امریکہ میں سیاہ فام قیدی کی ہلاکت، سات پولیس افسران پر قتل کا الزام
وکیل کے مطابق پولیس افسران سیاہ فام قیدی پر 12 منٹ تک تشدد کرتے رہے۔ فوٹو: اے پی
امریکی ریاست ورجینیا میں ایک سیاہ فام قیدی کی ہلاکت کا الزام سات پولیس افسران پر عائد کرتے ہوئے انہیں حراست میں لے لیا گیا ہے۔
خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق 6 مارچ کو 28 سالہ سیاہ فام شخص ایروو اوٹیئنو کو ورجینیا کے شہر پٹزبرگ کی مقامی جیل سے مرکزی ہسپتال لایا گیا تھا جہاں تین گھنٹوں بعد ان کی موت واقع ہو گئی تھی۔
قیدی کی ذہنی حالت خراب ہونے کی وجہ سے انہیں جیل سے ہسپتال علاج کی غرض سے لایا گیا تھا۔
ابتدائی آٹوپسی رپورٹ کے مطابق قیدی ایروو اوٹیئنو کی موت آکسیجن کی کمی یا دم گھٹنے سے واقع ہوئی۔
جمعرات کو اوٹیئنو کی ایک ویڈیو ان کے اہل خانہ کو دکھائی گئی جس میں موت کی وجوہات واضح ہیں۔
قیدی ایروو اوٹیئنو کی والدہ نے پریس کانفرنس سے خطاب میں کہا کہ ’اگرچہ اوٹیئنو ذہنی بیماری کا شکار تھے لیکن جو میں نے آج دیکھا وہ دل دہلانے والا ہے۔‘
انہوں نے بتایا کہ ویڈیو میں سات پولیس افسران نے ایک شخص کو زد و کوب کیا اور یہ سلسلہ چلتا چلا گیا۔
ایروو اوٹیئنو کے اہل خانہ نے نامور وکیل بین کریمپ کی خدمات حاصل کی ہیں جو پولیس کی جانب سے افریقی نژاد امریکیوں کے خلاف تشدد کے کیسز دائر کرتے ہیں۔
بین کریمپ نے میڈیا کو بتایا کہ ایروو اوٹیئنو کو ہتھکڑی لگی ہوئی تھی اور پاؤں میں بھی بیڑیاں تھیں جبکہ سات پولیس افسر 12 منٹ تک ان پر تشدد کر رہے تھے۔
سات پولیس افسران کی عمر 30 سے 57 سال کے درمیان ہے جنہیں دوسرے درجے کے قتل کے الزام میں حراست میں لے لیا گیا ہے۔
جبکہ ان کے علاوہ ہسپتال کے تین اہلکاروں کو بھی قتل کے الزام میں گرفتار کیا گیا ہے جن کی عمریں 23 سے 34 سال کے درمیان ہیں۔
خیال رہے سال 2020 میں امریکی سیاہ فام شہری جارج فلائیڈ کی پولیس تشدد کے باعث ہونے والی ہلاکت کے بعد سے بربریت اور نسل پرستی کے خلاف صرف امریکہ میں ہی نہیں بلکہ دیگر ممالک میں بھی مظاہرے ہوئے تھے۔
اس واقعے کے بعد ’بلیک لائیوز میٹر‘ کے نام سے تحریک بھی چلی جس کے تحت افریقی نژاد امریکیوں کے ساتھ بالخصوص پولیس کے متعصبانہ رویے کی کھل کر مزاحمت کی گئی۔