Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

مردم شماری پر کشمیریوں کو کیا تحفظات ہیں؟ 

سردار حسن ابراہیم کا کہنا ہے کہ اس مردم شماری میں کشمیری شناخت کا الگ آپشن نہیں رکھا گیا (فائل فوٹو: اے ایف پی)
پاکستان میں ساتویں مردم شماری جاری ہے لیکن اس مرتبہ آغاز ہی سے پاکستان کے زیرانتظام کشمیر کے سیاست دانوں اور سماجی حلقوں کی جانب سے اس پر تحفظات سامنے آنا شروع ہو گئے ہیں۔
اس کے علاوہ کراچی، گلگت بلتستان اور چترال میں بھی مقامی زبانوں کا مردم شماری فارم میں اندراج نہ ہونے پر سوالات اٹھائے جا رہے ہیں۔
ماضی کے برعکس پاکستان کے ادارۂ شماریات (پی بی سی) نے اس مردم شماری میں ڈیجیٹل اندراج کی سہولت کا اجرا کیا تھا جس کے تحت شہری ادارہ شماریات کی ویب سائٹ پر لاگ اِن کر کے اپنے اور اہل خانہ سے متعلق معلومات خود درج کر سکتے ہیں لیکن 10 مارچ کو اس کی معیاد گزر چکی ہے۔
مردم شماری کرنے والی ٹیمیں اب گھر گھر جا کر اپنا کام کر رہی ہیں۔ حالیہ مردم شماری کے حوالے سے پاکستان کے زیرانتظام کشمیر میں عوامی اور سیاسی حلقوں کی جانب سے تحفظات کا اظہار کیا جا رہا ہے۔ 
کشمیر میں بعض سیاسی جماعتوں اور سماجی گروپس نے مردم شماری کے لیے مرتب کیے گئے ڈیجیٹل فارم پر سوالات اٹھاتے ہوئے اس میں ترمیم کا مطالبہ کیا ہے۔ 
ان گروپس اور تنظیموں کا بنیادی اعتراض یہ ہے کہ مردم شماری کے عمل میں ان الگ شناخت اور مادری زبانوں کے آپشن کو نظرانداز کیا گیا ہے لہٰذا ا یہ قابلِ قبول نہیں ہے۔ 
پاکستان کے زیرانتظام کشمیر کی قانون ساز اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر اور پیپلز پارٹی کے رہنما چوہدری لطیف اکبر اس حوالے سے ایک قرارداد بھی پیش کر چکے ہیں۔
لطیف اکبر نے اپنی قرارداد میں لکھا کہ مردم شماری فارم کے سوال نمبر آٹھ کے سامنے ’باشندہ ریاست جموں کشمیر‘ جبکہ مادری زبان کے سوال نمبرسات کے سامنے ’پہاڑی اور گوجری‘ کا آپشن بھی شامل کیا جائے۔

شناخت کا آپشن نہیں رکھا گیا‘ 

کشمیر کی قانون ساز اسمبلی کے رکن سردار حسن ابراہیم خان نے اردو نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ’یہ ساری کنفیوژن اس مرتبہ ڈیجیٹل مردم شماری ہونے کی وجہ سے ہوئی ہے۔‘ 
سردار حسن ابراہیم کا کہنا تھا کہ ’اس مردم شماری میں کشمیری شناخت کا الگ آپشن نہیں رکھا گیا جس سے مستقبل میں مسائل پیدا ہونے کا خدشہ ہے۔‘ 
’اگر آپ الگ شناخت کا خانہ نہیں رکھیں گے تو کل اگر کشمیریوں کے حقِ خودارادیت کے لیے ووٹنگ ہو گی تو ان کی تعداد درست طور پر ظاہر نہیں ہو سکے گی۔ 
’اسلام آباد ، کراچی اور دوسرے شہروں میں رہنے والا کشمیری کیسے اس عمل کر حصہ بنے گا جب اس کی شناخت بطور کشمیری درج ہی نہیں ہے۔‘ 
کیا کشمیر کی حکومت یا قانون ساز اسمبلی نے اسلام آباد سے اس بارے میں بات کی ہے؟  
اس کے سوال کے جواب میں سردار حسن ابراہیم نے کہا کہ ’مردم شماری کرانے کے ذمہ دار ادارے ابھی تک اس معاملے پر واضح نہیں ہیں۔‘ 
’رواں برس پانچ فروری کو وزیراعظم پاکستان شہباز شریف مظفرآباد آئے تھے تو اراکین اسمبلی نے ان کے سامنے یہ نکتہ اٹھایا تھا جس کے جواب میں انہوں نے کہا تھا اس پر بات چیت کی ضرورت ہے۔‘ 

کشمیر کی قانون ساز اسمبلی کے ارکان نے پانچ فروری کو اپنے تحفظات سے وزیراعظم شہباز شریف کو آگاہ کیا تھا (فوٹو: پی آئی ڈی، کشمیر)

واضح رہے کہ پاکستان کے زیرانتظام کشمیر اور گلگت بلتستان پاکستان اور انڈیا کے درمیان متنازع ریاست جموں کشمیر کی اکائیاں ہونے کی وجہ سے ملک کے دیگر صوبوں سے مختلف حیثیت رکھتی ہیں۔ 
ان دونوں علاقوں کا انتظام حکومتِ پاکستان کے پاس ہے لیکن آئین کے آرٹیکل ایک کے تحت درج علاقوں میں ان کا نام شامل نہیں ہے۔ 
دوسری جانب چار برس قبل انڈیا کے زیرانتظام کشمیر کو خصوصی حیثیت دینے والا آئین کا آرٹیکل 370 منسوخ کر کے اسے انڈیا کی یونین ٹیریٹریز میں بدل دیا گیا تھا جس کے خلاف نہ صرف کشمیری سیاسی حلقوں میں کافی ردعمل دیکھا گیا تھا بلکہ پاکستان کی حکومت نے بھی اسے انڈیا کا یکطرفہ طور پر کیا گیا فیصلہ قرار دیا تھا۔ 

’15 سے 20 لاکھ کشمیری گنتی سے نکل جائیں گے‘ 

پاکستان کے زیرانتظام کشمیر کے ضلع راولاکوٹ میں پیپلز رائٹس فورم کے عنوان سے ایک اتحاد بھی قائم کیا گیا ہے جس کے بنیادی مطالبات میں مردم شماری کے عمل میں تبدیلی بھی شامل ہے۔ 
پیپلز رائٹس فورم کے سربراہ زاہد رفیق نے اردو نیوز کے رابطہ کرنے پر بتایا کہ ’اس مردم شماری میں پاکستان کے سب صوبوں کے نام الگ سے دیے گئے ہیں لیکن آزادکشمیر کا نام نہیں دیا گیا۔‘ 
انہوں نے بتایا کہ ’جو لوگ تعلیم، روزگار یا کسی بھی وجہ سے چھ ماہ سے کشمیر سے باہر ہیں۔ ان کو کشمیر کی آبادی کے تحت شامل نہیں کیا گیا جس کے نتیجے میں 15 سے 20 لاکھ لوگ اس گنتی سے نکل جائیں گے۔‘ 

کشمیر کی پیپلز ایکشن کمیٹی نے پیر کو نیشنل پریس کلب اسلام آباد کے سامنے احتجاج بھی کیا (فوٹو: سکرین گریب)

’دوسرا یہ کہ ہماری مقامی زبانوں پہاڑی، گوجری وغیرہ کا آپشن بھی نہیں رکھا گیا۔‘ 
زاہد رفیق نے بتایا کہ پیپلز ایکشن کمیٹی میں کشمیر کی تمام نمایاں سیاسی جماعتوں اور سماجی کارکنوں کی نمائندگی موجود ہے اور وہ اپنے مطالبات لے کر کشمیر سے اسلام آباد پیدل سفر کر کے پہنچے ہیں۔‘ 
پیپلز ایکشن کمیٹی کے کارکنوں نے پیر کو نیشنل پریس کلب اسلام آباد کے سامنے احتجاج بھی کیا۔ 

’ترمیم ادارۂ شماریات کا اختیار نہیں‘ 

اس بارے میں جاننے کے لیے جب اردو نیوز نے مردم شماری کرنے والے پاکستان کے ادارۂ شماریارت (پی بی سی) کے فوکل پرسن سرور گوندل سے رابطہ کیا تو ان کا کہنا تھا کہ ’مردم شماری فارم کے خانوں میں جو کچھ درج ہونا ہوتا ہے، اس کا فیصلہ مشترکہ مفادات کونسل کرتی ہے جس میں وزیراعظم پاکستان کے تحت چاروں صوبوں کے وزرائے اعلیٰ ہوتے ہیں۔‘ 
’اس حوالے سے ادارۂ شماریات کا اپنا کوئی اختیار نہیں ہے۔‘ 
کشمیریوں کی ایک بڑی تعداد کے اپنی شناخت کے ساتھ شمار نہ ہونے کے خدشے سے متعلق سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ ’مردم شماری کا تعلق پالیسی پلاننگ سے ہے۔ اس سے حاصل ہونے والے اعداد و شمار کو سامنے رکھ کر آبادی کے لیے وسائل اور سہولیات کی فراہمی کا فیصلہ کیا جاتا ہے۔‘ 
’مردم شماری کو کسی اور چیز سے نہیں جوڑا جا سکتا۔اس لیے اصولی طور پر یہ خدشہ پیدا نہیں ہونا چاہیے۔‘

کمشنر پونچھ ڈویژن نے ادارۂ شماریات کے نام ایک خط بھی لکھا تھا (فائل فوٹو: روئٹرز)

خیال رہے کہ 10 مارچ کو پاکستان کے زیرانتظام کشمیر کے کمشنر پونچھ ڈویژن (جو مردم شماری کی انچارج بھی ہیں) نے ادارۂ شماریات کے نام ایک خط میں لکھا تھا کہ ’مردم شماری 2023 کے مجوزہ فارم میں مقامی زبانوں پہاڑی اور گوجری شامل نہ ہونے پر عوامی حلقوں میں تحفظات پائے جاتے ہیں۔‘ 
انہوں نے مذکورہ زبانوں کے اندراج کی درخواست کرتے ہوئے کہا کہ ’عوامی ردعمل کے نتیجے میں مردم شماری کے عمل میں رکاوٹ پڑنے کا اندیشہ ہے۔‘ 

شیئر: