Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

سولر پینل کا بڑھتا رجحان: مارکیٹ سے سولر میٹر غائب، قیمتوں میں 100 فیصد اضافہ

ایک عام گھر میں شمسی توانائی سے بجلی پیدا کرنے کے لیے تقریباً 12 لاکھ روپے خرچ آتا ہے۔ (فائل فوٹو: روئٹرز)
پاکستان میں سولر پینل سے بجلی حاصل کرنے کے رجحان میں بہت تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے۔
سولر پینل لگوانے والوں کو آج کل بائی ڈائریکشنل میٹرز کی تنگی کا سامنا ہے۔ بجلی ترسیل کی کمپنیوں نے میٹرز کی شارٹیج کے باعث لوگوں کو اوپن مارکیٹ سے میٹر خریدنے اجازت دے دی ہے۔
مارکیٹ میں سپلائی اینڈ ڈیمانڈ کے اصول کے مطابق اس وقت دستیاب میٹروں کی قیمتوں میں 100 فیصد اضافہ ہو چکا ہے۔
خیال رہے کہ جو لوگ شمسی توانائی سے بجلی بنا رہے ہیں ان کو حکومت نے یہ سہولت دے رکھی ہے کہ وہ اپنی زائد بجلی حکومت کو بیچ سکتے ہیں۔
اس کے لیے ایک مخصوص میٹر لگانا پڑتا ہے جس کو بائی ڈائریکشنل الیکٹرک میٹر کہا جاتا ہے۔ مارکیٹ میں اس میٹر کی قیمت 11 ہزار روپے سے زائد تھی تاہم آجکل اس کی قیمت 22 ہزار روپے سے بھی تجاوز کر گئی ہے۔
صوبہ پنجاب کے دارالحکومت لاہور کی بجلی کی تقسیم کار سرکاری کمپنی لیسکو کے ترجمان کا کہنا ہے کہ ’میٹروں کی عدم دستیابی کی ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ لوگوں نے بہت بڑی تعداد میں شمسی توانائی سے بجلی پیدا کرنے والے پینلز لگانا شروع کر دیے ہیں۔ جس کی وجہ سے ڈٰیمانڈ زیادہ ہے۔ ہم نے میٹر کی قیمت نہیں بڑھائی بلکہ مارکیٹ فورسز کی وجہ سے قیمتیں بڑھی ہیں۔‘

خیال رہے کہ حکمراں سیاسی اتحاد پی ڈی ایم نے حکومت سنبھالنے کےبعد شمسی توانائی سے بجلی پیدا کرنے کی حوصلہ افزائی کرتے ہوئے ٹیکسوں میں چھوٹ کا اعلان کیا تھا۔ جس کے بعد سے شہریوں کی طرف سے سولر پینل لگانے کے رجحان میں اضافہ ہوا ہے۔
لیسکو کے اعداد وشمار کے مطابق صرف لاہور شہر میں اس وقت 14 ہزار سے زائد بائی ڈائریکشنل میٹرز لگ چکے ہیں۔ جبکہ سال 2022 میں میٹروں کی درخواستوں میں کئی گنا اضافہ دیکھنے میں آیا۔ سینکڑوں درخواستیں ابھی زیر غور ہیں۔
یاد رہے کہ پاکستان میں سولر پینل سے بجلی حاصل کرنے والوں کو بائی ڈائریکشنل میٹرز لگانے کی اجازت متعلقہ بجلی کی تقسیم کار کمپنیوں کے ذریعے سے بجلی کی قیمتوں کا نگران ادارہ نیپرا دیتا ہے۔
پاکستان میں ملکی اور غیرملکی کل سات کمپنیاں بائی ڈائریکشنل میٹر فروخت کر رہی ہیں۔ ان میٹرز کی تجارت کرنے والے لاہور کے ایک تاجر عارف بٹ نے اردو نیوز کو بتایا کہ ’اصل میں لیسکو خود بھی یہ میٹر بیچ رہا تھا لیکن انہوں نے وقت پر خریداری نہیں کی ہے اور ساتھ ہی لوگوں کو مارکیٹ سے خریدنے کی اجازت بھی دے دی ہے۔‘
’اس سے قبل یہ اجازت نہیں تھی اور ہم بھی یا تو میٹر کی تبدیلی یا خرابی کا سامان رکھتے تھے یا پھر لیسکو کو میٹرز کی فراہمی کی بولی میں شریک ہوتے تھے۔ اب اچانک انہوں نے لوڈ مارکیٹ پر ڈال دیا ہے جس کی وجہ سے قیمتیں دو گنا ہو گئی ہیں۔‘

لیسکو کے اعداد وشمار کے مطابق صرف لاہور شہر میں اس وقت 14 ہزار سے زائد بائی ڈائریکشنل میٹرز لگ چکے ہیں۔ (فائل فوٹو: ٹوئٹر)

ایک عام گھر میں شمسی توانائی سے بجلی پیدا کرنے کے لیے تقریباً 12 لاکھ روپے خرچ آتا ہے۔ اسی کاروبار سے منسلک ایک اور تاجر بابر علی نے بتایا کہ ’پہلے صرف وہ لوگ ہی سولرپینل لگاتے تھے جو افورڈ کر سکتے تھے۔ لیکن جب سے بجلی کی قیمتیں بڑھی ہے مڈل کلاس بھی سولر پر شفٹ ہو رہی ہے۔ اور لوگ بجلی کے بلوں سے بچنے کے لیے سولر کی طرف آ رہے ہیں۔ ان کے لیے 11 ہزار سے 22 ہزار پر قیمت کا جانا معنی رکھتا ہے لیکن اس وقت ڈیمانڈ اور سپلائی کی وجہ سے صورت حال ان کے حق میں نہیں ہے۔‘
لیسکو کا کہنا ہے کہ میٹروں کی قلت کی ایک وجہ درآمدات میں مشکلات بھی ہیں۔
ترجمان کے مطابق ’ایل سیز نہیں کھلیں جس کی وجہ سے پروڈکشن میں کمی آئی ہے۔ اب کمپنیوں نے مارکیٹ ڈیمانڈ کے مطابق دوبارہ کام کرنا شروع کر دیا ہے۔ امید ہے جلد ہی ڈیمانڈ اور سپلائی میں آنے والا یہ فرق کم ہو جائے گا اور دستیابی کے ساتھ ساتھ قیمتیں بھی واپس پہلے والی صورت حال میں آ جائیں گی۔‘

شیئر: