پی ڈی ایم اور جمہوری اُصولوں کا کمپرومائز: ماریہ میمن کا کالم
سیاسی تجزیہ کار اب ماضی کے تلخ تجربوں کا حوالہ دینے پر مجبور ہو چکے ہیں۔ فائل فوٹو: اے ایف پی
پاکستان کی سیاست میں ہر ہفتے ایک نیا ہیجان آتا ہے اور خیال یہی ہوتا ہے اس بار جو ہوا ہے اس سے زیادہ کیا ہو گا۔ ہر آنے والا ہفتہ پچھلے سے بھی بڑھ کر ہوتا ہے۔
گزشتہ ہفتے کی ہی مثال لیجیے۔ حکومت نے بالاخر عمران خان کی گرفتار کرنے کا منصوبہ پایہ تکمیل کو پہنچا دیا۔ یہ منصوبہ اپنے مطلوبہ مقاصد کرنے میں دور دور تک ناکام رہا۔ نہ صرف عمران خان دو ہی دنوں میں ضمانت پر رہا ہو گئے بلکہ اس دوران ملک میں احتجاج اور جلاؤ گھیراؤ کے واقعات ہوئے جن میں کئی حساس تنصیبات کو نشانہ بنانے کے افسوس ناک واقعات بھی سامنے آئے۔
سپریم کورٹ ایک بارپھر خبروں کا محور بھی رہی اور عمران خان کو ریلیف ملا جس کے بعد پی ڈی ایم نے سپریم کورٹ کو ہی اپنا ہدف بنا لیا۔
سوال اس دوران یہ بھی رہا کہ پی ڈی ایم بطور حکومت اور بطور سیاسی اکائی کہاں ہے؟ کہنے کو تو پی ڈی ایم نے اتوار کو سپریم کورٹ کے سامنے اجتجاج بھی کیا اور کہنے کو حکومت نے ایک ہفتے سے ملک میں انٹرنیٹ کی فراہمی میں رکاوٹیں ڈال رکھی ہیں اور ملک میں سماجی رابطے کی ویب سائٹس پر بھی پابندی بھی لگا رکھی ہے.
اور کہنے کو حکومتی رہنماؤں نے سپریم کورٹ خصوصا چیف جسٹس کے خلاف تنقید بلکہ لفظی گولہ باری کو ایک معمول بنایا ہوا ہے۔ ایمرجنسی لگانے کے آپشن کابینہ تک پہنچ چکے ہیں۔ حکومت کے ماتحت قانون نافذ کرنے والے ادارے پی ٹی آئی رہنماؤں کے لیے باقاعدہ جال بچھا کر بیٹھے ہیں اور غالباً اب ایسے لگتا ہے کہ پی ٹی آئی کے خلاف ایک عمومی ہدایت جاری ہو چکی ہے اور آٹو پر ہی گرفتاریاں ہوتی جا رہی ہیں۔
سوال تو پھر یہ ہے کہ کیا اتنی سرگرمی اور ہنگامہ خیزی آخرکار پی ڈی ایم کی خواہشات کی تکمیل میں ہو رہی ہے۔ مگر یہاں ہی اصل مسئلہ نظر آتا ہے۔
اس تمام ہنگامے میں سب کچھ ہے سوائے پی ڈی ایم کی سیاسی سوچ اور سیاسی منصوبہ بندی کے۔ سیاست کا محور عوام اور عوامی مقبولیت پر منحصر ہوتا ہے مگر پی ڈی ایم نے اپنے آپ کو پی ٹی آئی کے خاتمے اور عمران خان کو روکنے تک محدود کر لیا ہے۔ دوسری طرف پی ڈی ایم کے جانثار اور خیر خواہ بھی شاید یہ دعویٰ نہ کر سکیں کہ ان تمام اقدامات سے عوامی حمایت کے توازن میں کوئی خاص تبدیلی آئی۔
پی ڈی ایم نے ایک کام البتہ بخوبی کیا ہے اور وہ ہے اپنی سیاسی روایات اور جمہوری اصولوں کو ایک ایک کر کے کمپرومائز کرنا۔ 90 روز کے الیکشن کی آئینی شرط پس پشت ڈالی جا چکی ہے۔ یہ بھی امکان ظاہر کیا جا چکا ہے کہ اکتوبر میں بھی الیکشن کے انعقاد کو بھی روکا جائے اور حکومت کی مدت آگے بڑھانے کی کوشش کی جائے۔
پی ٹی آئی پر بطور سیاسی جماعت پابندی لگانے کی باتیں ہو رہی ہیں- پی ٹی آئی کا کوئی قابل ذکر رہنما اس وقت جیل سے باہر نہیں اور کئی ’ناپسندیدہ‘ صحافی بھی سلاخوں کے پیچھے ہیں۔ عدالتوں پر الزامات تو معمول ہیں۔
پنجاب اور خیبر پختونخوا میں نگراں حکومتیں ہیں جو کہ وفاقی حکومت سے علیحدہ ہونی چاہییں مگران کے طرف سے غیر جانبداری کا بھرم بھی سامنےنہیں آ رہا۔ پی ڈی ایم اس ساری صورتحال میں ہر وہ چیز قربان کر چکی ہے جس پر ان کی سیاست کی بنیاد رکھی گئی تھی۔ ان کی حکومتی استطاعت کا بھرم تو معاشی محاذ پر ہی ٹوٹ چکا ہے ساتھ ساتھ جمہوری اور آئینی آزادیاں بھی ایک ایک کر کے سلب ہو رہی ہیں۔
پی ڈی ایم کے پاس موجودہ صورتحال سے نکلنے کا کوئی منصوبہ نظر نہیں آ رہا۔ ان کے پاس کوئی سیاسی بیانیہ موجود نہیں اور نہ اس کی کوئی کوشش ہے۔ تجزیہ کار اب ماضی کے تلخ تجربوں کا حوالہ دینے پر مجبور ہو چکے ہیں۔
سنہ 1988 کا ذکر تواتر سے آ رہا ہے جب سیاسی جماعتوں کے کسی نتیجے پر پہنچنے میں ناکامی کے بعد تیسری قوت کو اقتدار میں آنے کا موقع ملا۔
ایسے کسی آپشن یا اس سے ملتے جلتے اقدامات کے نتیجے میں یہ تو طے ہے کہ پی ڈی ایم کی جماعتوں کو شاید صرف یہی فائدہ ہو کہ ان کے بجائے ان کے مخالف جیل میں ہوں مگر ان کو یہ سوچنا ہے کہ کیا صرف سرکاری عہدوں پر بیٹھنا ہی اقتدار میں آنے کا مقصد ہے۔ فی الحال تو آثار یہی نظر آ رہے ہیں کہ ان کی ایسی کوئی بھی سوچ یا اس پر عمل کا کوئی ارادہ نہیں۔