’ملک بچانے کے لیے عوامی مقبولیت داؤ پر لگانا گھاٹے کا سودا نہیں‘
’ملک بچانے کے لیے عوامی مقبولیت داؤ پر لگانا گھاٹے کا سودا نہیں‘
منگل 9 مئی 2023 5:34
رائے شاہنواز -اردو نیوز، لاہور
پرویز رشید نے کہا کہ ’جو قوتیں وزرائے اعظم کو گھر بھیجنے کے لیے استعمال کی جاتی تھیں اس کا مقابلہ پارلیمنٹ نے کیا۔‘ (فوٹو: اے ایف پی)
پاکستان مسلم لیگ ن کے سینیئر رہنما پرویز رشید کا کہنا ہے کہ ملک کو بچانے کے لیے مقبولیت داؤ پر لگانا کوئی گھاٹے کا سودا نہیں تھا۔
اردو نیوز کے ساتھ خصوصی انٹرویو میں مسلم لیگ ن کی حکومت کے غیر مقبول ہونے کے تاثر پر پرویز رشید کا کہنا تھا کہ ’سیاسی جماعتوں کی مقبولیت عوام کی خدمت کرنے کے لیے ہوتی ہے اگر عوام کی خدمت ہی وہ جماعت نہ کر سکے تو اس مقبولیت کو ہم نے کیا کرنا ہے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’مقبولیت داؤ پر لگا دینی چاہیے یہ صرف تاج پہننے کے لیے نہیں ہونی چاہیے۔ نواز شریف کا یہ اصول رہا ہے۔ عوام گواہ رہیں گے کہ ہم نے مقبولیت بچانے کی کوشش نہیں کی۔ ہم نے پاکستان کے عوام کا تحفظ کرنے کی کوشش کی۔‘
کیا اب بھی پارٹی کے اندر مریم نواز کی مخالفت جاری ہے؟ اس سوال کا جواب دیتے ہوئے پرویز رشید کا کہنا تھا کہ یہ تاثر درست نہیں کیونکہ مریم نوازپارٹی کی چیف آرگنائزر ہیں اور انہوں نے حال ہی میں پورے پنجاب میں رابطہ عوام مہم چلائی ہے۔ وہ ہر ڈویژن میں گئی ہیں اور تمام علاقوں کی قیادت ان کے ساتھ رہی ہے۔
جب ان سے پوچھا گیا کہ خود مریم نواز اس بات کی تصدیق کر چکی ہیں کہ انہیں پارٹی کے اندر اپوزیشن کا سامنا ہے تو پرویز رشید نے جواب دیا کہ ’کوئی بھی تبدیلی جب آتی ہے تو نئی چیزوں سے پرانی چیزیں تھوڑا سا فاصلہ رکھ لیتی ہیں۔ لیکن وہ اتنا اہم نہیں تھا کہ ان کے کام کے راستے میں کسی قسم کی رکاوٹ ہوئی ہو۔‘
ایک عام خیال ہے کہ مریم نواز کی تقاریر کے پیچھے پرویز رشید ہیں۔ تاہم انٹرویو کے دوران پرویز رشید نے اس بات کی تردید کی اور نہ ہی صاف لفظوں میں تصدیق کی۔ انہوں نے بتایا کہ ’ان (مریم نواز) کے والد بھی ایک سمجھدار انسان ہیں۔ ان کے دادا ایک کامیاب شخص تھے۔ ان کی تربیت اپنے دادا کے پاس ہوئی۔ اپنے والد کے ساتھ ہوئی۔ ان کی والدہ جو تھیں انہوں نے اردو ادب میں پی ایچ ڈی کی ہوئی تھی۔ ان کا ادب اور شاعری کا بہت اچھا ذوق تھا۔ ‘
پرویز رشید کہتے ہیں کہ مریم نواز کو گھر سے بھی بہت اچھی تربیت ملی ہے۔ ’ان کے اندر خود بھی سیکھنے کی سمجھے کی صلاحیت موجود ہے۔ کوئی بھی لیڈر جو ہوتا ہے اسے گھر سے جو تربیت مل جاتی ہے۔ تو ابتدائی طور پر اس کی تربیت کرنے والے والدین ہوتے ہیں۔‘
