Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

مذاکرات پر سیاسی جماعتوں کے اندر سے متضاد آوازیں: ’اسٹیبلشمنٹ کی مداخلت کے بغیر حل ممکن نہیں‘

تجزیہ کار ماجد نظامی کا خیال ہے کہ اسٹیبلشمنٹ کی مداخلت کے بغیر مذاکرات کامیاب نہیں ہوں گے (فائل فوٹو: فیس بک)
اگرچہ جماعت اسلامی اور پاکستان پیپلز پارٹی کی خصوصی ٹیمیں پاکستان تحریک انصاف اور پی ڈی ایم میں مذاکرات کے لیے متحرک ہو چکی ہیں اوران کی طرف سے دعوے سامنے آ رہے ہیں کہ عام انتخابات کے لیے ایک متفقہ تاریخ پر مذاکرات کے لیے پیشرفت ہو رہی ہے لیکن اس بات چیت سے جڑے کئی لوگوں کا کہنا ہے کہ یہ کوششیں محض دکھاوا ہیں اور ابھی تک کسی بھی طرف سے کھلے دل سے اس عمل کا حصہ بننے کی ہامی نہیں بھری گئی۔  
یہاں تک کہ جن جماعتوں کے مابین مذاکرات ہونا ہیں ان کے اندر سے متضاد موقف سامنے آرہے ہیں جو اس بات کی نشاندہی کرتے ہیں کہ ابھی تک فریقین اس سلسلے میں ایک صفحے پر نہیں آئے۔ 
ایک طرف پاکستان تحریک انصاف نے جماعت اسلامی کے رابطہ کرنے پر تین رکنی مذاکراتی کمیٹی تشکیل دی ہے تو دوسری طرف اس کے سینیئر نائب صدر فواد چوہدری کا کہنا ہے کہ ’موجودہ حالات مذاکرات کے لیے موافق نہیں ہیں اور حکومت کی طرف سے تحریک انصاف کے رہنماؤں اور کارکنوں کی گرفتاریوں نے ان پر پانی پھیر دیا ہے۔‘
کچھ اسی طرح کے خیالات پی ٹی آئی کے وائس چیئرمین شاہ محمود قریشی اور صدر چوہدری پرویز الٰہی کے بھی ہیں۔ 
جبکہ حکمران اتحاد کی ایک جماعت پاکستان پیپلز پارٹی ان مذاکرات کے لیے سرگرم دکھائی دینے کے لیے کوشاں ہے تو اس اتحاد کے سربراہ مولانا فضل الرحمان عمران خان کو سیاسی منظر نامے کا ’غیر ضروری عنصر‘ قرار دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ ’پاکستانی سیاست ابھی اتنی نہیں گری کہ عمران خان سے مذاکرات کیے جائیں۔‘
پاکستان مسلم لیگ نواز کے سینیر رہنما رانا ثنا اللہ اور جاوید لطیف بھی صاف لفظوں میں عمران خان سے مذاکرات کی مخالفت کر چکے ہیں۔  ان بیانات کے بعد مذاکرات کے انعقاد کی سنجیدگی پر سوال اٹھتا ہے۔
اور اس سوال کا جواب دیتے ہوئے پاکستان انسٹیٹیوٹ آف لیجیسلیٹو ڈیویلپمنٹ اینڈ ٹرانسپیرنسی (پلڈاٹ) کے سربراہ احمد بلال محبوب کہتے ہیں کہ مذاکرات کا ڈول ڈلتے ہی سیاسی جماعتوں میں موجود صلح جو اور جنگجو لوگ اپنے اپنے مقاصد حاصل کرنے کے لیے متحرک ہو چکے ہیں۔

مولانا فضل الرحمان نے کہا ہے کہ ’پاکستانی سیاست ابھی اتنی نہیں گری کہ عمران خان سے مذاکرات کیے جائیں۔‘ (فوٹو: اے ایف پی)

ہر جماعت کے اندر کچھ سخت گیر لوگ ہیں اور کچھ صلح جو قسم کے لوگ ہیں۔ وہ دونوں اپنے اپنے طور پر مذاکرات کی اس کوشش کو ناکام کرنے یا کامیاب کرنے کی کوشش کرتے ہیں، بیانات بھی دیتے ہیں۔ اعلٰی قیادت کو فیصلہ کرنا ہوتا ہے کہ اس نے کیا کرنا ہے اور اعلٰی قیادت کو چاہیئے کہ گفتگو کے لیے کوئی راستہ ہموار کرے۔‘
لیکن احمد بلال محبوب سمجھتے ہیں کہ مذاکرات سے پہلے فریقین کی جانب سے اعتماد کی بحالی کے اقدامات ہونے چاہیئں اور ان کی عدم موجودگی میں نہ تو اس طرح کی کوئی کوشش سنجیدہ ہو سکتی ہے اور نہ ہی کامیاب۔
’جنگ بندی کر لیں، ایک دوسرے کے خلاف باتیں کرنا بند کر دیں، فوج کے خلاف پروپیگنڈہ بند کر دیں۔ مقدمات بنانا بھی بند کر دیں۔ یہ اعتماد بحالی کے اقدامات ہوں گے۔
نشانہ بنانا بھی بند کردیں، کارکنوں کو پکڑنا، خواہ مخواہ گرفتار کرنا۔ کوئی صحیح مقدمہ ہے تو ٹھیک ہے لیکن اگر نہیں ہے تو پھر ایسے کام نہ کریں۔‘
ان کا کہنا تھا کہ جماعت اسلامی کی طرف سے کی جانے والی کوشش کچھ عرصہ پہلے سول سوسائٹی کے نمائندہ لوگوں کے اقدامات سے زیادہ سنجیدہ ہے اور سیاسی جماعتوں کو چاہیے کہ اس سے فائدہ اٹھا کر مذاکرات کے ذریعے مسائل حل کر لیں، کیونکہ اس کے بغیر کوئی راستہ نہیں ہے۔
لیکن تجزیہ کار ماجد نظامی کا خیال ہے کہ اسٹیبلشمنٹ کی مداخلت کے بغیر یہ منزل طے نہیں ہو گی۔
مسئلہ یہ ہے کہ اسٹیبلشمنٹ ابھی اس مسئلے میں پڑنا نہیں چاہتی۔  تو کچھ سیاسی جماعتیں موقع دیکھتے ہوئے اپنے مقاصد کے لیے متحرک ہو گئی ہیں۔ وقت گزارنے کے لیے یہ ایک اچھی سرگرمی ہے لیکن یہ سنجیدہ کوشش نہیں ہے۔‘
ماجد نظامی کا کہنا تھا کہ اگر جماعت اسلامی مذاکرات اور اس کے نتیجے میں سنجیدہ بھی ہو تو ان کا سیاسی اثر ورسوخ اتنا نہیں ہے کہ وہ ضامن کا کردار ادا کرسکیں۔
جماعت اسلامی کا اتنا وزن نہیں ہے۔ اگر انہیں کسی ایک فریق سے کوئی بات منوانی ہو تو وہ کیسے منوائیں گے؟ اور وہ کیسے یہ گارنٹی دے سکتے ہیں کہ دونوں فریقین طے شدہ باتوں پر عمل کریں گے؟‘

ماجد نظامی کے مطابق جب تک اسٹیبلشمنٹ مداخلت نہیں کرے گی، اس مسئلے کا حل ممکن نہیں ہے۔ (فوٹو: فیس بک)

جو لوگ مذاکرات کروانا چاہ رہے ہیں ان کے پاس اس کا نہ تو اختیار ہے اور نہ ہی کوئی مینڈیٹ۔‘
انہوں نے کہا کہ اس سارے عمل میں مثبت بات یہ نظر آ رہی ہے کہ سیاسی جماعتوں کے اندر ایک احساس پیدا ہو رہا ہے کہ انہیں اپنے مسائل خود حل کرنے چاہیئں اور اس کے لیے سپریم کورٹ یا دوسرے اداروں کی طرف نہیں دیکھنا چاہیئے۔
لیکن ابھی ان کی انائیں اتنی بڑی ہیں کہ وہ اس طرف عملی قدم بڑھائیں۔ اس احساس کے باوجود ابھی وہ اپنی انا چھوڑ کر مسئلہ حل کرنے کے لیے قدم بڑھانے کو تیار نہیں ہیں۔‘
ماجد نظامی کے مطابق اب بھی جب تک اسٹیبلشمنٹ مداخلت نہیں کرے گی، اس مسئلے کا حل ممکن نہیں ہے۔

شیئر: