Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

نیپال میں 25فیصد افراد کی آمدنی یومیہ سواڈالر سے کم

پابندی کے 6سال بعد بھی لوگوں سے بیگار لی جارہی ہے، ”ہالیاز“ ظلم و ستم کی اس چکی میں پس رہے ہیں
ہمالیائی مملکت نیپال میں لوگوں سے بیگار لینے یا جبری محنت مزدوری کرانے کا سلسلہ ایک عرصے سے جاری تھا۔ 6سال قبل برسراقتدار آنے والی بائیں بازو کی حکومت نے اس ظالمانہ رواج اورطریقہ کار پر سخت پابندی لگادی تھی مگر پابندی کے صرف 6سال بعد ہی بے زمین کسانوں اور کھیتوں میں کام کرنے والے مزدوروں کا استحصال پھر زور وشور سے شروع ہوگیا۔کاشتکاری اور کھیتی باڑی کرنے والے یہ افراد جنہیں مقامی زبان میں ”ہالیاز“ بھی کہا جاتا ہے۔ ظلم و ستم کی اس چکی میں پس رہے ہیں۔ وہ کئی نسلوں سے زمینداروں کے غلام بنے ہوئے ہیں۔
ماﺅ باغیوں کی قیادت میں 2014ءمیں برسراقتدار آنے والی حکومت سے ان بیچاروں کو امید تھی کہ انکے دن پھر جائیں گے۔ انکی قسمت بدل جائیگی مگر ایسا کچھ بھی نہیں ہوسکا۔ اس وقت حکمراں ماﺅ نوازوں نے بھی ببانگ دہل یہ وعدہ کیا تھا کہ وہ صدیوں پرانے اس عدم مساوات کو ختم کرکے ملک کیلئے ایک نیا آئین بنائیں گے جس میں ظلم اور زیادتی کی کوئی گنجائش نہیں ہوگی مگر ارکان پارلیمنٹ نے مجوزہ چارٹر یا مسودہ قانون پر لاحاصل بحث میں کئی سال گزار دیئے جس سے ”ہالیاز“ یعنی جبری محنت کرنے والے کسانوں کے علاوہ دوسرے لاکھوں غریبوں کو بھی مایوسی ہوئی۔
نیپال میں آج بھی 25فیصد افراد یومیہ 1.25ڈالر سے بھی کم کماتے ہیں۔ ماﺅ نوازوں کے بعد آنے والی حکومتوں نے بھی اس حوالے سے ان مجبور اور بے بس بیگار کرنے والوں کو جھوٹی تسلیاں دیتے رہے مگر انہیں انکی محنت کا صلہ ملا اور نہ زمینوں کی کاشتکاری کے لئے انہیں مفت زمینیں دی گئیں۔ اب بھی انکی زندگی زمینداروں کے رحم وکرم پر ہے۔
ایسے ہی بدنصیب لوگوں میں پریا ربھی ہے جو نسل در نسل جبری کھیتی باڑی کررہا ہے ۔ اس نے بتایا کہ وہ 6پشت سے غلامی کی اس زنجیر میں پھنسا ہوا ہے۔ وہ 13سال کی عمر میں اسی زمیندار کیلئے کام کررہا ہے جس کے لئے اسکے باپ دادا کام کرتے تھے۔ وہ محض رہنے سہنے اور کھانے پینے کے عوض روزانہ 15،15گھنٹے مشقت کرتے ہیں جس سے انکی پیٹھ میں مستقل تکلیف رہنے لگی ۔ یہ محنت مشقت اور بیگاری اسے وراثت میں ملی ہے۔ جہاں وہ رہتا ہے اس گاﺅں میں بھی کچھ خاص بہتری اب تک نہیں آسکی۔ ہمالیہ کے دامن میں واقع اس گاﺅں میں پانی اور بجلی کی سہولت اب تک نہیں پہنچ سکی ہے۔
پریار کا تعلق دلت طبقے سے ہے۔ اسی کی طرح دوسرے بیگار مزدوروں کی اکثریت بھی دلت ہے جنہیں ہندو اچھوت بھی کہتے ہیں اورجنکے افراد نہ تو مندروں میں داخل ہوسکتے ہیں اور نہ کسی گھر میں گھس کر کام کرسکتے ہیںحد یہ کہ انہیں پانی بھی اس نلکے سے پینا پڑتا ہے جس سے زمینداروں کے جانور پیتے ہیں۔
23سالہ خاتون بیگار کاشتکار نانی بسوکر ما نیپال کے دور افتادہ شمالی علاقے کے برونسی گاﺅں میں کام کرتی ہیں۔ 2بچوں کی اس ماں کا کہناہے کہ وہ ہمیشہ اپنے بچوں کے مستقبل کے بارے میں سوچتی ہیں گھر نہ بار نہ پیسہ نہ زمین۔ ایسی صورتحال میں وہ اپنے بچوں کو تسلیم دلانے کا بھی نہیں سوچ سکتی حالانکہ انکی دلی خواہش ہے کہ اسکے بچے اسکی نسبت زیادہ بہتر زندگی گزاریں۔ جبر و ستم کا عالم یہ ہے کہ اگر اس کے بچے اسکول جائیں بھی تو انہیں بنچ کے بجائے فرش پر بیٹھ کر پڑھنا پڑتا ہے۔
ہالیاز کی بحالی کے ذمہ دار سرکاری افسر لکشمن کمار کا کہناہے کہ آباد کاری کے کام میں تاخیر کی وجہ فنڈ کی کمی ہے۔ 2008ءمیں حکومت اور ماﺅ نواز باغیوں میں ہونے والے معاہدے میں ایسے لوگوں کو مفت زمین دینے کا وعدہ بھی کیا گیا تھا مگر 19ہزار بیگار مزدوروں میں سے صرف 80کو اب تک کاشتکاری کیلئے تھوڑی بہت زمین ملی ہے ورنہ تقریباً سبھی مایوسی اور پریشانی سے دوچار ہیں۔
٭٭٭٭٭٭

شیئر: