رینجرز کے ہاتھوں عمران خان کی گرفتاری کی قانونی حیثیت کیا ہے؟
رینجرز کے ہاتھوں عمران خان کی گرفتاری کی قانونی حیثیت کیا ہے؟
منگل 9 مئی 2023 16:37
فرحان خان، اردو نیوز- اسلام آباد
فوٹیج میں رینجرز کی بھاری نفری کو عمران خان کو گرفتار کر کے لے جاتے ہوئے دیکھا جا سکتا ہے۔ فوٹو: اے ایف پی
پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے چیئرمین عمران خان کی منگل کو اسلام آباد ہائی کورٹ کے احاطے سے گرفتاری مختلف زاویوں زیرِبحث ہے۔
عمران خان کی گرفتاری کے بعد آئی جی پولیس اسلام آباد نے کہا تھا کہ ’عمران خان کو قومی احتساب بیورو(نیب) نے القادر یونیورسٹی کرپشن کیس میں گرفتار کیا ہے۔‘
گرفتاری کے وقت کی فوٹیجز میں دیکھا جا سکتا ہے کہ رینجرز کے اہلکار ہائی کورٹ کی ڈائری برانچ میں موجود ہیں اور وہ اس کمرے کے شیشے توڑ رہے جس میں عمران خان بائیومیٹرک کے لیے موجود ہیں۔
عمران خان آج ہی لاہور سے پیشی کے لیے اسلام آباد ہائی کورٹ پہنچے تھے اور انہوں نے اپنی گرفتاری کے خدشات کا اظہار ایک ویڈیو میں کیا تھا۔
اسلام آباد ہائی کورٹ کے احاطے کی ایک اور فوٹیج میں رینجرز کی بھاری نفری کو عمران خان کو گرفتار کر کے لے جاتے ہوئے دیکھا جا سکتا ہے جبکہ اسلام آباد پولیس کے چند اہلکار عدالت کی راہداریوں میں کھڑے دکھائی دیتے ہیں۔
اس کے علاوہ سیاہ رنگ کی جس گاڑی میں عمران خان کو بٹھا کر لے جایا گیا، وہ بھی چاروں طرف سے رینجرز کے حصار میں تھی۔
اس واقعے کے فوری بعد اسلام آباد پولیس نے اپنے آفیشل ٹوئٹر اکاؤنٹ پر بیان جاری کیا جس میں کہا گیا کہ ’اسلام آباد میں دفعہ 144 نافذ ہے۔خلاف ورزی کی صورت میں قانونی کارروائی کی جائے گی۔‘
اب سوال یہ پیدا ہو رہا ہے کہ کیا کرپشن یا اس نوع کے دیگر مقدمات میں ملزموں کو پولیس کے علاوہ پیراملٹری فورسز (رینجرز یا ایف سی) بھی گرفتار کر سکتی ہیں یا نہیں؟
اس حوالے سے جاننے کے لیے اردو نیوز نے ماہرینِ قانون سے رابطہ کیا۔
سینیئر قانون دان اور سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے سابق صدر احسن بھون ایڈووکیٹ نے اردو نیوز کے ساتھ گفتگو میں کہا کہ ’آئینی طور پر حکومت کسی بھی فورس کو حکم دے سکتی ہے لیکن خاص اس معاملے کی قانونی پوزیشن ابھی واضح نہیں، اس لیے میں فوری طور پر اس پر کچھ کہہ نہیں سکتا۔‘
دوسری جانب سینیئر قانون دان عارف چوہدری ایڈووکیٹ رینجرز کی جانب سے اسلام آباد ہائی کورٹ کے احاطے سے سابق وزیراعظم کو گرفتار کرنے کے عمل کو قانون کے مطابق نہیں سمجھتے۔
’گرفتاری کرنا رینجرز کا مینڈٹ نہیں‘
عارف چوہدری ایڈوکیٹ نے اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’رینجرز صرف پولیس کی معاونت کر سکتی ہے۔ ان کا کسی کو گرفتار کرنے سے براہ راست کوئی تعلق نہیں ہے۔ وہ ایسا نہیں کر سکتی۔‘
انہوں نے کہا کہ ’ایف آئی اے اور پولیس ملزموں کو گرفتار کر سکتی ہے لیکن ایف سی اور رینجرز کے پاس یہ اختیار نہیں ہوتا۔‘
’اس گرفتاری کی کوئی لیگل جسٹیفیکشن نہیں ہے۔ عدالت یعنی ہائی کورٹ کے احاطے میں جو شخص آ گیا ہے اور اس نے خود کو عدالت کے سامنے پیش کر دیا ہے، اسے گرفتار نہیں کیا جا سکتا۔‘
’عدالت کو پیغام دیا گیا ہے‘
عارف چوہدری نے مزید کہا کہ ’دیکھیں چیف جسٹس نے بھی کہا ہے کہ ہائی کورٹ کے توڑے گئے شیشے تو جڑ جائیں گے لیکن ہماری جو ساکھ متاثر ہوئی ہے، اس کا کیا ہو گا۔‘
انہوں نے عمران خان کی گرفتاری پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ ’اس اقدام کے ذریعے سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کو پیغام دیا گیا ہے کہ ہم کسی بھی چیز کی پروا نہیں کرتے۔‘
’گرفتاری میں تکنیکی خامیاں ہیں‘
قومی احتساب بیورو (نیب) کے سابق پراسکیوٹر اور قانون دان راجہ عامر عباس ایڈووکیٹ نے اردو نیوز کے رابطہ کرنے پر بتایا کہ ’رینجرز صبح ہی سے ہائی کورٹ میں موجود تھی۔ نیب صرف پولیس کو بلا سکتی ہے۔ ہاں اگر وفاقی حکومت اور پولیس رینجرز سے کہے تو معاملہ مختلف ہے۔‘