پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین اور سابق وزیراعظم عمران خان کو منگل کو قومی احتساب بیورو نے اسلام آباد ہائی کورٹ سے گرفتار کر لیا۔
انہیں القادر ٹرسٹ کے مالی معاملات پر درج مقدمے میں حراست میں لیا گیا ہے۔
عمران خان کی سیاسی زندگی میں گرفتاری کا یہ دوسرا موقع ہے۔ ان کی پہلی گرفتاری 14 نومبر 2007 کو پنجاب یونیورسٹی لاہور سے ہوئی تھی۔
مزید پڑھیں
-
رینجرز کے ہاتھوں عمران خان کی گرفتاری کی قانونی حیثیت کیا ہے؟Node ID: 763291
یوں وہ پاکستان کے ان سابق وزرائے اعظم کی فہرست میں شامل ہوگئے ہیں جنہیں مختلف الزامات میں جیل میں رکھا گیا۔
پاکستان کی سیاسی تاریخ میں حسین شہید سہروردی، ذوالفقار علی بھٹو، محمد نواز شریف اور شاہد خاقان عباسی وزارت عظمٰی کے عہدے پر فائز رہنے کے بعد گرفتار ہوئے۔
موجودہ وزیراعظم شہباز شریف، سابق وزرائے اعظم محترمہ بینظیر بھٹو اور یوسف رضا گیلانی کا شمار ان سیاسی رہنماؤں میں ہوتا ہے جو وزارت عظمی کے عہدے پر فائز ہونے سے پہلے جیل کاٹ چکے ہیں۔
پاکستان کے سابق فوجی حکمران پرویز مشرف نے تین نومبر دو ہزار سات کو ملک میں ایمرجنسی نافذ کر دی تھی ۔اس اقدام کی مخالفت کرنے والے سیاسی رہنماؤں کو گھروں میں نظر بند کرنے کا فیصلہ کیا گیا تھا۔
عمران خان کی دونوں گرفتاریاں ہنگامہ خیز حالات میں اور ان کے گھر سے دور ہوئی۔
انہیں اسلام آباد ہائی کورٹ سے پولیس اور رینجرز نے گرفتار کر کے نیب راولپنڈی آفس منتقل کیا ہے۔
ان کی پہلی گرفتاری اس سے زیادہ ہنگامہ خیز اور سنسنی خیز واقعات کے بعد عمل میں آئی تھی۔ وہ پنجاب یونیورسٹی لاہور میں اپنی جماعت کے طلبہ کی دعوت پر ملک میں ایمرجنسی کے خلاف سٹوڈنٹس سے خطاب کرنے گئے تھے۔
ان دنوں پنجاب یونیورسٹی جماعت اسلامی کی طلبہ تنظیم اسلامی جمعیت طلبہ کے زیر اثر تھی۔ جمعیت کے طلباء نے انہیں زبردستی یونیورسٹی میں محصور کر دیا۔ جہاں سے بعد میں پولیس نے انہیں تحویل میں لیا تھا۔
عمران خان کی کتاب ’میں اور میرا پاکستان‘ ان کی پہلی گرفتاری اور اس سے جڑے واقعات اور تفصیلات بیان کرتی ہے۔
گھر کی دیوار پھلانگ کر فرار
حالیہ عرصے میں لاہور میں عمران خان کی رہائش گاہ زمان پارک پر پولیس نے ان کی گرفتاری کی متعدد کوششیں کیں ۔مگر انہیں تحریک انصاف کے کارکنوں کی مزاحمت نے گرفتاری سے محفوظ رکھا۔
عمران خان نے اپنی کتاب میں 2007 میں زمان پاک پر پولیس کے چھاپے کی تفصیلات بیان کی ہیں۔ جب وہ اپنے گھر کی دیوار پھلانگ کر پولیس کی دسترس سے دور نکل گئے تھے۔
اس روز وہ لاہور میں لمز کے طلباء سے خطاب کرنے کے بعد رات گئے گھر پہنچے تھے ۔پولیس ان کے گھر میں گھس آئی ۔انہوں نے پولیس سے وارنٹ دکھانے کا مطالبہ کیا۔
پولیس اہلکار وارنٹ کا بندوبست کرنے گئے تو عمران خان کو ان کے ایک اخبار نویس دوست نے مطلع کیا کہ انہیں گھر میں نظر بند کرنے کے بجائے جیل منتقل کیا جائے گا۔
عمران خان لکھتے ہیں کہ ان کے پاس فیصلہ کرنے کے لئے چند منٹ تھے ۔انہوں نے اپنے بھانجے کو بھاگنے کا راستہ دیکھنے کا کہا۔

انہیں بتایا گیا کہ پولیس نے مکان کو چاروں طرف سے گھیر رکھا ہے ۔مگر زمان پارک میں واقع باغ کے ساتھ واقع دس فٹ دیوار کا ایک حصہ پولیس کی نظروں سے اوجھل تھا۔
عمران خان پچھلے صحن سے دیوار طرف گئے اور اپنے بھانجے کی مدد سے دیوار پھلانگ کر پڑوسیوں کے باغ میں اُتر گئے۔
پنجاب یونیورسٹی میں کس نے گرفتار کروایا؟
سابق وزیراعظم عمران خان اسلام آباد ہائی کورٹ میں پیشی کے وقت اپنی گرفتاری کا خدشہ تھا۔ یہ خدشہ انہوں نے منگل کی صبح ایک ویڈیو پیغام میں ظاہر کیا تھا۔
اسی طرح سنہ 2007 میں جب وہ پنجاب یونیورسٹی میں طلبہ سے خطاب کرنے گئے تھے تو انہیں اپنی گرفتاری کے امکانات کا اندازہ تھا۔ وہ خاموشی اور رازداری سے ایک رات پہلے ہی یونیورسٹی پہنچ گئے تھے۔ وہ رات انہوں نے یونیورسٹی میں اپنے ایک حامی پروفیسر کے ہاں گزاری۔
عمران خان کے مطابق وہ چاہتے تھے کہ ان کی گرفتاری عالمی میڈیا کے نمائندوں کی موجودگی میں اس طرح ہو کہ اس کی زیادہ سے زیادہ تشہیر ہو سکے۔ اس کام کے لیے یونیورسٹی سے بہتر کوئی جگہ نہ تھی۔
پنجاب یونیورسٹی میں اسلامی جمیعت طلبہ عمران خان کے طلباء سے خطاب سے خائف تھی۔ اس کے طلباء نے عمران خان کو گھیر لیا اور انہیں دھکے دیتے ہوئے ایک کمرے میں محصور کر دیا۔ یہاں سے انہیں پولیس کے حوالے کیا جو انہیں جیل لے گئی۔
اپنی کتاب میں عمران خان لکھتے ہیں کہ کبھی شاندار تنظیم اور نظریات اس تنظیم کی پہچان تھے مگر اب ہر کوئی ان سے خوفزدہ تھا۔ یہاں تک کہ نہ تو جماعت اسلامی اور نہ ہی حکومت ان پر قابو پا سکتی تھی۔
اسی کے ساتھ انہوں نے اپنی گرفتاری جمعیت کے علاوہ اس دور کی ایک اہم سیاسی شخصیت کے کردار کا حوالہ دیا ہے۔ وہ لکھتے ہیں کہ ’بعد میں مجھے بتایا گیا کہ چوہدری پرویز الہی کی صوبائی حکومت کے ذریعے جنرل پرویز مشرف نے مجھ پر حملہ کرنے کے لیے ان (طلبہ تنظیم) کے ایک لیڈر کو بھاری رقم ادا کی تھی۔‘
