Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

ایک سال کی آنکھ مچولی کے بعد بالآخر عمران خان گرفتار

گذشتہ ایک برس سے عمران خان کی گرفتاری کا خدشہ ظاہر کیا جا رہا تھا (فائل فوٹو: اے ایف پی)
منگل کا روز بظاہر عمران خان کی معمول کی پیشی کا دن تھا جیسا کہ ان دنوں ہوتا رہا ہے۔ وہ لاہور کے زمان پارک سے اسلام آباد کے لیے نکلتے ہوئے ایک ویڈیو بیان جاری کرتے۔
 پھر موٹروے سے ان کے قافلے کی ویڈیوز آتیں، اسلام آباد ٹول پلازے پر پہنچ کر استقبال کی نئی ویڈیوز، پھر عدالت میں پیشی، ضمانت اور لاہور واپسی۔ 
یہی معمول ذہن میں تھا کہ ہم اس کو معمول کی کارروائی سمجھ کر دیگر اہم کاموں پر زیادہ توجہ مرکوز کیے ہوئے تھے کہ اچانک سے خبر آئی کہ عمران خان بالآخر گرفتار ہو گئے ہیں اور وہ بھی رینجرز کے ہاتھوں۔ 
گرفتاری سے قبل آج ہی کے روز جہاں بھی کسی سے ملنا ہوا، پارلیمنٹ، وزارت قانون اور چند ایک دیگر سرکاری دفاتر، وہاں یہی بحث جاری تھی کہ عمران خان اپنے بیانیے میں اس سطح پر چلے گئے ہیں کہ اب کسی بھی وقت کوئی بھی بڑا واقعہ ہو سکتا ہے۔ 
عام لوگ، صحافی، سرکاری افسران و ملازمین، سیاسی مبصرین اور ہر ایک شخص یہی کہتا سنا گیا کہ حکومت اور عمران خان کی جماعت پاکستان تحریک انصاف میں تلخیاں جتنی بڑھ گئی ہیں اور کشیدگی جتنی شدید ہو گئی ہے اس میں کچھ بھی ہو سکتا ہے۔  
اور اسی سخت کشیدگی کی انتہا پر اسلام آباد ہائی کورٹ میں رینجرز نے نیب کے درج کیے گئے القادر یونیورسٹی سے متعلقہ ایک مقدمے میں عمران خان کو اس وقت گرفتار کر لیا جب وہ عدالت میں پیشی کے لیے موجود تھے۔ 
وہاں سے آنے والی ویڈیوز اور تصاویر میں دیکھا جا سکتا ہے کہ  جب عمران خان اسلام آباد کی ڈائری برانچ میں موجود تھے تو وہاں کے شیشے توڑے گئے اور پھر درجنوں رینجرز اہلکار انہیں کھینچ کر ایک پک اپ میں بٹھا کر لے گئے۔  

اس سے قبل بھی عمران خان زمان پارک لاہور سے آکر اسلام آباد کی عدالتوں میں ضمانت کے لیے پیش ہوتے رہے (فائل فوٹو: اے ایف پی)

جب سے عمران خان حکومت سے الگ ہوئے اور انہوں نے اداروں اور حکومت کے خلاف ایک سخت بیانیہ اپنایا اس وقت سے ان کی گرفتاری کے بارے میں اندازے لگائے جا رہے تھے لیکن وہ ہر بار کسی نہ کسی طریقے سے بچ جاتے تھے۔
خود عمران خان کے بقول ان کی گرفتاری کے لیے ان پر 100 سے زائد مقدمات درج تھے اور اس کے لیے ان کے گھر پر رینجرز اور پولیس کی بھاری نفری نے چھاپہ بھی مارا لیکن پی ٹی آئی کے کارکنوں کے ساتھ شدید جھڑپوں کے باوجود وہ ماضی میں ان کو پکڑنے میں کامیاب نہیں ہوئے۔ 
بعدازاں ان کو کئی بار ضمانت ملی اور منگل کے روز بھی اس کی توقع تھی لیکن اس سے پہلے ہی انہیں تحویل میں لے لیا گیا، اور نیب راولپنڈی کے اسلام آباد میں واقع دفتر میں بند کر دیا گیا۔ 
مقدمہ جس میں عمران خان کی گرفتاری ہوئی 
اسلام آباد پولیس کے مطابق عمران خان کی گرفتاری قومی احتساب بیورو (نیب) نے القادر یونیوسٹی کیس میں کی گئی ہے۔ 

القادر یونیورسٹی کے مقدمے کے تانے بانے ملک ریاض حسین کے خاندان پر برطانیہ میں دائر مقدمے سے ملتے ہیں (فائل فوٹو: وِکی پیڈیا)

القادر یونیورسٹی کے مقدمے کے تانے بانے پاکستان کے بڑے پراپرٹی ٹائیکون اور بحریہ ٹاؤن کے مالک ملک ریاض حسین کے خاندان پر برطانیہ میں دائر ہونے والے ایک مقدمے سے ملتے ہیں۔  
عمران خان کے دور حکومت میں بحریہ ٹاؤن کی رقم برطانیہ میں ضبط کی گئی جس کے بعد پاکستان کی وفاقی حکومت اور بحریہ ٹاؤن کے درمیان خفیہ طور پر تصفیہ ہو گیا تھا۔  
ان کے بعد نئی بننے والی اتحادی حکومت کی جانب سے الزام عائد کیا گیا تھا کہ بحریہ ٹاؤن نے 50 ارب روپے غیرقانونی طور پر برطانیہ منتقل کیے جنہیں وہاں منجمد کر لیا گیا تھا۔
عمران خان کی حکومت کی جانب سے یہ رقم واپس لانے کے بجائے برطانیہ میں بحریہ ٹاؤن کو ریلیف دیا گیا۔  
حکومت کا دعویٰ تھا کہ ’بحریہ ٹاؤن کے جو پیسے برطانیہ میں پکڑے گئے وہ سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد واجب الادا رقم میں ایڈجسٹ کر دیے گئے تھے۔  

عمران خان نے حکومت سے الگ ہونے کے بعد اداروں اور حکومت کے خلاف سخت بیانیہ اپنا رکھا ہے (فائل فوٹو: اے ایف پی)

جون 2022 میں پاکستان کی اتحادی حکومت نے یہ الزام بھی عائد کیا کہ تحریک انصاف کی حکومت نے بحریہ ٹاؤن کے ساتھ معاہدے کے بدلے اربوں روپے کی اراضی سابق وزیراعظم عمران خان کی اہلیہ بشریٰ بی بی کے نام منتقل کی۔ 
اُس وقت کے وزیراعظم عمران خان نے نیشنل کرائم ایجنسی، بحریہ ٹاؤن اور ایسیٹ ریکوری یونٹ کے مابین خفیہ معاہدے کی منظوری دی۔  
حکومت نے یہ الزام عائد کیا تھا کہ بحریہ ٹاؤن کی ضبط کی گئی رقم پر ریلیف دیتے ہوئے بدلے میں بحریہ ٹاؤن سے القادر یونیورسٹی کے لیے 458 اراضی حاصل کی گئی۔ عطیہ کی گئی اس اراضی کا معاہدہ بحریہ ٹاؤن اور سابق خاتون اول بشریٰ بی بی کے درمیان ہوا۔  
متعلقہ دستاویزات پر سابق وزیراعظم عمران خان کی اہلیہ بشریٰ بی بی کے بطور ٹرسٹی القادر یونیورسٹی پروجیکٹ ٹرسٹ کی جانب سے دستخط کیے گئے ہیں۔

شیئر: