Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

وہی ہونے جا رہا ہے جس کا ڈر تھا؟ ماریہ میمن کا کالم

سیاسی میدان میں پی ٹی آئی شکست و ریخت کے عمل سے گزر رہی ہے۔ (فوٹو: روئٹرز)
وہی ہونے جا رہا ہے جس کا ڈر تھا۔ اکتوبر میں متوقع اور طے شدہ انتخابات کے التوا کے بارے میں چہ مگوئیاں اور اندازے شروع ہو گئے ہیں۔
ملک کے نمایاں اخبارات میں پنجاب حکومت کا توصیفی اشتہار نظر سے گزرا۔ ایک تو خیر اشتہار میں نگران کا لفظ ہی قصداً یا سہواً غائب ہے اور دوسرا معاشی اور زرعی اہداف کے بارے میں جس طرح دعوے کیے گئے ہیں وہ مسقبل قریب میں الوداع ہونے والی حکومت کے نہیں بلکہ اپنے آپ کومستقل سمجھنے والی حکومت کے ہیں۔ 
ٹوئٹر پر موجود صحافتی اور اسلام آباد میں متحرک سیاسی ذرائع کے مطابق مارچ 2024 میں اکٹھے انتخابات کرانے کا منصوبہ زِیرغور یا تکمیل کے مراحل میں ہے۔ ان ارادوں اور منصوبہ بندی کی خبروں سے ان خدشوں کو عملی صورت ملتی ہے جو عرصے سے انتخابات کے انعقاد کے بارے میں سامنے آ رہے تھے۔
اس ضمن میں کئی سوال پیدا ہو رہے ہیں جن کا تعلق قانون، سیاست اور دیگر معاملات سے ہے ۔ سب سے پہلا سوال التوا کی منظوری اور توثیق سے ہے، دوسرا سوال سیاسی جماعتوں کے رویے اور مستقبل کے بارے میں ہے اور آخر میں سوال ہے ملک کے مسقبل پر اس التوا کے کیا اثرات ہوں گے؟
انتخابات کے التوا کا ٹریلر اس سے قبل صوبائی انتخابات کے التوا کی صورت میں دیکھا جا چکا ہے۔ سپریم کورٹ کی طرف سے دی گئی 14 مئی کی تاریخ کا حکم نامہ برقرار بھی ہے اور اس پر نہ صرف عمل درآمد نہیں ہوا بلکہ اس عمل درآمد نہ ہونے کے نتیجے میں کوئی اور حکم یا پراسس بھی شروع نہیں ہوا۔ سب آرام سے 14 مئی کا دن گزار کے اپنے اپنے کام پہ واپس پہنچ گئے ہیں۔
اب اگر انتخابات کا التوا زِیرغور ہے تو اس کے بعد گیند دوبارہ سپریم کورٹ میں جائے گی جہاں پر ستمبر میں ایک اور اہم تبدیلی کی بھی تاریخ ہے، البتہ اسمبلیوں کی مدت اگست میں پوری ہو رہی ہے۔

اتحادی حکومت کا سیاسی سٹاک ہر گزرتے دن کے ساتھ روبہ زوال ہے۔ (فوٹو: اے ایف پی)

ویسے تو ملک میں سب کچھ ہو بھی چکا ہے اور سب کچھ ممکن بھی ہے مگر اسمبلی کی مدت آگے بڑھانے کی کوئی نظیر موجود نہیں۔ اس لیے زیادہ امکان ہے کہ وفاق اور دیگر دو صوبوں میں نگران حکومتیں آ جائیں گی۔ اگرچہ اس کے بعد بھی آئینی راستے محدود اور مشکل ہیں۔ ایمرجنسی کا آپشن استعمال کیا جا سکتا ہے یا پھر کیا نگران حکومتوں کی اسی طرح مدت بڑھائی جائے گی جس طرح خیبر پختونخوا میں بڑھائی گئی ہے یعنی بغیر کسی قانونی جواز کے؟
ہر دو صورتوں میں بات سپریم کورٹ تک پہنچے گی اب صرف دیکھنا ہے عدالتوں کی طرف سے ان اقدمات پر کیا فیصلہ آتا ہے؟
سیاسی میدان میں پی ٹی آئی شکست و ریخت کے عمل سے گزر رہی ہے۔ عمران خان پہلے ہونے والے مذاکرات کو اس لیے رد کر چکے ہیں کہ حکومت ان کے بقول اکتوبر میں بھی الیکشن کرانے میں بھی سنجیدہ نہیں ہے۔ ان کا اندازہ ٹھیک ثابت ہوا البتہ ان کے ساتھیوں کے خیال میں معاہدے سے پھرنے کی صورت میں بھی اتحادی حکومت اضافی دباؤ میں رہتی اور پی ٹی آئی کا بیانیہ درست ثابت ہوتا۔
مزید معاہدے کی صورت میں پی ٹی آئی کو کچھ ہفتوں کا کشن بھی مل جاتا۔ خیر اب تو یہ آپشن بھی ماضی کا قصہ ہے اور صورتحال یہ ہے کہ عمران خان مذاکرات کرنا چاہتے ہیں اور ان کو اس کا جواب دن میں اوسطاً درجن بھر پریس کانفرنسوں کی صورت میں ملتا ہے۔ کیا وہ اس شکست و ریخت کے بعد پارٹی کو کھڑا کر سکیں گے؟ وہ خود تو پُراعتماد ہیں مگر مسئلہ اب انتخابات کا ہے جن کا ہونا اب شک میں پڑ چکا ہے۔
اتحادی حکومت کا سیاسی سٹاک ہر گزرتے دن کے ساتھ روبہ زوال اور ان کے انتظامی اقدامات بھرپور ہیں۔ پی ٹی آئی کے رہنماؤں کی جیل یاترا پر ان کی سیاست کا انحصار ہے اور ان کی اگلی خواہش پی ٹی آئی پر پابندی لگانا اور عمران خان کو مقدمہ چلا کر سزا دینا ہے۔ پیپلز پارٹی کی طرف سے جمہوری روایات کی ذکر کر کے ہلکا پھلکا تذبذب سامنے آتا ہے مگر پھر وہ اس پر فوراً ہی قابو پا لیتے ہیں۔

اب اگر انتخابات کا التوا زِیرغور ہے تو اس کے بعد گیند دوبارہ سپریم کورٹ میں جائے گی۔ (فوٹو: اے ایف پی)

سوال یہ بھی ہے کہ دونوں جماعتیں جو جمہوریت اور آئین کی حکمرانی کی دعوے دار ہیں، وہ کس طرح آسانی سے ماورائے آئین اقدمات کی تائید کریں گی۔ بات صرف انتخابات کے التوا تک نہیں رکے گی، اس کے ساتھ وہ پی ٹی آئی اور عمران خان کو انتخابات سے باہر رکھنے میں بھی پارٹی بنیں گے۔ 
سیاسی جماعتوں کے لیے سیاسی مفادات سے قطع نظر ملک کے لیے انتخابات کا التوا تشویش ناک نظیر ہے۔ ملک اقتصادی دیوالیے کے دہانے پر ہے۔ آئی ایم ایف سے ڈیل کی صورت بھی مشکوک ہے۔ اسی دوران اگر نگران سیٹ اپ کو آگے بڑھایا گیا تو امکان یہی ہے کہ آئی ایم شاید ایک غیرمنتخب کی کمٹمنٹ پر انحصار نہ کرے۔ اس ضمن میں بہت سے ذرائع ڈیفالٹ کے یقینی ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں اور پھر اسی دوران کچھ عرصے کے لیے نگران سیٹ اپ کے روپ میں ٹیکنوکریٹ حکومت کی آمد کا جو کہ ضروری غیرمقبول اقدامات کو نافذ کرے گی۔
یہ تصویر بھی ہرگز حوصلہ افزا نہیں کیونکہ معاشی مسائل سیاسی اضطراب کے ساتھ مل کر کسی نئے بحران کا پیش خیمہ بھی ہو سکتے ہیں۔ فی الحال تو یہی کہا جا سکتا ہے کہ جس کا ڈر تھا وہ نہ ہو تو ہی بہتر ہے۔

شیئر: