سولر آلات پر ٹیکس خاتمے کا فائدہ عوام کو ہو گا یا فیکٹری مالکان کو؟
سولر آلات پر ٹیکس خاتمے کا فائدہ عوام کو ہو گا یا فیکٹری مالکان کو؟
بدھ 14 جون 2023 5:26
زین الدین احمد، خرم شہزاد، اردو نیوز
پاکستان سولر ایسوسی ایشن کے مطابق ٹیکس کے خاتمے سے عام گاہک کو کوئی فائدہ نہیں ہو گا۔(فائل فوٹو: اے ایف پی)
پاکستان کی حکومت نے نئے مالی سال کے بجٹ میں شمسی توانائی کے ذریعے بجلی پیدا کرنے والے کئی آلات کے خام مال پر کسٹم ٹیکس کے خاتمے کا اعلان کیا ہے۔
امید ظاہر کی جا رہی ہے کہ اس فیصلے سے ملک میں سولر سسٹم کے ذریعے بجلی پیدا کرنے کا رجحان بڑھے گا اور ملک کو درپیش توانائی بحران کم کرنے میں مدد ملے گی۔
یہ بھی توقع ہے کہ اس فیصلے سے متوسط طبقے کے افراد زیادہ سے زیادہ سولر سسٹم لگوا کر بجلی کے بھاری بلوں سے چھٹکارہ حاصل کر سکیں گے۔
کسٹم ڈیوٹی سے مستثنیٰ قرار دیے جانے والے آلات میں سولر پینلز، بیٹریز اور انورٹرز میں استعمال ہونے والا سامان شامل ہے۔
شمسی توانائی کی صنعت سے وابستہ ماہرین نے اس اقدام کو ملک میں شمسی توانائی کی صنعت کے فروغ کے لیے اہم قرار دیا ہے لیکن اس کا فائدہ سولر پینل لگوانے والے عام افراد کو فوری طور پر پہنچنے کے امکانات نہیں ہیں۔
انجینیئر سہیل بدر وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں گھروں اور دفاتر کی عمارتوں پر سولر سسٹم نصب کرنے کا کاروبار کرتے ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ متوسط طبقے کے ایک گھر کی بجلی کی ضروریات کو معیاری شمسی توانائی پر منتقل کرنے کے لیے کم سے کم اخراجات تقریباً 12 لاکھ روپے بنتے ہیں اور بجٹ میں دی جانے والی نئی سولر انرجی پالیسی سے ان اخراجات میں کوئی کمی واقع نہیں ہو گی۔
انہوں نے اردو نیوز کو بتایا کہ سولر انرجی آلات کے خام مال پر ختم کیے جانے والے انکم ٹیکس کا فوری اور براہ راست فائدہ فیکٹری مالکان کو ہو گا اور یہ پھر ان پر منحصر ہے کہ وہ ان آلات کی کتنی قیمت کم کر کے مارکیٹ میں بیچتے ہیں۔
’بجٹ سے پہلے ایک سولر پینل تقریبا 52 ہزار روپے کا تھا، یہ اب بھی اتنے کا ہی ہے اور مستقبل میں بھی اس کی قیمت میں کمی کے کوئی آثار نہیں ہیں کیونکہ حکومت نے ٹیکس کی جو چھوٹ دی ہے وہ سولر پینل بنانے پر لاگو ہو گی اس کی مارکیٹ میں فروخت پر نہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ اس ٹیکس چھوٹ کا مارکیٹ پر اثر اس لیے بھی کم پڑنے کا امکان ہے کیونکہ پاکستان میں سولر پینلز بہت کم بنتے ہیں۔‘
’حکومت کے اس اقدام کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ وہ ملک میں شمسی توانائی پیدا کرنے والی مصنوعات بنانے کو فروغ دینا چاہتی ہے۔‘
سہیل بدر کہتے ہیں کہ ’اس وقت یہ مصنوعات بنانے والی پاکستان میں چند ایک ہی فیکٹریاں ہیں اور وہ اتنی بڑی تعداد میں مصنوعات نہیں بناتیں کہ ان کی لاگت کم ہونے کے ساتھ ہی مارکیٹ میں ان کی قیمت بھی کم ہو جائے۔‘
سہیل بدر کہتے ہیں کہ یہ اقدام سولر انرجی مصنوعات بنانے والی فیکٹریاں لگانے کی حوصلہ افزائی کرے گا اور اس وقت آپ یہ نہیں کہہ سکتے کہ یہ فیکٹریاں کب لگیں گی۔
’کب اندرونی یا بیرونی سرمایہ کاری ہو گی، پلانٹ لگیں گے، وہ عالمی معیار کے مطابق یہ آلات بنائیں گے اور پھر یہ کم قیمت پر مارکیٹ میں دستیاب ہوں گے۔‘
پاکستان سولر ایسوسی ایشن کے سیکریٹری ظفر اقبال کے مطابق سولر پینلز کی موجودہ قیمت کا تعین سیلز ٹیکس اور کسٹم ڈیوٹی کے بغیر کیا گیا تھا کیونکہ یہ ٹیکسز حکومت کی طرف سے پہلے ہی ختم کیے جا چکے تھے۔
’اب جو مراعات حکومت نے دی ہیں وہ مینوفیکچررز کی مدد کے لیے دی ہیں۔ اس کا فائدہ تو ہو گا لیکن اتنی جلدی نہیں ہو گا کیونکہ ابھی یہ قانون پاس کیا گیا ہے اور اب اس کے بعد جو بھی خام مال منگوائے گا اس پر نہ تو سیلز ٹیکس لگے گا نہ کسٹم ڈیوٹی لگے گی۔‘
ان کا کہنا تھا کہ خام مال کی درآمد پر 28 فیصد تک فائدہ ہو گا لیکن یہ کارخانہ دار پر منحصر ہے کہ وہ یہ فائدہ کس حد تک عام گاہک تک پہنچاتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان سولر ایسوسی ایشن نے حکومت سے درخواست کی تھی کہ سولر سسٹم میں استعمال ہونے والے انورٹرز پر سیلز ٹیکس کا خاتمہ کرے تاکہ اس کا فائدہ عام گاہک کو ہو سکے، لیکن یہ تجویز نہیں مانی گئی۔
تاہم عامر حسین، جو پاکستان میں سولر آلات بنانے والی چند فیکٹریز میں سے ایک کے چیف ایگزیکٹیو ہیں، کا کہنا ہے کہ ٹیکس میں دی گئی اس چھوٹ سے ملک میں بننے والے سولر پینلز، بیٹریز اور انورٹرز کی قیمت بھی کم نہیں ہو گی۔‘
انہوں نے بتایا کہ ’اس سے صرف اتنا فرق پڑے گا کہ یہ اشیا درآمدشدہ سولر پینلز اور دیگر آلات کی قیمت کے برابر آجائیں گی۔‘
عامر حسین نے اردو نیوز کو بتایا کہ اس بجٹ سے پہلے درآمدشدہ سولر پینلز اور دیگر آلات پر ٹیکس نہیں تھا لیکن ملک میں بننے والی ان ہی مصنوعات پر یہ ٹیکس عائد تھا جو کہ اب ختم کر دیا گیا ہے۔
’اس ٹیکس کے خاتمے سے اینڈ یوزر (عام گاہک) کو کوئی فائدہ نہیں ہو گا۔ اس سے فائدہ صرف اس صنعت کار کو ہو گا جو یہ مصنوعات پاکستان میں بنانا چاہے گا۔‘
ان کے مطابق ’اس کو بھی اتنا ہی فائدہ ہو گا کہ اس کی مصنوعات کی قیمتیں اب درآمدشدہ مصنوعات سے مہنگی نہیں ہوں گی بلکہ ان کی قیمت کے برابر ہوں گی۔‘
عامر حسین کا کہنا تھا کہ اس کا فائدہ عام آدمی کو اس لیے بھی نہیں پہنچ سکتا کیونکہ اس کو مارکیٹ میں ملنے والی سولر مصنوعات براہ راست اس ٹیکس چھوٹ سے منسلک نہیں ہیں۔
دوسری طرف پاکستان سولر ایسوسی ایشن کا کہنا ہے کہ مارکیٹ میں سولر سسٹم کے آلات کی فراہمی میں مشکلات درپیش ہیں کیونکہ حکومت ان کی درآمد کی اجازت نہیں دے رہی اور درآمد کے لیے ایل سیز نہیں کھولی جا رہیں۔
ظفر اقبال نے بتایا کہ سولر ایسوسی ایشن نے بجٹ سے پہلے حکومت کو ایک خط لکھا تھا جس میں سولر انرجی مصنوعات کی قیمتیں کم کرنے کے لیے تجاویز دی گئی تھیں لیکن ان تجاویز پر عمل نہیں کیا گیا۔
’ہم نے حکومت سے کہا تھا کہ سولر انورٹرز پر سیلز ٹیکس ختم کیا جائے، ملک میں سولر پینلز کی طلب اس وقت ایک ارب 80 کروڑ ڈالر ہے، ہم نے تجویز دی تھی کہ 800 ملین ڈالر تک درآمد ممکن بنائی جائے۔‘
’اس کے علاوہ ہم نے کہا تھا کہ سولر سسٹم سے منسلک مصنوعات کو غیر ضروری اشیا کی فہرست سے نکال کر ضروری اشیا کی فہرست میں ڈالا جائے لیکن ایسا نہیں کیا گیا۔‘
ظفر اقبال نے مزید کہا کہ ملک میں سولر سسٹم اور آلات کی قیمتیں اس وقت کم ہوں گی جب طلب اور رسد میں فرق کو ختم کرکے زیادہ سے آلات کی فراہمی یقینی بنائی جائے گی۔
عزیر بٹ لاہور کے رہائشی ہیں، وہ پچھلے ایک سال سے اپنے گھر میں سولر سسٹم لگوانا چاہ رہے ہیں تاکہ بجلی کے بھاری بل سے بچ سکیں۔
انہیں دوستوں اور سولر پینلز بیچنے والے تاجروں نے مشورہ دیا تھا کہ وہ بجٹ کا انتظار کر لیں، ہو سکتا ہے یہ آلات سستے ہو جائیں، لیکن وہ سمجھتے ہیں کہ ان کے انتظار کا فائدہ نہیں ہوا۔
وہ کہتے ہیں کہ ’سوچا تھا کہ بجٹ میں سولر پینلز کی قیمتیں کم ہو جائیں گی، لیکن وہ اب بھی کم نہیں ہوئیں۔‘
’اب سمجھ نہیں آرہی کیا کروں۔ سولر سسٹم بھی لگوانا ہے اور پیسے بھی بہت زیادہ خرچ ہوں گے، نہ لگوایا تو بجلی کی قیمتیں آئے روز بڑھنے سے بل زیادہ دینا پڑے گا۔‘