جب ان سے پوچھا گیا کہ کیا مریم نواز کی تقاریر پرویز رشید لکھتے ہیں تو ان کا کہنا تھا کہ ’مشورہ ایک کا نہیں بہت سے لوگوں کا مشورہ شامل ہوتا ہے۔ پارٹی ہماری بہت بڑی پارٹی ہے اس میں بڑے سمجھدار لوگ ہیں۔ سبھی کا مشورہ (ان تقاریر میں) شامل ہوتا ہے۔‘
مسلم لیگ ن کی قیادت کہاں ہے، نواز شریف ملک سے باہر اور مریم نواز بھی اس گرم جوشی سے سیاسی میدان میں موجود نہیں ہیں؟ اس سوال کا جواب دیتے ہوئے پرویز رشید کا کہنا تھا کہ ’آج کی صورت حال میں جو سیاست ہے اس میں پارلیمنٹ کو اپنا کردار ادا کرنا تھا۔ محافظ پارلیمنٹ نے بننا تھا کسی ایک شخصیت نے نہیں۔ شخصیات اس وقت ضروری ہوتی ہیں جب عوام کو متحرک کرنا ہوتا ہے۔ تو ایسے میں کرشمہ ساز شخصیات معاون ہوتی ہیں۔ اور مسلم لیگ ن کے پاس مریم نواز کی شکل میں وہ شخصیت موجود ہے۔ اور نواز شریف کی اپنی قیادت بھی موجود ہے۔‘
انہوں نے بات جاری رکھتے ہوئے کہا کہ ’اس ناکام شخص کو اقتدار میں واپس لانے کے لیےجو راہ ہموار کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ جس طرف سے حملہ کیا جا رہا تھا اس حملے کا مقابلہ پھر پارلیمنٹ کو کرنا چاہیے تھا۔ اور پارلیمنٹ نے بہت بہتر طریقے سے اس کا مقابلہ کیا ہے۔ اور یہ پاکستان کی تاریخ میں پہلی بار ہو رہا ہے۔‘
انہوں نے کہا کہ جو قوتیں وزرائے اعظم کو گھر بھیجنے کے لیے استعمال کی جاتی تھیں۔ اور جس طرح دو دومنٹ میں وزرائے اعظم سے متعلق فیصلے کیے جاتے تھے۔ اس دفعہ اس سب کا مقابلہ پارلیمنٹ نے کیا۔ ’پارلیمنٹ نے اس طرح کی قتل وغارت گری جو قانون کے نام پر کی جاتی تھی۔ انصاف کے نام پر جو انصاف کا قتل کیا جاتا تھا وہ نہیں ہونے دیا۔ وہ رکاوٹ پارلیمنٹ بنی اور وہ کردار ادا ہوا ہے۔‘
پارلیمنٹ اور سپریم کورٹ کے مابین جاری رسہ کشی پر بات کرتے ہوئے مسلم لیگ ن کے سینیئر رہنما کا کہنا تھا کہ ’پارلیمنٹ نے جو کام کیا ہے اس سے امید ہے کہ حماقتوں کا سفر رک جائے گا ’پارلیمنٹ نے اس وقت پاکستان کے آئین کو بھی بچایا ہے اور جو آئین اور قانون کے نام پر بے راہ روی کرنے کی کوشش کی جاتی ہے اسے بھی روکا ہے۔‘
پرویز رشید کہتے ہیں پی ڈی ایم کی ایک سال کی حکومت کے بعد یہ بات اور بھی پختہ ہو گئی ہے کہ عمران خان کو گذشتہ برس اقتدار سے علیحدہ کرنا ایک بہت ہی اچھا فیصلہ تھا۔ ’جو لوگ اس وقت بات سے متفق نہیں تھے آج کے حالات کو جب وہ دیکھتے ہیں کہ کیسے ایک شخص کو اقتدار میں لانے کے لیے قانون کو استعمال کیا جاتا ہے۔ ججز کے خاندانوں کا اثر و رسوخ کیسے استعمال ہوتا ہے۔ تو وہ سمجھتے ہیں کہ ہم نے ایک مافیا سے پاکستان کی جان چھڑا لی ہے۔‘