عمران خان لاہور ہائی کورٹ میں پیشی کے دوران۔ (فوٹو: اے ایف پی)
سیاسی کھیل اب آخری مرحلے میں داخل ہوا چاہتا ہے۔ یہ مرحلہ ہے انتخابات کا۔ اس مرحلے میں پہلا سوال ہوتا ہے انتخابات کب ہوں گے۔ اس کے بعد سوال اٹھتا ہے کہ انتخابات کون لڑے گا اور آخر میں بات آتی ہے کہ انتخابات کون جیتے گا۔
عام طور ان سوالات کے جوابات بھی واضح ہوتے ہیں مگر ہمارے ہاں یہ جواب غیریقینی کے گہرے بادلوں میں چھپے ہوئے ہیں۔
خیبر پختونخوا اور پنجاب میں الیکشن کے شیڈول کا اعلان ہو چکا ہے اور کاغذات نامزدگی کا عمل جاری ہے، مگر ابھی تک کوئی فریق بھی یقین سے نہیں کہہ سکتا کہ یہ الیکشن اپنے وقت پر ہوں گے۔
دوسرا سوال بھی اس کے ساتھ ہی منسلک ہے۔ الیکشن لڑنے والوں کا تعین بھی الیکشن سے پہلے ہونے والی کشمکش کا حصہ ہوتا ہے۔ ابھی بھی کچھ شکوک و شبہات موجود ہیں کہ کون الیکشن میں حصہ لے گا اور کون نہیں۔
اس میں حصہ لینے والوں کی اپنی مرضی سے زیادہ حالات و واقعات کا تسلسل اہم کردار ادا کرے گا۔ یہ کردار سیاسی تقسیم کے دونوں طرف موجود ہیں اور ایک دوسرے کو الیکشن کے عمل سے باہر رکھنے کی کوشش جاری ہے۔
الیکشن نتائج کا معاملہ اس کے ذرا بعد کا ہے اور وہ وقت بھی دور نہیں ہے۔ اس بار البتہ سیاسی کھیل میں کچھ فرق بھی ہے۔
سب سے پہلے تو حکومت کے بدلنے اور اسمبلیوں کے ٹوٹنے جیسے واقعات قبل از وقت رونما ہوئے ہیں۔ ملک میں پہلی دفعہ صوبائی اور قومی اسمبلیوں کے انتخابات علیحدہ علیحدہ ہونے جا رہے ہیں۔
ملک اپنی تاریخ کے بدترین معاشی بحران سے گزر رہا ہے۔ آئی ایم ایف سے ڈیل اب بھی غیریقینی ہے۔ اس کے علاوہ روایتی حلیف اب حریف بن چکے ہیں اور پرانے نظریاتی حریف اکٹھے صف آرا ہیں۔
اس بار کھیل میں ایک تندی بھی ہے اور تیزی بھی۔ اس تند و تیز کھیل نے ہمارے سیاسی درجہ حرارت کو بڑھا کر ایک نئی سطح پر پہنچا دیا ہے۔ مستقبل کی غیریقینی صورتحال کی وجہ بھی یہی درجہ حرارت ہے۔
اس سیاسی کھیل میں کچھ اور نیا بھی ہے اور وہ ہے کھیل کے قانون جو اَز سَر نَو تحریر ہو رہے ہیں، اور اس rewriting of rules کا آغاز پی ٹی آئی بلکہ ذاتی طور پر عمران خان کی طرف سے ہوا ہے اور مسلسل جاری ہے۔
اس سے پہلے کھیل میں روایتی تلخی اور تیزی ہمیشہ سے رہی ہے جس کا اندازہ ہماری سیاسی تاریخ کے کئی ہنگامہ خیز ادوار سے ہوتا ہے۔
پرانے اور جہاں دیدہ تجزیہ کار یہ کہیں گے کہ جو کچھ اب ہو رہا ہے اس کی مثالیں اس سے پہلے موجود ہیں۔ یقیناً اس میں کوئی شک نہیں مگر ایک واضح فرق ضرور ہے اور وہ فرق ہے سیاست دانوں کے ردعمل میں اور اس دفعہ یہ ردعمل بالکل مختلف اور حیران کن رہا ہے۔
سیاست دان ہمیشہ سے اقتدار سے نکلنے کے بعد تختہ مشق بنتے رہے ہیں اور اس دور کو اپنے دوبارہ اقتدار میں آنے کی قیمت کے طور پر دیکھتے رہے ہیں۔ اس طرز فکر کی وجہ اپنا دور یا اپنی باری کا ایک تصور بھی رہا ہے۔ اس لیے وہ اقتدار سے محرومی اور باری کے انتظار میں روایتی طرز کی تحریکیں بھی چلاتے رہے ہیں اور ساتھ ساتھ اپنے ساتھ ہونے والے کارروائی کو کڑوا گھونٹ سمجھ کر پیتے رہے ہیں۔
ان کو ہمیشہ اس بات کا اندازہ رہا ہے کہ سیاسی جنگ قانونی ہوتی ہے اور قانونی جنگ سیاسی اور، دونوں کے توازن کو برقرار رکھنے کی مہارت ان میں نسل در نسل منتقل ہوتی رہی ہے۔
ان کی طرف سے احتجاج کی ایک ٹائمنگ رہی ہے اور چوٹ لگانے کے لیے لوہا گرم ہونے کا انتظار ہمیشہ سے سیاسی گیم پلان کا ایک لازمی حصہ رہا ہے۔
اب یہ رولز آف گیم بدلے جا رہے ہیں اور اس کو بدل رہے ہیں عمران خان۔ وہ باریوں کے سلسلے سے باغی ہیں اور اقتدار سے نکلنے کی بعد روایتی تحریک کے بجائے ایک موثر حکمت عملی سے اپنا ووٹ بنک اور سپورٹ بڑھا چکے ہیں۔
قانونی محاذ پر بجائے بیک فٹ پر جانے کہ وہ فرنٹ فٹ پر ہی کھیل رہے ہیں اور لوہا گرم ہونے کے انتظار کے بجائے خود ہی لوہے کو گرم کرنے کا بندوبست کرنے میں بھی کامیاب ہو چکے ہیں۔
خاص طور پر گرفتاری، نااہلی اور سزا کے سائیکل سے گزرنے کو ہر حال میں روکنے کا ارادہ رکھتے ہیں اور اب تک اس میں کامیاب بھی ہیں۔
محاذ چاہے سڑک پر ہو یا عدالت میں، جلسے ہوں یا سوشل میڈیا، ہر جگہ ان کی طرف سے نئے رولز لکھے جا رہے ہیں۔
سوال اب یہ ہے کہ ان کے مخالفین کب تک ان نئے رولز کے مقابلے میں پرانے طریقہ کار سے چلیں گے۔ اس میں ان کے مخالفین کی طرف سے تاسف کا احساس بھی نمایاں ہے۔ شاید آگے جا کر یہ سیاست دانوں کے لیے بھی سبق بن جائے۔ اس سبق کے مستقبل میں مثبت یا منفی اثرات کا فیصلہ تو تاریخ کرے گی مگر فی الحال اس نئے کھیل میں نئے اصول سامنے آنے کا سلسلہ جاری ہے۔
دیکھنا یہ ہے کہ یہ سلسلہ کب تک چلتا ہے اور اس کھیل کی سیاسی نظام کو کتنی قیمت ادا کرنا پڑتی ہے؟