جو بھی کریک ڈاؤن ہو رہا ہے اس کے بعد ہمدردی فیکٹر بھی پی ٹی آئی کی طرف نمایاں ہے۔ (فوٹو: اے ایف پی)
سیاست کا کھیل ایک بار پھر بند گلی میں ہے۔ اسی بند گلی میں ہونے والی کشمکش میں ایک کے بعد ایک ادارہ تختہ مشق بن رہا ہے۔ کیا اسمبلیاں، کیا عدالتیں، کیا آئی ایم ایف اور کیا بیرونی تعلقات: ایک کے بعد ایک نیا محاذ کھل رہا ہے۔ اتنے کثیر محاذوں پر کشمکش کا نتیجہ سب کے سامنے ہے۔
اس مہینے ملک میں مہنگائی تاریخ کی بلند ترین سطح پر رہی، درجنوں افراد کچھ کلو آٹا اور چند سو روپوں کے لیے جان سے گئے، بیرونی امداد کے امکانات مخدوش ترین ہیں، نواز شریف نے ڈالر 500 روپے پر جانے کی شنید سنا دی ہے اور اندرونی طور پر حکومت کی تمام تر توجہ مخالفین کے خلاف سخت ترین اقدامات پر ہے۔
سوال یہ ہے کہ ان تمام اقدامات اور کشمکش کا مقصد آخر ہے کیا؟
جواب اس کا ہے وقت کے پہیے کو پیچھے موڑنا۔ پی ڈی ایم کی حکومت میں اصل اضطراب ن لیگ کو ہی درپیش ہے اور یہ اضطراب ہے اپنے ساتھ ہونے والے اقدامات کا ازالہ کرنا اور وہی سب کچھ اپنے مخالفین یعنی پی ٹی آئی پر نافذ کرنا۔
اس ازالے کے نتیجے میں نیب کا قانون بدلا جا چکا، شہباز شریف، اسحاق ڈار اور فیملی کے کیسز ختم ہو چکے اور دیگر رہنما بھی آہستہ آہستہ مقدمات سے فارغ ہوتے جا رہے ہیں۔ اب مزید باقی ہے مریم نواز اور نواز شریف کی سزا کا ختم ہونا اور نواز شریف کی نااہلی واپس ہو کر دوبارہ سیاست میں واپسی۔
اس ریورس انجینیئرنگ کا پہلا حصہ تو تھا اپنے خلاف ہونے والے اقدامات کی واپسی اور دوسرا حصہ ہے وہی تمام عمل عمران خان اور پی ٹی آئی کے خلاف دوہرایا جانا۔ اسی سلسلے کی کڑی ہے توشہ خانہ اور دیگر کیسز، ساتھیوں کے خلاف کریک ڈاؤن اور پھر الیکشن کا عمل مشکل سے مشکل بنانا۔
یہاں مشکل یہ آن پڑی ہے کہ ایک تو بار بار دہرائے جانے والا عمل اب اپنا اثر بھی کھو رہا ہے اور عمران خان بہت سارے اقدامات کو پہلے سے بھانپ کر ایڈوانس ہی کارروائی کر لیتے ہیں۔ اس پر حکومت کی تَلمَلاہٹ اصل میں وہ پچھتاوا ہے کہ جب ان پر یہ نوبت آئی تو انہوں نے اب کچھ صبر شکر کر کے سہہ لیا تھا۔ یہاں پر ان کی مایوسی اور کچھ حد تک بے بسی عیاں ہے کہ جو کچھ ان کے خیال میں ان کے ساتھ ہوا، اس کا حساب برابر کرنے میں ان کو خاص کامیابی ہوتی نظر نہیں آ رہی، اور جو بھی کریک ڈاؤن ہو رہا ہے اس کے بعد ہمدردی فیکٹر بھی پی ٹی آئی کی طرف نمایاں ہے۔
سوال آخر میں یہ بھی ہے کہ آخر اس سعی لاحاصل کا مقصد کیا ہے؟ ن لیگ اور اس کی قیادت سیاست کو دوبارہ ٹائم مشین کے ذریعے 2013 میں لے جانا چاہتے ہی ۔ وہ دوبارہ اس وقت کو زندہ کرنا چاہتے ہیں جب ان کو تازہ تازہ حکومت ملی مگر اس کے بعد ان کے خلاف تحریکیں، مقدمے اور مہمات چلیں اور پھر انہی کی حکومت میں وزیراعظم کو گھر جانا پڑا۔ اب وہ اس سب کو undo کرنا چاہتے ہیں اور ساتھ ساتھ حساب بھی برابر کرنا چاہتے ہیں۔
اسی کوشش اور کشمکش میں جمہوریت، آئین اور سیاست میں بچے کھچے اصول اور رہی سہی روایات کی بھی قربانی دی جا رہی ہے۔ ان کو ہر طرف سے یہ باور کرایا جا رہا ہے کہ وقت کا ایک اصول یہ بھی ہے وقت کسی کی بھی خواہش پہ آگے نہیں مڑتا۔
اگر بات 2013 کی ہو تو پھر بات 1999 یا 1985 تک بھی کی جا سکتی ہے۔ یہ سعی لاحاصل ملک، سیاست اور جمہوریت کو آگے کے بجائے پیچھے لے جا رہی ہے۔ وقت نے تو آگے جانا ہے البتہ ملک پیچھے جا رہا ہے۔ اس کو پیچھے موڑنے کی کوشش کا نتیجہ بھی سب کے سامنے ہے، اگر سمجھنے والے سمجھیں تو۔