Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

ایوب خان نے بھٹو پر بھارتی شہری ہونے کا الزام کیوں لگایا؟

پاکستان کی قومی اسمبلی کو بتایا گیا کہ بھٹو 1958 تک پاکستان اور انڈیا دونوں کی شہریت کا دعوی کرتے رہے تھے۔ (فوٹو: اوپن میگزین)
’بھارت سے کچھ دستاویزات میرے ہاتھ لگی ہیں جو بتاتی ہیں کہ مسٹر بھٹو 1958 تک بھارتی شہری ہونے کے دعویدار تھے۔ اس دوران کراچی میں ان کا قیام عارضی نوعیت کا تھا۔ میں نے اس کی مزید تصدیق کا کہہ دیا ہے۔ یہاں سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ شخص کس قدر بے ایمان اور بے روح ہے۔‘
یہ الفاظ اس وقت کے صدر پاکستان ایوب خان نے 3 مارچ 1967 کو اپنی ذاتی ڈائری میں رقم کیے۔
اس میں حیرت کا پہلو یہ ہے کہ مذکورہ شخص (یعنی ذوالفقار علی بھٹو) صرف نو ماہ قبل تک ان کی حکومت میں وزیر خارجہ  تھے۔ اس سے بڑھ کر یہ کہ وہ آٹھ برس تک ان کی کابینہ میں چار مختلف وزارتوں پر فائز رہ چکے تھے۔ ایک وقت میں ان کی جماعت کنونشن مسلم لیگ کے سیکرٹری جنرل کا عہدہ بھی ان کے پاس رہا تھا۔
پاکستانی سیاست کا المیہ رہا ہے کہ سیاسی مخاصمت میں رہنماؤں کی حب الوطنی، ذاتی اور کاروباری معاملات اور بیرون ملک روابط کو ان کے خلاف نفرت پھیلانے اور سیاسی میدان سے باہر کرنے کے لیے استعمال کیا جاتا رہا ہے۔  
پاکستان کے فوجی سربراہ نے اپنے علم میں آنے والی جن دستاویزات کا دعوٰی کیا ہے ان میں کیا تھا اور ان کے ہاتھ کیسے آئیں؟
اس سوال کا جواب ایوب خان کی ذاتی ڈائریوں پر مشتمل کتاب ’ڈائریز آف فیلڈ مارشل ایوب خان‘ میں موجود ہے۔ 
اسی سال 23 جون کی ڈائری میں انھوں نے لکھا کہ ’آج قومی اسمبلی میں اس کے بارے میں سوال پوچھا گیا جس سے پتا چلا کہ بھٹو نے بھارتی کورٹ میں اپنی بھارتی شہریت کا اعتراف کیا تھا۔‘
صدر ایوب نے مزید لکھا کہ ’اس شخص نے ڈیڑھ لاکھ روپے کے لیے ایسا کیا۔ حالیہ عرصے تک ہم  لاعلم رہتے اگر بھارتی پارلیمنٹ میں اس کا چرچا نہ ہوتا اور پھر یہ معاملہ ذرائع ابلاغ کی زینت نہ بنتا۔‘ 
صدر ایوب کی تحریر سے یہ تاثر ملتا ہے کہ یہ انکشاف انڈین پارلیمنٹ میں تھوڑا عرصہ پہلے ہی ہوا ہے جس کی بازگشت بعدازاں پاکستان کی قومی اسمبلی میں بھی سنائی دی۔
حقیقت میں بھارتی راجیہ سبھا میں ایک توجہ دلاؤ نوٹس کے جواب میں بحالیات کے وزیر مھاوری تیاگی نے سب سے پہلے اس کا ذکر کیا۔ 
انہوں نے کچھ دستاویزات کی بنیاد پر دعویٰ کیا کہ ذوالفقار علی بھٹو نے متروکہ جائیداد کے اسسٹنٹ کسٹوڈین کی عدالت میں بمبئی میں موجود اپنی متروکہ جائیداد کے حصول کے کیس میں 1958 تک انڈیا کا شہری ہونے کا اقرار کیا تھا۔ 

بھٹو نے پاکستانی حکومت میں وزیر بننے کے بعد انڈین سپریم کورٹ سے اپنی درخواست واپس لے لی تھی (فوٹو: اے ایف پی)

یہ دلچسپ امر ہے کہ انڈین پارلیمنٹ میں بھٹو کے بارے میں بحث و مباحثہ 19 نومبر 1965 کو ہوا۔ اس وقت ذوالفقار علی بھٹو پاکستان کے وزیر خارجہ تھے۔ دونوں ملکوں میں جنگ کے بعد دشمنی اور نفرت کے جذبات عروج پر تھے۔ 
اس واقعے کے تقریباً ڈیڑھ برس بعد پاکستان کی قومی اسمبلی میں ایک ممبر حبیب الرحمان کے سوال کے جواب میں اطلاعات کے وزیر خواجہ شہاب الدین نے بھٹو کے بارے میں انکشافات کیے۔
انہوں نے ممبران اسمبلی کو بتایا کہ بھٹو کے دعوے کے مطابق وہ 1958 تک پاکستان اور انڈیا دونوں کی شہریت کا دعوی کرتے رہے تھے۔ 
انہوں نے پاکستانی حکومت میں وزیر بننے کے بعد انڈین سپریم کورٹ سے اپنی درخواست واپس لے لی تھی۔ 
اس موقع پر وزارت خارجہ کے پارلیمانی سیکریٹری نے بھارتی راجیہ سبھا کی اس تنازعے کے بارے میں بحث پر مشتمل رپورٹ بھی قومی اسمبلی کے سامنے پیش کی۔
اس رپورٹ میں دیگر تفصیلات کے ساتھ ساتھ یہ تذکرہ بھی تھا کے ذوالفقارعلی بھٹو نے ستمبر 1947 میں انڈین پاسپورٹ پر امریکہ کا سفر کیا تھا۔ 
ان الزامات کی حقیقت کیا تھی؟ پاکستان اور انڈیا کے پارلیمانی ایوانوں میں یہ معاملہ کیوں زیر بحث آیا ؟ ان سوالوں کا جواب جاننے کے لیے ذوالفقار علی بھٹو کا خاندانی پس منظر اور انڈیا میں ان کی جائیداد کا تذکرہ ضروری ہے۔ 
ذوالفقار علی بھٹو کے والد سر شاہنواز بھٹو ریاست جونا گڑھ کے دیوان تھے جنہوں نے ریاست کے حکمران کو پاکستان کے ساتھ الحاق پر قائل کیا۔ 

ذوالفقار علی بھٹو کو ان کے والد نے ممبئی کے مشہور سکول کیتھڈرل اینڈ جان کینن پڑھنے بھیجا (فوٹو: فلکر)

مگر جونا گڑھ پر انڈین فوجی ایکشن کے بعد نواب محمد مہابت خانجی سوئم اپنے مال اور اہل و عیال سمیت کراچی منتقل ہو گئے۔
ذوالفقار علی بھٹو کو ان کے والد نے ممبئی کے مشہور سکول کیتھڈرل اینڈ جان کینن پڑھنے بھیجا۔ قیام پاکستان کے بعد 8 ستمبر 1947 کو بھٹو تعلیم کے لیے امریکہ روانہ ہو گئے۔ ان کا خاندان چونکہ جونا گڑھ میں ہی مقیم تھا اس لیے بھٹو نے بھارتی پاسپورٹ پر امریکہ کا سفر کیا۔
ممبئی میں بھٹو فیملی کا آبائی گھر ورلی اسٹیٹ میں واقع تھا۔ اس کے علاوہ چرچ گیٹ پر سٹوریا ہوٹل بھی ان کی ملکیت تھا۔ جونا گڑھ پر بھارتی قبضے کے بعد ان کے والد  یہ جائیداد بھٹو کے نام کر کے خود کراچی چلے آئے۔
6 جولائی 1949 کو یہ اثاثے انڈین حکومت کی طرف سے متروکہ جائیداد قرار دیے گئے۔ اسی سال کے آخر میں اسٹوریا ہوٹل بارہ لاکھ میں نیلام کر دیا گیا۔
بھٹو اپنی تعلیم  مکمل کر کے ممبئی کے بجائے کراچی آئے۔ اپنے والد کی وفات کے بعد انہوں نے متروکہ جائیداد کے حصول کے لیے ممبئی میں ڈپٹی کسٹوڈین اور بعد ازاں کسٹوڈین کی عدالت میں دعویٰ دائر کیا۔
اس کیس میں انہوں نے اپنی چھوڑی ہوئی جائیداد پر حق ثابت کرنے کے لیے یہ قرار دیا کہ وہ دس برس بعد وطن واپس آئے ہیں۔ انہوں نے انڈین پاسپورٹ پر سفر کیا تھا اور کراچی میں ان کی رہائش عارضی ہے۔ 
ممبئی کی عدالت نے بھٹو کا دعویٰ تسلیم کرنے سے انکار کر دیا۔ انہوں نے ستمبر 1957 میں انڈین سپریم کورٹ میں اپیل دائر کر دی۔
یہ وہی وقت تھا جب بھٹو نے پاکستانی وفد  کے ساتھ جنیوا میں اقوام متحدہ کی کانفرنس میں مندوب کے طور پر شرکت کی تھی۔

ذوالفقار علی بھٹو نے جب ایوب خان کی حکومت میں وزیر تجارت کا حلف اٹھایا تو ان کی عمر 29 برس تھی (فوٹو: اے ایف پی)

وزارت کا حلف لیتے وقت بھٹو کی شہریت
ذوالفقار علی بھٹو نے جب ایوب خان کی حکومت میں وزیر تجارت کا حلف اٹھایا تو ان کی عمر 29 برس تھی۔ قومی اسمبلی میں ان کے مخالفین نے قرار دیا کہ وہ اس وقت انڈین شہری تھے۔
ممبئی ہائی کورٹ کے وکیل سنجوئے گوش نے اس کیس کی تفصیلات بیان کرتے ہوئے لکھا ہے کہ بھٹو نے رجسٹریشن آف کلیم  ایکٹ 1955 کے تحت اپنی جائیداد کی رقم کو حاصل کرنے کے لیے دعویٰ کیا تھا۔
وہ مزید لکھتے ہیں کہ 13 اگست 1958 کو بھٹو نے انڈین سپریم کورٹ سے اپنی درخواست سے دستبرداری کی استدعا کی۔ جس کے لیے ان کا موقف تھا کہ وہ اب مستقل طور پر کراچی میں سکونت اختیار کر چکے ہیں اور اس کیس کی مزید پیروی نہیں کرنا چاہتے۔
مصنف کے مطابق تین نومبر 1958 کو ان کی درخواست منظور کر لی گئی۔ 
ان حقائق کو سامنے رکھتے ہوئے دیکھا جائے تو بھٹو  اکتوبر 1958 میں حکومت کا حصہ بنے۔ اس سے قبل وہ کیس سے دستبرداری کی درخواست انڈین سپریم کورٹ میں دائر کرچکے تھے جس کا فیصلہ دو ماہ بعد ہوا۔
ذوالفقار علی بھٹو نے اپنے خلاف لگنے والے الزامات کو بے بنیاد قرار دیا۔
دو جولائی 1967 کو ملک کے ایک معتبر انگریزی روزنامے نے اپنے اداریے میں قومی اسمبلی میں بھٹو پر لگنے والے الزامات کا حوالہ دیتے ہوئے ان کی حب الوطنی پر سوال اٹھائے۔
ایسے میں بھٹو کے ساتھیوں نے اخبار کو ہتک عزت کا نوٹس جاری کرنے کے لیے وکلا سے رابطہ کیا تو کوئی بھی یہ کیس لینے کو تیار نہ ہوا۔

جنوری 1966 میں ایوب حکومت سے الگ ہونے کے بعد بھٹو کی مقبولیت میں دن بدن دن بڑھنے لگی (فوٹو: اے ایف پی)

ذوالفقار علی بھٹو کے ابتدائی دور کے ساتھی رفیع رضا اپنی کتاب ’ذوالفقارعلی بھٹو اینڈ پاکستان‘ میں لکھتے ہیں کہ انہوں نے ممتاز بھٹو کے کہنے پر مذکورہ اخبارکو قانونی نوٹس کے ساتھ ساتھ بھٹو کا تفصیلی موقف بھی بھجوایا۔
نامور انگریز محقق  لارنس زائرینگ نے اپنی کتاب ’دی ایوب خان ایرا: پولیٹکس ان پاکستان‘ میں بھٹو پر لگنے والے الزامات کے حوالے سے لکھا ہے کہ بھٹو نے ان الزامات کی تردید کی مگر اس بات کو تسلیم کیا کہ انہوں نے 1947میں انڈین پاسپورٹ پر امریکا کا سفر کیا تھا۔ 
ان کے مطابق بھٹو کو 12 جولائی 1949 کو کراچی سے پاکستان کا پاسپورٹ جاری ہوا تھا۔ 
البتہ انہوں نے اس بات کو شدت سے رد کیا کہ جائیداد کا دعویٰ انہوں نے انڈین شہری ہونے کی حیثیت سے کیا تھا۔ انہوں نے پاکستانی حکومت کو اس کی اطلاع دی تھی اور پھر اپنا کیس واپس لے لیا تھا۔
ایوب نے بھٹو کو انڈین شہری کیوں کہا؟
جنوری 1966 میں ایوب حکومت سے الگ ہونے کے بعد بھٹو کی مقبولیت میں دن بدن دن بڑھنے لگی۔ ملک بھر سے سیاسی کارکنوں، دانشوروں، طلبا اور مزدور تنظیموں کے رہنما  ان کے گرد اکٹھا ہونے لگے۔
اسی سبب ایوب خان کی حکومت نے انہیں متنازع بنانے کے لیے انڈین شہری مشہور کرنے کا سہارا لیا۔ 
ایوب خان کے دور اقتدار پر دو کتابوں کے مصنف اور ممتاز مغربی محقق ہربرٹ فریڈمین نے اپنی کتاب ’پاکستان: فرام کرائسز  ٹو کرائسز‘ میں بھٹو پر غیر ملکی شہری ہونے کے الزامات کا مدلل تجزیہ کیا ہے۔
ان کے مطابق اگر بھٹو حقیقت میں انڈین شہری تھے تو 1965 میں انڈیا کی طرف سے الزامات کے بعد انہیں وزارت خارجہ جیسی حساس ذمہ داریوں سے الگ کیا گیا اور اس بارے میں نہ ہی کوئی انکوائری ہوئی۔ 

بھٹو سے قبل حسین شہید سہروردی کو بھی پاکستانی شہری ماننے سے انکار کر دیا گیا تھا (فوٹو: ریڈیو پاکستان)

مصنف کے مطابق اور وجہ جس نے بھٹو  کو اس پراپیگنڈے کے طوفان سے محفوظ رکھا وہ انڈیا میں بھٹو کے بارے میں پایا جانے والا رویہ بھی تھا۔
مسئلہ کشمیر اور تاشقند معاہدے پر غیر لچک دار رویے کی وجہ سے بھٹو کو انڈیا مخالف سمجھا جاتا تھا۔
تقسیم کے بعد برصغیر میں بہت سارے خاندانوں نے دوسرے ملکوں میں رہ جانے والی جائیدادوں کو حکومتی کنٹرول میں جانے سے روکنے کے لیے اپنے خاندان کے کسی فرد کو پاکستان یا انڈیا میں ہی رکھنے کا فیصلہ کیا تھا۔ 
بھٹو خاندان نے بھی اسی حکمت عملی کے تحت اپنی جائیداد واگزار کروانے کی کوشش کی جسے ان کے سیاسی مخالفین نے ذات پر الزامات کے لیے استعمال کیا۔
بھٹو سے قبل حسین شہید سہروردی کو بھی پاکستانی شہری ماننے سے انکار کر دیا گیا تھا۔ یہاں تک انہیں اسی وجہ سے  دستور ساز اسمبلی کی رکنیت سے بھی محروم ہونا پڑ گیا۔ جس کے لیے جواز پیش کیا گیا کہ ان کا حلقہ انتخاب کلکتہ ہے جو انڈیا کا حصہ بن چکا ہے۔

شیئر: