مستقبل میں انڈیا سب سے زیادہ مسلم آبادی والا ملک بننے جا رہا ہے؟
مستقبل میں انڈیا سب سے زیادہ مسلم آبادی والا ملک بننے جا رہا ہے؟
بدھ 3 مئی 2023 16:15
’ہندوؤں میں یہ خوف پیدا کیا جا رہا ہے کہ مسلمانوں کی تعداد ان سے بڑھ جائے گی‘ (فائل فوٹو: اے ایف پی)
انڈیا کے امیت اپادھیائے جو پیشے کے لحاظ سے فارماسسٹ ہیں انہوں نے سوشل میڈیا کا سہارا لیتے ہوئے یہ دعویٰ کیا ہے کہ آبادی کے حوالے سے انڈیا کو اسلامی ریاست میں تبدیل کیا جا رہا ہے جب کہ وہ آبادی کے بارے میں غلط اعدادوشمار پھیلا رہے ہیں۔
فرانسیسی خبر رساں ایجنسی اے ایف پی کے مطابق امیت کا کہنا ہے کہ ’انڈیا میں ان کے مسلمان پڑوسیوں میں بہت زیادہ بچے پیدا ہو رہے ہیں اس لیے ہندو خواتین کی ذمہ داری ہے کہ وہ اس پر توجہ دیں۔‘
امیت اپادھیائے ہند کے اکثریتی مذہب سے تعلق رکھنے والے بہت سے سوشل میڈیا ایکٹیوسٹ میں سے ایک ہیں اور وہ اپنے سوشل میڈیا اکاؤنٹ پر تقریباً 40 ہزار فالوورز کے لیے باقاعدگی سے اسلاموفوبک پوسٹیں شائع کر رہے ہیں۔
انہوں نے اپریل میں سوشل میڈیا پر اپنی ایک پوسٹ میں مسلمانوں کی جانب سے انڈیا پر قبضہ کرنے کے لیے اپنی آبادی کو کئی گنا بڑھانے کی مبینہ سازش کے بارے میں خبردار کیا تھا۔
انہوں نے کہا کہ ’گذشتہ ماہ کا یہ اعلان کہ انڈیا چین کو آبادی کے لحاظ سے پیچھے چھوڑ کر دنیا کی سب سے زیادہ آبادی والا ملک بن گیا ہے اس پر جشن منانے کی بجائے ہمیں سوچنا چاہیے۔‘
’میں اپنے سوشل میڈیا کے تمام ہندو فالوورز سے کہتا ہوں کہ زیادہ بچے پیدا کریں اور مسلمانوں کا مقابلہ کریں ورنہ وہ خطرہ بن جائیں گے اور آخرکار انڈیا سے ہندو مذہب کا صفایا کر دیں گے۔‘
تازہ اعداوشمار کے حوالے سے انڈیا کی ایک ارب 40 کروڑ آبادی ہے جس میں تقریباً 21 کروڑ مسلمان شامل ہیں تاہم حالیہ دہائیوں میں شرح پیدائش میں کمی واقع ہوئی ہے۔‘
سنہ 2021 میں ملک کے آخری نیشنل فیملی ہیلتھ سروے میں دو بچوں کی شرح پیدائش ظاہر کی گئی تھی اور یہ شرح مسلمان خواتین کے لیے معمولی طور پر بڑھ کر 2.3 تک پہنچ گئی ہے۔
پیو ریسرچ سینٹر کی جانب سے رواں سال کی رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ انڈیا کی مسلم کمیونٹی 2050 تک بڑھ کر 31 کروڑ 10 لاکھ ہو جائے گی۔
تاہم امریکہ میں مقیم تھنک ٹینک کے اندازے کے مطابق انڈین آبادی میں اس بڑھتے ہوئے تناسب کے باوجود مسلمان وسط صدی تک ایک ارب 70 کروڑ آبادی والے ملک میں اقلیت ہی رہیں گے۔
ان سب اعدادوشمار کے باوجود فیس بک، واٹس ایپ اور دیگر سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر وائرل غلط معلومات کے پھیلاؤ کو نہیں روکا جا سکتا جس میں دعویٰٰ کیا جا رہا ہے کہ انڈیا جلد ہی مسلم اکثریتی ملک بننے والا ہے۔
ایک فیس بک پوسٹ نے طنزیہ انداز میں اس خبر کا خیرمقدم کیا کہ انڈیا کی آبادی نے 5 تا 10 بچے پیدا کرنے پر مسلمانوں کا شکریہ ادا کرتے ہوئے چین کو پیچھے چھوڑ دیا ہے۔
ٹویٹر پر ایک اور پوسٹ میں کہا گیا کہ ہندو عقیدہ جلد ہی انڈیا سے ختم ہو جائے گا جب کہ مسلم اکثریت ملکی آئین کو ’اسلامی قانون‘ سے بدل دے گی۔
سازشی نظریات جو انڈیا میں عقیدے کی عددی بالادستی کو محفوظ بنانے کے لیے مسلمانوں پر سازش کا الزام لگاتے ہیں، برسوں سے ہندو قوم پرست نظریات کا مرکز رہے ہیں۔
تارکین وطن اور اقلیتوں کی اکثریتی آبادیوں میں ’بدلنے‘ کے اسی طرح کے نظریات کو دوسرے ممالک میں انتہائی دائیں بازو نے بھی قبول کیا ہے۔
قبل ازیں بی جے پی کے قانون ساز راکیش سنہا نے 2019 میں پارلیمنٹ میں آبادی پر قابو پانے کا بل پیش کیا جس میں تمام انڈین گھرانوں کو دو بچوں تک محدود کرنے کی تجویز رکھی گئی تھی، بل کی حمایت 125 اراکین پارلیمنٹ نے کی تھی۔
یہ بل اس وقت واپس لے لیا گیا جب ناقدین نے راکیش سنہا پر مسلمانوں کو ہدف بنانے کا الزام لگایا جب انہوں نے ہندو اور مسلم پیدائشی شرح کے درمیان واضح تفاوت پر تقریر کی، بعد میں انہوں نے اس الزام کی تردید کر دی۔
اقوام متحدہ کی جانب سے گذشتہ ماہ کیے گئے اعلان نے کہ انڈیا اب دنیا میں موجود کسی بھی دوسرے ملک کے مقابلے میں زیادہ انسانوں کا گھر ہے ان دعوؤں کو تقویت بخشی ہے۔
اسی تناظر میں بی جے پی سے وابستہ ہندو قوم پرست گروپ کے رکن ایشور لال نے ایک عوامی تقریر میں کہا کہ ہندو ایک شادی کریں گے اور ان کے دو بچے ہوں گے جب کہ مسلمان چار شادیاں کرتے ہیں اور ان کے اتنے بچے ہیں کہ وہ اپنی کرکٹ ٹیمیں بنا سکتے ہیں۔
انڈیا کے سابق الیکشن چیف ایس وائی قریشی نے ملک میں مسلم شرح پیدائش کے بارے میں بڑے پیمانے پر غلط معلومات پھیلائے جانے پر کہا ہے کہ یہ دعویٰ کہ مسلمان جلد ہی انڈیا کا اکثریتی مذہب بن جائیں گے ہندو قوم پرستوں کا صرف ایک پروپیگنڈہ ہے۔
ایس وائی قریشی کا کہنا ہے کہ ’ہندوؤں کو مزید بچے پیدا کرنے کے لیے اکسانے کے لیے یہ خوف پیدا کیا جا رہا ہے کہ مسلمانوں کی تعداد ہندوؤں سے بڑھ جائے گی جب کہ ایسا ممکن نہیں۔‘