شہباز شریف کی حکومت نے کہا تھا کہ ملک میں ایک ہی بار انتخابات ہونے چاہییں۔ (فائل فوٹو: اے ایف پی)
ملک میں آئین کی بحث زوروں پر ہے۔ یہ بحث شاخسانہ ہے اس کشمکش کا جو آئین کی تشریح پر جاری ہے۔ اس کشمکش میں ایک طرف اعلٰی عدالت ہے تو دوسری طرف پارلیمنٹ اور ان کے بیچ میں ہے الیکشن کمیشن۔ ساتھ ہیں سیاسی جماعتیں جو پارلیمنٹ سے باہر بھی ہیں اور پارلیمنٹ کے اندر بھی۔
تازہ ترین تو اب وفاقی ادارے بشمول سٹیٹ بنک اور وزارت خزانہ بھی معاملے میں نمودار ہو چکے ہیں۔ فوری ایشو ہے صوبائی انتخابات کا اور وفاقی حکومت نے واضح طور پر عندیہ دے دیا ہے کہ وہ مقررہ مدت میں یہ انتخابات نہیں کروانا چاہتی۔
سوال یہ ہے کہ آئین کی نمائندگی کا اصل حق کس کا ہے اور واضح آئینی احکامات کو نافذ کیسے کیا جائے؟
پارلیمان میں بیٹھے نمائندے اپنے آپ کو آئین کا اصل علمبردار سمجھتے ہیں۔ اگرچہ موجودہ پارلیمان کی تشکیل میں کئی خصوصی امور پیش نظر رکھنے چاہییں۔ ایک تو ایوان زِیریں یعنی قومی اسمبلی مکمل ہی نہیں ہے۔ عمران خان اور پی ٹی آئی نے گزشتہ ایک برس میں تقریباً ہر دفعہ سیاسی حکمت عملی کا لوہا منوایا ہے مگر قومی اسمبلی سے استعفے دینے کے فیصلے میں جلدی کر گئے۔ اب ان کو اس کا احساس ہو گیا ہے مگر سپیکر قومی اسمبلی کسی نہ کسی طرح ان کے دیے گئے استعفوں کو جواز بنا کر اسمبلی میں ان کا داخلہ روکنے میں کامیاب رہے ہیں۔
اس کے باوجود نورا کشتی والی اپوزیشن کے ساتھ یہ قومی اسمبلی ایک نامکمل ایوان کے طور پر ہی دیکھی جائے گی جہاں پر موجود ممبران اپنی سیاست کی بقا میں زیادہ دلچسپی رکھتے ہیں۔ ان کی طرف سے کی جانے والی قانون سازی، چاہے وہ نیب میں ترامیم ہوں یا سپریم کورٹ کے قواعد و ضوابط کو تبدیل کرنے کی کوشش، ایک یک طرفہ اور نامکمل کوشش کے طور پر ہی لی جائے گی۔
دوسری طرف ملک کی اعلٰی عدالتیں آئین کی تشریح کرنے کی مجاز اور ذمہ دار ہیں۔ کسی بھی اصول کے تحت آئین کی تشریح اور بنیادی حقوق کا تحفظ صرف انتظامی اداروں پر نہیں چھوڑا جا سکتا۔ اعلٰی عدالتوں کی طرف سے کیے گئے فیصلوں پر اعتراض کے باوجود ان کو ماننا ضروری ہوتا ہے۔ اب تک اس روایت میں کوئی خلل نہیں آیا مگر اب نئی روایتیں بھی سامنے آ رہی ہیں۔ حکومت کی طرف سے اعلٰی عدالتوں کے فیصلوں کی حکم عدولی کے واضح اعلانات ہو رہے ہیں۔ اس دوران عدالت کے اندر سے نمودار ہونے والے متضاد اشاروں نے معاملات کو مزید پیچیدہ بنا دیا ہے۔
پارلیمان میں حکومتی بینچوں کی طرف سے جو کہ خود ایک نامکمل ایوان کے نمائندہ ہیں، عدالت میں مختلف آرا پر سوالات اٹھائے جا رہے ہیں۔ اسی دوران وکلا تنظیمیں بھی دونوں طرف سے میدان میں آ چکی ہیں اور ایک بھرپور کرائسز کا ماحول گرم ہو چکا ہے۔
پارلیمان اور عدالت کے علاوہ الیکشن کمیشن اور دیگر ادارے بھی آئین کے تحت تشکیل پاتے ہیں اور اپنی ذمہ داریوں سے آگاہ ہیں۔
الیکشن کمیشن کی طرف پہلے الیکشن کی تاریخ آئی اور پھر یکدم انتخابات ملتوی کر دیے گئے۔ اس کے بعد عدالت کے حکم کے بعد دوبارہ شیڈول کا اعلان کیا گیا اور اب حکومت کی طرف سے عدم تعاون کے بعد ایک بار پھر خاموشی ہے۔ ریاست کے دیگر اداروں کی طرف سے انتخابات کے انعقاد کے بارے میں بھی تعاون سامنے نہیں آ رہا۔
نگران حکومتیں جو کہ صرف محدود مدت کے لیے ہوتی ہیں وہ بھی بڑی سہولت سے اپنی مدت ختم ہونے کے بعد بھی اپنی ذمہ داریاں جاری رکھنے کے لیے تیار بیٹھی ہیں۔ کیا ان کے پیش نظر آئینی قدغن ہے، بظاہر نہیں لگتا کہ ان کے نزدیک آئینی بندش کی کوئی خاص اہمیت ہے۔
اس وقت حکومت کے لیے مسئلہ ہے کہ انتخابات کو کیسے آگے کیا جائے، اور دوسری طرف پی ٹی آئی کے لیے مسئلہ یہ ہے کہ انہوں نے اسمبلی اس لیے تحلیل کی کہ وہ جلدی الیکشن کو یقینی بنا سکیں اور اس سلسلے میں ان کو کامیابی نظر نہیں آ رہی۔
اسی طرح دیگر ادارے بھی اپنے اپنے مسائل میں مبتلا ہیں۔ ان سب کے مسائل اپنی جگہ اصل مسئلہ تو آئین کا ہے اور آئین میں ایک خاص مدت کے بعد انتخابات کا طریقہ واضح موجود ہے۔ آئین کا مسئلہ بھی درحقیقت جمہوریت کے مسئلے کے ساتھ جڑا ہوا ہے۔ آئین ایک جمہوری اور نمائندہ حکومت کی ضمانت دیتا ہے۔ جمہوریت عوام کی آواز اور قانون کی بحالی کی آئینہ دار ہے۔ اس سے زیادہ بدقسمتی کیا ہو گی کہ پرانی اور روایتی سیاسی جماعتیں بھی جمہوریت اور نمائندگی کے اصولوں کو فراموش کرنے پر تیار ہیں۔ مگر یاد رہے کہ اصل مسئلہ آئین کا ہے اور آئین کی اطاعت میں ہی جمہوریت اور بنیادی حقوق کی ضمانت ہے۔