Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

کیا سیاسی جماعتیں گرینڈ نیشنل ڈائیلاگ کی طرف بڑھ رہی ہیں؟

خواجہ آصف نے کہا کہ ’اگر کوئی حل ڈھونڈنا ہے، مذاکرات ہونے ہیں تو اس میں تمام سٹیک ہولڈرز شامل ہوں‘ (فائل فوٹو: اے پی پی)
پی ڈی ایم کی اتحادی حکومت کے تین اہم ترین وزرا نے گذشتہ 48 گھنٹے میں تین ایسے بیانات دیے ہیں جو اس بات کی طرف اشارہ کرتے ہیں کہ گرما گرم سیاسی ماحول کے پس پردہ کچھ ایسا ہو رہا ہے جس سے آنے والے دنوں میں قومی سیاست میں بڑی تبدیلیاں رونما ہو سکتی ہیں  اور بالاخر تمام سیاسی قوتیں گرینڈ نیشنل ڈائیلاگ کی طرف بڑھ سکتی ہیں۔
وفاقی وزیر خارجہ اور پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو نے بدھ کے روز قومی اسمبلی میں خطاب کرتے ہوئے کہا کہ آخرکار ہمیں آپس میں بیٹھنا ہے اور ان کے ساتھ بھی بیٹھنا پڑے گا جن کی شکل ہمیں پسند نہیں ہے۔
’جس بحران کا ہم سامنا کر رہے ہیں، جمہوری، آئینی، سکیورٹی، معاشی، اس کا حل اتحاد ہے، ہمیں سب کو مل کر ان مسائل کا حل نکالنا ہو گا۔‘
جن کا ماضی اتنا خاص نہیں، جن کے مستقبل پر ہمارا شک ہے، شاید ان کے ساتھ بھی، آخر کار جب یہ لڑائی ختم ہو گی، اگر ہم نے اس بحران سے نکلنا ہے تو نہ میرا نہ آپ کا، ہم سب کا پاکستان۔‘
وزیر دفاع خواجہ آصف نے جمعرات کے روز سپریم کورٹ کے باہر میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ’اگر کوئی حل ڈھونڈنا ہے، مذاکرات ہونے ہیں تو اس میں تمام سٹیک ہولڈرز شامل ہوں۔‘
سیاستدان صرف ایک سٹیک ہولڈر ہیں۔ یہ ادارہ (سپریم کورٹ) بھی سٹیک ہولڈر ہے، پنڈی والے بھی سٹیک ہولڈر ہیں، میڈیا بھی سٹیک ہولڈر ہے، انتظامیہ یا ایگزیکٹو بھی سٹیک ہولڈر ہے، جامع مذاکرات ہونے چاہیئں۔ صرف مذاکرات مذاکرات کھیلنے کا کھیل نہیں ہونا چاہیئے۔
وزیر داخلہ رانا ثنا اللہ نے بھی سپریم کورٹ کے احاطے میں ہی کھڑے ہو کر کہا کہ اگر مذاکرات کرنے ہیں تو  پہلے معیشت پر بات کی جائے۔
’پہلے معیشت (کے بارے میں) طے کریں نا، یہ جو معیشت کا بٹھہ بیٹھا ہے، جو عام آدمی جن مشکلات کا شکار ہے اس کا کیا کرنا ہے، اس کے بعد جو یہ سیاسی ٹیمپریچر ہے۔۔۔ معاملہ یہ ہے کہ بیٹھ کر بات پہلے ہو گی اور اس میں یہ باتیں طے ہوں گی۔‘
واضح رہے کہ جامع مذاکرات کے متعلق حکومت کے تین اہم اراکین کے بیانات وزیراعظم شہباز شریف کے اس بیان کے بعد آئے ہیں جس میں انہوں نے کہا تھا کہ عمران خان سے مذاکرات صرف اسی صورت میں ہوں گے جب وہ اپنی غلطیوں کی معافی مانگیں گے۔

 فواد چوہدری کا کہنا ہے کہ ’فی الوقت انہیں مذاکرات ہوتے نظر نہیں آرہے‘ (فائل فوٹو: اے پی پی)

دوسری طرف پاکستان تحریک انصاف متعدد بار ان مذاکرات پر رضامندی ظاہر کر چکی ہے اور یہ اعلان کر چکی ہے کہ وہ آگے بڑھنے کے لیے بات چیت پر تیار ہیں۔
تاہم جمعرات کو پی ٹی آئی کے سینیئر نائب صدر فواد چوہدری نے اردو نیوز کو بتایا کہ انہیں ابھی مذاکرات کے انعقاد کے بارے میں کوئی تصدیق نہیں ہوئی۔
فواد چوہدری کا کہنا تھا کہ گرینڈ ڈائیلاگ کی باتیں محض بیان بازی تک محدود ہیں۔  
یہ لوگ بات کرتے ہیں لیکن اس میں کوئی ٹھوس چیز نہیں آ رہی، یہ صرف بیان بازی تک محدود ہے۔‘
جب مذاکرات کی بات پر حکومت کے نمائندے اعظم نذیر تارڑ سے کہا گیا کہ ڈائیلاگ کیسے ہو گا، تو آگے ان کے پاس کوئی ٹھوس جواب نہیں تھا۔‘
 فواد چوہدری کا کہنا تھا کہ فی الوقت انہیں مذاکرات ہوتے نظر نہیں آ رہے۔
اگر یہ نوے روز میں انتخابات نہیں کرواتے تو یہ آرٹیکل سکس کی طرف جائیں گے۔ ہمیں آئین پر عل ہوتا نظر نہیں آتا۔ اور اگر آئین پر عمل نہ ہوا تو ہم سڑکوں پر ہوں گے اور وکلا کے ساتھ مل کر آئین کے لیے تحریک چلائیں گے۔‘

شیئر: