سپریم کورٹ کا پانچ رکنی لارجر بینچ کیسے ٹُوٹا، آگے کیا ہوگا؟
سپریم کورٹ کا پانچ رکنی لارجر بینچ کیسے ٹُوٹا، آگے کیا ہوگا؟
جمعرات 30 مارچ 2023 11:31
اے وحید مراد -اردو نیوز، اسلام آباد
سپریم کورٹ میں صوبہ خیبر پختونخوا اور پنجاب اسمبلی میں الیکشن کی تاریخ تبدیل کرنے کے خلاف تحریک انصاف کی درخواست پر سماعت کرنے والا پانچ رکنی لارجر بینچ ٹوٹ گیا ہے۔
جمعرات کو لارجر بینچ میں شامل جسٹس امین الدین خان نے مقدمے کی سماعت کرنے سے معذرت کی جس کے بعد چیف جسٹس عمر عطا بندیال اور دیگر ججز اُٹھ کر چلے گئے۔
عدالت میں کیا ہوا؟
جمعرات کو مقدمے کی سماعت کے آغاز کا وقت دن ساڑھے گیارہ بجے مقرر تھا اور اٹارنی جنرل منصور اعوان نے وفاق کی جانب سے دلائل دینا تھے۔
سماعت کے وقت کمرہ عدالت میں اعلان کیا گیا کہ ججز دن بارہ بجے آئیں گے۔
وکلا اور رپورٹرز ٹہلنے کے لیے باہر نکل گئے۔
پانچ رکنی لارجر بینچ چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں دو منٹ کی تاخیر سے کمرہ عدالت میں آیا۔
چیف جسٹس نے نشست پر بیٹھتے ہی کہا کہ ’پہلے ہمارے دوست جج جسٹس امین الدین خان کچھ کہنا چاہتے ہیں۔‘
جسٹس امین الدین خان جو پانچ رکنی لارجر بینچ میں شامل ججز میں سب سے جونیئر ہیں اور انتہائی دائیں جانب بیٹھتے ہیں، نے اپنی بائیں جانب ججز کو دیکھا اور گویا ہوئے:
’نہایت قابل احترام چیف جسٹس کی اجازت سے یہ کہنا چاہتا ہوں کہ گزشتہ روز جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے سوموٹو اختیار اور بینچز کی تشکیل کے حوالے سے جو فیصلہ دیا تھا اُس میں اُن کے ساتھ شامل ہوں۔ اپنے فیصلے کے ساتھ کھڑا ہوں اس لیے اس مقدمے کی مزید سماعت سے معذرت خواہ ہوں۔‘
جسٹس امین الدین خان کے اس اعلان کے ساتھ ہی بینچ ٹوٹ گیا اور ججز کمرہ عدالت سے اُٹھ کر جانے لگے۔ اس کے ساتھ ہی رپورٹرز نے بھی باہر کی جانب دوڑ لگا دی۔
بینچ ٹوٹنے کی وجہ بننے والا فیصلہ کیا ہے؟
سپریم کورٹ کے کئی ججز طویل عرصے سے چیف جسٹس کے اختیارات کو ریگولیٹ کرنے کی بات کرتے آئے ہیں۔
بدھ کو جسٹس جمال خان مندوخیل نے بھی کہا تھا کہ اب اس معاملے پر دو عدالتی فیصلے آ چکے ہیں کہ چیف جسٹس کے سوموٹو لینے اور بینچز کی تشکیل کے اختیار کو ریگولیٹ کیا جائے۔
بدھ کو ہی شام میں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے اس حوالے سے ایک اور تحریری فیصلہ جاری کر دیا۔
یہ فیصلہ بھی ایک ازخود نوٹس کیس میں دیا گیا۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے تحریر کردہ فیصلے پر جسٹس امین الدین خان کے بھی دستخط ہیں جبکہ جسٹس شاہد وحید نے اختلاف کیا۔
اس فیصلے میں قرار دیا گیا کہ قواعد یا رولز بنائے جانے تک آرٹیکل 184 تین (ازخود نوٹس) کے تحت سُنے جانے والے تمام کیسز ملتوی کیے جائیں۔
عدالتی فیصلے کے مطابق جب تک بینچز کی تشکیل سے متعلق چیف جسٹس کے اختیارات میں ترمیم نہیں ہوتی تمام مقدمات کو موخر کیا جائے۔
فیصلے میں کہا گیا کہ ’آئین چیف جسٹس کو صوابدیدی اختیارات نہیں دیتا۔ سپریم کورٹ چیف جسٹس اور تمام ججز پر مشتمل ہوتی ہے۔ چیف جسٹس کو خصوصی بینچ بنانے کا اختیار نہیں۔‘
جسٹس امین الدین خان چونکہ پانچ رکنی لارجر بینچ میں شامل تھے اور دو صوبوں میں الیکشن کا مقدمہ بنیادی طور پر چیف جسٹس کے ازخود نوٹس لینے سے شروع ہوا تھا اس لیے بدھ کی شام جسٹس قاضی فائز کا فیصلہ سامنے آنے کے بعد ہی واضح تھا کہ جسٹس امین الدین خان اب سوموٹو کیس سننے سے معذرت کر لیں گے۔
یہاں یہ امر قابل ذکر ہے کہ سپریم کورٹ میں مقدمات سننے کے لیے ججز کے بینچ کی تشکیل صرف عدالت کے اپنے بنائے گئے رولز یا قواعد کے تحت کی جاتی ہے، اس حوالے سے کوئی قانون نہیں ہے۔
اس مقدمے میں آگے کیا ہو سکتا ہے؟
ملک کے دو صوبوں میں الیکشن کرانے کے ازخود نوٹس کیس کی سماعت کے لیے اب چیف جسٹس عمرعطا بندیال کو نیا بینچ تشکیل دینا ہوگا۔
قانونی ماہرین کے مطابق نئے بینچ کی تشکیل ایک اہم مرحلہ ہوگا کیونکہ اب تک چار ججز اس کیس کی سماعت سے الگ ہو چکے ہیں جن میں جسٹس یحییٰ آفریدی، جسٹس اطہر من اللہ، جسٹس منصور علی شاہ اور جسٹس امین الدین خان شامل ہیں۔
نئے عدالتی بینچ میں پانچ یا اس سے زیادہ ججز شامل کیے جا سکتے ہیں لیکن ججز کی تعداد کم نہیں کی جا سکتی۔
قانونی ماہرین کے مطابق بینچ کی ازسر نو تشکیل پر بھی مقدمے کے فریق عدالت میں سوال اٹھا سکتے ہیں۔
یہ سوال بھی تاحال آئینی و قانونی ماہرین کے سامنے ہے کہ اس مقدمے میں فیصلہ تین ججز کا ہے یا چار ججز کا۔ اس سوال کا جواب سپریم کورٹ ہی اپنے فیصلے میں دے گی اگر ایک بار پھر اس حوالے سے ججز میں اختلاف پیدا نہ ہوا۔