۔ دونوں پر قتل اور اقدام قتل کے مقدمے درج ہیں جبکہ پولیس کو چکمہ دیتے ہوئے دونوں ملزمان ملک سے فرار ہونے میں کامیاب ہو گئے تھے۔ تاہم اب دونوں پنجاب پولیس کی حراست میں ہیں۔
گوجرانوالہ کے رہائشی اور قتل اور ٹارگٹ کلنگ کے ملزم شمس شہزاد کو انٹرپول نے 22 فروری کو گرفتار کر کے پاکستان کے حوالے کیا ہے۔ شمس شہزاد پر ایک الزام یہ بھی ہے کہ انہوں نے گزشتہ برس دولاکھ روپے کی خاطر ایک کامیاب بزنس مین محمد عرفان کو قتل کیا اور روپوش ہوگئے۔ پولیس کا دعویٰ ہے کہ اس قتل کی سپاری دینے والے صوفی احمد یاز نیازی کو بھی پولیس حراست میں لے چکی ہے۔
اسی طرح کے ایک ملتے جلتے واقعے میں محمد یونس نامی ایک شہری کو انٹرپول نے نشرق وسطیٰ سے حراست میں لیا اور بعد ازاں ان کو پاکستانی حکام کے حوالے کر دیا گیا اور اس وقت وہ پنجاب پولیس کی حراست میں ہیں۔ محمد یونس کامونکی کے رہائشی ہیں اور ان پر قتل سمیت کئی طرح کے الزامات ہیں۔ اوپر بیان کیے گئے واقعات میں ایک ربط ہے اور ملک سے باہر سکونت اختیار کرنے والے اشتہاری ملزمان کے خلاف ایک کریک ڈاؤن جاری ہے۔
یہ کریک ڈاؤن ہے کیا؟
پنجاب پولیس کے مطابق پاکستان سے باہر بیٹھے ملزمان کی گرفتاری کے لیے ایک منظم کریک ڈاؤن شروع کیا گیا ہے جس کی اجازت آئی جی پنجاب عثمان انور نے دی ہے اور وہ اس آپریشن کی خود نگرانی کر رہے ہیں۔ ایک مربوط نظام قائم کیا گیا ہے جو صرف اور صرف بیرون ملک چُھپے اشتہاریوں کو گرفتار کر کے پاکستان لا رہا ہے۔
آئی جی پنجاب ڈاکٹر عثمان انور نے اردو نیوز کو بتایا کہ ’ملک سے فرار ہونے والے ملزمان ایک مستقل درد سر ہیں۔ ایک تو یہ سسٹم کی پیچیدگی سے فائدہ اٹھاتے ہوئے ملک سے فرار ہونے میں کامیاب ہوجاتے ہیں دوسری طرف یہ باہر بیٹھ کر پاکستان کے اندر مجرمانہ سرگرمیوں میں ملوث ہیں۔ ان کے خلاف بات تو کافی عرصے سے ہو رہی ہے لیکن اس صورت حال کا مقابلہ اب درست طریقے سے شروع کیا گیا ہے۔‘
انہوں نے بتایا کہ ’اس سلسلے میں بڑا عرصہ ہماری تحقیق جاری تھی۔ اب ہم نے ایک لائزون ونگ بنایا ہے جس میں انٹرپول، ایف آئی اے اور پولیس کے افسران شامل ہیں۔ ہمارا خیال تھا کہ وہ ممالک جن کے ساتھ ملزمان کے تبادلے کے معاہدے ہیں پہلے مرحلے میں ان ملکوں سے ان اشتہاریوں اور گینگز کے سربراہوں کو پاکستان واپس لایا جائے۔ کافی ممالک ہیں جیسا کہ مڈل ایسٹ، جنوبی افریقہ، یورپ اور امریکہ سمیت وہ تمام ممالک جن کے ساتھ حکومت پاکستان نے معاہدہ کر رکھا ہے اور ملزمان کا تبادلہ قانونی عمل ہے ہم نے وہاں وہاں سے شروعات کی ہیں۔‘
پنجاب پولیس کا کہنا ہے کہ ملک سے باہر روپوش ہونے والے اشتہاریوں کے خلاف کریک ڈاؤن فروری کے وسط میں شروع کیا گیا دو ہفتوں میں نو خطرناک ملزم مختلف ممالک سے گرفتار کیے گئے۔ جبکہ ان میں سے کئی ملزمان ایسے جو پورا گینگ چلا رہے تھے اور اب یہ سلسلہ ایسے ہی چلتا رہے گا۔
آئی جی پنجاب کا کہنا ہے کہ ابھی یہ اندازہ لگانا تو مشکل ہے کہ صوبے میں سے کتنے ایسے ملزمان ہیں جو عدالتی مفرور ہیں اور باہر جا چکے ہیں۔
’اب آہستہ آہستہ یہ ڈیٹا بھی ترتیب دیا جائے گا کہ ہمارا ٹارگٹ ہے کیا۔ ابھی جو فہرستیں پولیس نے ایف آئی اے اور انٹر پول سے شیئر کی ہیں ان کی بھی زیادہ ڈیٹیل نہیں بتائی جا سکتی کیونکہ اس سے ملزمان کو فائدہ پہنچ سکتا ہے۔‘
ملک سے فرار، عدالتی مفرورں کا ریکارڈ کئی طریقوں سے مرتب کیا جا رہا ہے۔
پولیس کا کہنا ہے کہ ملزمان کی گرفتاری کی کوششوں میں شناختی کارڈر اور پاسپورٹ منسوخی کے عمل کو بھی اس منصوبہ بندی میں شامل کر لیا گیا ہے۔
بیرون ملک سے چلائے جانے والے گینگ
لائزون کمیٹی بننے سے پہلے پولیس کو ہمیشہ یہی شکایت تھی کہ خطرناک ملزمان کے بیرون ملک فرار ہونے کی ایک وجہ وفاقی اداروں کے ساتھ پولیس کی کوارڈینیشن میں کمی ہے۔
پولیس کی کرائم انویسٹی گیشن ایجنسی سی آئی اے جس کے ذمے خطرناک ملزمان کے خلاف تحقیقات کرنا ہے، کے ایک اعلٰی افسر محمد علی بٹ کا کہنا ہے کہ عام طور پر جرائم میں ملوث افراد جب بیرون ملک فرار ہونے میں کامیاب ہو جاتے ہیں تو اس بات کے امکانات بڑھ جاتے ہیں کہ وہ بیرون ملک میں بیٹھ کر پاکستان میں جرائم پیشہ افراد کا نیٹ ورک چلائیں۔
انہوں نے بتایا کہ ’گینگسٹر لالہ شہباز، بلیک ایگل گینگ کے سرغنہ میر عبداللہ اور افضال گھنوں یہ وہ چند نام ہیں جو بیرون ملک بیٹھ کر اغوا برائے تاوان، کرائے کے قتل اور دیگر جرائم اپنے شوٹروں کے ذریعے پاکستان میں کروا رہے ہیں۔ پولیس نے دو درجن سے زائد ایسے واقعات ٹریس کیے ہیں جن کی ساری منصوبہ بندی ملک سے باہر ہوئی۔‘
پولیس سمجھتی ہے کہ وفاقی اور بین الاقوامی اداروں کے ساتھ بننے والے لائزون میں رابطے کے فقدان کا مسئلہ حل ہوا ہے یہی وجہ ہے کہ اس آپریشن کے شروع ہوتے ہی آئے روز مختلف ممالک سے اشتہاریوں کو گرفتار کر کے پاکستان واپس لایا جا رہا ہے۔