Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

کیا سیاسی شخصیات کی جیل عام قیدیوں سے مختلف ہوتی ہے؟

عمران خان نے الزام عائد کیا ہے کہ حکومت سیاسی قیدیوں کے ساتھ نامناسب سلوک کر رہی ہے (فوٹو: سوشل میڈیا)
پاکستان کے مختف شہروں میں 9 اور 10 مئی کو ہونے والے احتجاجی مظاہروں  دوران توڑ پھوڑ اور جلاؤ گھیراؤ میں ملوث ملزموں کی گرفتاریوں کا سلسلہ جاری ہے۔ 
حکومت نے ان واقعات میں ملوث کچھ افراد کی تصاویر پر مبنی اشتہارات بھی اخبارات میں شائع کروائے ہیں اور شہریوں سے اپیل کی ہے کہ وہ ان کی گرفتاریوں میں مدد کریں۔
گذشتہ شب چیئرمین تحریک انصاف عمران خان نے اپنی ایک ٹویٹ میں بتایا کہ اُن کے ’کم و بیش ساڑھے سات ہزار  کارکنان گرفتار کیے جا چکے ہیں۔‘
انہوں نے حکومت پر الزام عائد کیا ہے کہ وہ سیاسی قیدیوں بالخصوص خواتین کے ساتھ نامناسب سلوک روا رکھ رہی ہے۔ 
پی ٹی آئی کی رہنما ڈاکٹر شیریں مزاری کی بیٹی ایمان حاضر مزاری نے منگل کی رات اپنی ٹویٹ میں اسلام آباد پولیس پر الزام عائد کرتے ہوئے کہا تھا کہ ’پولیس نے تھانے میں شیریں مزاری پر تشدد کیا ہے۔‘
جبکہ شہریار خان آفریدی کی اہلیہ کی گرفتاری پر بھی سوال اُٹھائے گئے۔
اسلام آباد پولیس نے اتوار کو اپنے بیان میں کہا تھا کہ اب تک ’پُرتشدد کارروائیوں میں ملوث 564 افراد کو گرفتار کیا گیا اور مزید گرفتاریاں بھی عمل میں لائی جا رہی ہیں۔‘ 
پنجاب پولیس نے پیر کو ایک رپورٹ جاری کی تھی جس میں کہا گیا تھا کہ ’صوبے کے مختلف شہروں سے اب تک 3368 افراد کو گرفتار کیا گیا ہے۔‘ اسی طرح کراچی، پشاور اور کوئٹہ میں بھی گرفتاریوں کا سلسلہ جاری ہے۔ 
واضح رہے کہ اس سے قبل عمران خان کے دورِ حکومت میں گرفتار ہونے والے اس وقت کی اپوزیشن کی رہنماؤں کی جانب سے بھی شکایات سامنے آتی رہیں کہ گرفتار کرتے ہوئے اور بعد میں جیل میں ان کے ساتھ ’مُجرموں والا سلوک‘ کیا جاتا رہا۔
کیا سیاسی قیدی اور عام قیدی کے ساتھ جیل میں فرق روا رکھا جا سکتا ہے؟ اس حوالے سے اُردو نیوز نے قانون دانوں اور سیاسی کارکنوں سے بات کی ہے۔ 

’سیاسی کارکنوں کا چہرے پر کپڑے ڈالنا توہین ہے‘ 

سینیئر قانون دان عارف چوہدری ایڈووکیٹ نے اُردو نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ’سیاسی قیدی اور عام قیدی میں بڑا فرق ہوتا ہے۔ جیل مینوئل کے مطابق سیاسی قیدی کو عام بیرکوں میں نہیں رکھا جا سکتا بلکہ انہیں ان کے تعلیمی درجے کے مطابق بہتر جگہ فراہم کی جاتی ہے۔‘ 
’جیل مینوئل کے مطابق ایسے قیدیوں کو جیل میں مشقتی، ٹیلی وژن، اخبار اور واک کرنے کی جگہ بھی فراہم کی جاتی ہے۔‘ 
انہوں نے بتایا کہ جیل مینوئل سے متعلق ضوابط انگریز دور کے ہی چل رہے ہیں جن میں قیدی کے سماجی رتبے اور تعلیمی قابلیت کو بھی ملحوظ رکھا جاتا تھا۔ 
پاکستان کے موجودہ صورت حال پر تبصرہ کرتے ہوئے عارف چوہدری ایڈووکیٹ نے کہا کہ ’پاکستان میں سیاسی قیدیوں کے ساتھ عموماً کوئی نرمی نہیں برتی جاتی بلکہ انہیں بھی جرائم پیشہ افراد کی طرح ہی ٹریٹ کیا جاتا ہے۔‘

عمران خان نے ایک ٹویٹ میں بتایا کہ  بتایا کہ اُن کے ’کم و بیش ساڑھے سات ہزار  کارکنان گرفتار کیے جا چکے ہیں۔‘ (فوٹو: سکرین گریب)

’سیاسی کارکنوں کو منہ پر کپڑا ڈال کر عدالتوں میں لانا، انسانیت کی توہین ہے اور یہ سب یہاں ہو رہا ہے۔‘ 
انہوں نے مزید کہا کہ ’جو سیاسی قیدی ہوتے ہیں، انہیں امن عامہ برقرار رکھنے کے قانون (ایم پی او) کے تحت گرفتار کیا جاتا ہے لیکن جب آپ جرائم کے الزامات لگا کر کسی سیاسی ورکر کو اٹھائیں گے تو پھر کیونکر سیاسی قیدی شمار ہو سکے گا۔ فرق وہاں ہوتا ہے، جہاں جمہوریت ہوتی ہے۔‘ 
پاکستان میں مارشل لاء کے ادوار میں سیاسی کارکن کی حیثیت سے قید کاٹنے والے مسلم لیگ نواز کے رہنما اور سابق وفاقی وزیر پرویز رشید سے جب اُردو نیوز نے یہ سوال پوچھا کہ سیاسی اور عام قیدی سے سلوک میں کوئی فرق ہوتا ہے تو انہوں نے کہا ‘یہ پیچیدہ سا سوال ہے۔ اس کا جواب ’ہاں‘ یا ’نہیں‘ دونوں میں دیا جا سکتا ہے۔‘ 
انہوں نے کہا کہ ’یہ اس بات پر منحصر ہے کہ آپ کس کے قیدی ہیں۔ اگر آپ کسی طاقتور شخص کے قیدی ہیں تو آپ کے ساتھ وہی ہو گا جو وہ شخص چاہتا ہے۔‘ 

’ایوب، یحییٰ اور ضیاء جیل میں ڈال کر بھول جاتے تھے‘ 

پرویز رشید نے بتایا کہ ’بھٹو صاحب کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ انہوں نے کچھ لوگوں کو قید کیا۔ مثال کے طور پر انہوں نے معراج محمد خان اور مختار رانا کو جیل میں ’سیاسی ضرورت‘ کے تحت ڈالا لیکن وہ ان کے خاندانوں کی خبر رکھتے تھے۔ یہی آغا شورش کے معاملے میں ہوا۔‘ 
’میں نے فوجی آمروں جنرل ایوب، جنرل یحییٰ اور جنرل ضیاء الحق کے دور میں جیل کاٹی۔ یہ وہ افراد تھے جو آپ کو جیل میں ڈال کر بھول جاتے تھے۔ ان کے ادوار میں آپ کے ساتھ جیل مینوئل کے مطابق سلوک ہوتا تھا۔‘ 
پرویز رشید نے پرویز مشرف کے دور کا تذکرہ کرتے ہوئے کہا کہ’ لیکن پرویز مشرف جیل میں ڈالنے سے قبل بھی آپ کے ساتھ کچھ ’سلوک‘ کرواتے تھے جیسے اغواء اور تشدد، اور اس کے بعد جیل میں ڈال کر بھی آپ کا پیچھا کرتے تھے۔‘
انہوں نے نواز شریف، مریم نواز اور مسلم لیگ نواز کے دیگر رہنماؤں کی گرفتاریوں کی تفصیل بتاتے ہئے کہا کہ ’عمران خان بھی پتہ رکھتے تھے کہ سیاسی مخالفین کو جیل میں کوئی سہولت تو نہیں مل رہی۔‘ 

’تشدد کرنے والوں نے جمہوری جدوجہد کو غلط نام دیا‘ 

اب تحریک انصاف کے جن کارکنوں کو قانون نافذ کرنے والے محکمے گرفتار کر رہے ہیں کیا آپ انہیں سیاسی قیدی سمجھتے ہیں؟ اس سوال کے جواب میں پرویز رشید نے کہا کہ ’دیکھیے میں عدم تشدد کے فلسفے پر یقین رکھتا ہوں۔ تشدد کو سیاست کا حصہ نہیں ہونا چاہیے۔ تشدد کرنے والا سیاسی اور جمہوری کارکن ہو ہی نہیں سکتا۔‘ 
’یہ توڑ پھوڑ اور تشدد کرنے والے اس لیے مجرم ہیں کہ انہوں نے جمہوری جدوجہد کو غلط نام دیا ہے۔ اب اگر کوئی مارشل لاء لگانے کی بات کرے تو ان اقدامات سے جواز گھڑ سکتا ہے۔ اس کا ذمہ دار کون ہو گا۔‘ 
سول افراد کا آرمی ایکٹ کے تحت ٹرائل کرنے کے فیصلے سے متعلق سوال کے جواب میں پرویز رشید کا کہنا تھا کہ ’جُرم کا راستہ روکنا اور مجرم کو کیفرکردار تک پہنچانا عدالتی ذمہ داری ہے لیکن جب عدالتی ذمہ داریوں پر اُنگلیاں اٹھنا شروع ہو جائیں تو پھر کوئی تو قدم اٹھائے گا۔‘

’قیدی قیدی ہی ہوتا ہے‘ 

بشیر میمن ریٹائرڈ پولیس آفیسر ہیں۔ وہ سندھ میں بطور آئی جی جیل خانہ جات، پاکستان کے زیرانتظام کشمیر کے آئی جی پولیس اور تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) ڈائریکٹر جنرل کے طور پر خدمات انجام دے چکے ہیں۔ 
بشیر میمن نے اُردو نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ’قیدی قیدی ہی ہوتا ہے۔ سیاسی اور غیر سیاسی کی کوئی تفریق نہیں ہے۔ ہاں جیل مینوئل کے مطابق قیدیوں کے لیے کچھ کلاسز ہوتی ہیں۔ جیسے بی اور سی کلاس۔‘ 
انہوں نے کہا کہ ’حالیہ دنوں میں جن افراد نے فوجی تنصیبات اور شہداء کی یادگاروں پر حملہ کیا ہے، یہ صرف مجرم نہیں بلکہ جرم کی اعلیٰ شکل یعنی دہشت گردی ہے۔ میں تو اس اقدام کو شہداء کی بے ادبی اور ملک دشمنی سمجھتا ہوں۔‘ 
جن افراد کو گرفتار کیا جا رہا ہے کیا ان کے ساتھ جیل میں سیاسی قیدیوں والا سلوک ہو گا؟ اس سوال کے جواب میں بشیر میمن نے کہا کہ ’مجھے تو ڈر ہے کہ جب جیل میں موجود قیدیوں کو پتا چلے گا کہ انہوں نے ایسا اقدام کیا ہے تو وہ کہیں انہیں زدوکوب کرنا نہ شروع کر دیں۔‘ 
انہوں نے جیل کی بی کلاس میں میسر سہولیات کے حوالے سے بتایا کہ ’اس کے لیے جیل مینوئل دیکھنا پڑے گا لیکن جہاں تک مجھے یاد پڑتا ہے بی کلاس کے قیدی کو گھر کے کھانے، اخبار، لکھنے پڑھنے، مشقتی کی فراہمی جیسی سہولیات دی جاتی ہیں اور اس کے لیے اس کی تعلیم اور انکم ٹیکس کی ادائیگی جیسے امور کو ملحوظ رکھا جاتا ہے۔‘ 

’تمام لوگوں کو بلاتفریق پکڑنا درست نہیں‘ 

لاہور ہائی کورٹ بار کی نائب صدر ربیعہ باجوہ سمجھتی ہیں کہ سیاسی تحریکوں میں شامل افراد کو بلاتفریق نہیں پکڑا جا سکتا۔ 
ربیعہ باجوہ نے اردو نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ’جیل میں قیدیوں کے لیے مختلف کلاسز ہوتی ہیں جس کی تفصیل جیل مینوئل میں درج ہے۔‘ 
انہوں نے موجودہ صورت حال پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ ’جب بھی ملک میں کوئی سیاسی تحریک چلتی ہے تو اس میں شرپسندی کا عنصر بھی شامل ہو سکتا ہے۔ ایسے نوجوان بھی ہوتے ہیں جنہیں زیادہ علم نہیں ہوتا۔ کسی بھی ایسی تحریک میں سب کو نہیں گرفتار کیا جا سکتا۔‘ 

ربیعہ باجوہ نے کہا کہ ’جیل میں قیدیوں کے لیے مختلف کلاسز ہوتی ہیں جس کی تفصیل جیل مینوئل میں درج ہے۔‘ (فوٹو: اے ایف پی)

’یہ جو سرکاری املاک پر حملے ہوئے خاص طور پر جو لاہور کینٹ میں ہوا، اس سب کو کنٹرول کرنا حکومت کی ذمہ داری تھی۔ ہم جانتے ہیں کہ عام حالات میں کوئی کینٹ میں داخل نہیں ہو سکتا۔ مجھے لگتا ہے کہ حالات جان بوجھ کر خراب کیے جا رہے ہیں۔‘ 
انہوں نے کہا کہ ’یہ جو پکڑ دھکڑ ہو رہی ہے۔ اس میں دو چیزیں بہت الارمنگ ہیں۔ ایک یہ کہ گھریلو خواتین کو گرفتار کیا جا رہا ہے اور دوسرا وکلاء کو نشانہ بنایا جا رہا ہے۔  
’ایسا سلوک تو ضیاء کی آمریت میں بھی نہیں ہوا۔‘

’ہر قیدی کی عزت نفس کا پاس رکھنا ضروری ہے‘ 

ماضی قریب میں بطور آئی جی جیل خانہ جات خدمات انجام دینے والے ایک پولیس آفیسر نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر اُردو نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ’پہلی بات تو یہ ہے کہ آپ سیاسی قیدی کسے کہتے ہیں۔ موجودہ اور سابق ادوار میں جو سیاسی افراد گرفتار ہوئے، ان کے کریمنل چارجز تھے۔ انہیں ہم سیاسی قیدی کیسے شمار کر سکتے ہیں۔ یہ کہہ سکتے ہیں کہ سیاسی شخص پر کریمنل چارجز ہیں۔‘ 
انہوں نے کہا کہ ’جن افراد کو ایم پی او کے تحت گرفتار کیا جاتا ہے۔ وہ سیاسی قیدی ہوتے ہیں اور ان کے لیے جیل رُولز مختلف ہوتے ہیں۔ انہیں عام قیدیوں کی طرح ملاقات کی اجازت نہیں دی جاتی اور دیگر سے علیحدہ رکھا جاتا ہے۔‘ 
مشاہدہ ہے کہ پولیس عام قیدیوں کی پکڑ دھکڑ سختی سے کرتی ہے جبکہ سیاسی شخصیات کو کاروں میں بٹھا کر لے جاتا جاتا ہے؟ اس سوال کے جواب میں سابق آئی جی نے کہا کہ ’ دیکھیے اصولاً سب کے ساتھ یکساں سلوک ہونا چاہیے اور گرفتاری کے عمل میں بھی فرق نہیں ہونا چاہیے لیکن ہمارے ہاں جو معیارات بنے ہوئے ہیں، ان میں شکل دیکھ کر جزا سزا ہوتی ہے۔‘ 
’قانون کے مطابق ہر قیدی چاہے اس پر جرم کے ارتکاب کا الزام ہی کیوں نہ ہو، اس کی عزت نفس کو مجروح کرنے کی اجازت نہیں ہے۔‘ 

شیئر: