Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

بلوچستان میں سیلاب سے تباہ پل کی عدم تعمیر کیخلاف پیدل لانگ مارچ

ایک اورلانگ مارچ لورالائی سے اے این پی کے کارکنوں نے شروع کر رکھا اور 260 کلومیٹر طویل فاصلہ پیدل طے کرکے جمعرات کو کوئٹہ پہنچے ہیں۔ (فوٹو: فیس بک)
بلوچستان میں نوجوانوں کے ایک گروپ نے سندھ بلوچستان کو ملانے والی شاہراہ پر واقع اس پل کی عدم تعمیر کے خلاف احتجاجاً پیدل لانگ مارچ شروع کیا ہے جس کا وزیراعظم شہباز شریف نے گذشتہ سال جلد تعمیر کا وعدہ کیا تھا۔
لانگ مارچ کے شرکا کوئٹہ سے ضلع کچھی (بولان) میں واقع پنجرہ پل  تک تقریباً 115 کلومیٹر فاصلہ  پیدل طے کررہے ہیں اور اس سفر میں اب تک انہیں تین دن لگ چکے ہیں۔
تحریک جوانان پاکستان کے رہنما سحر گل خلجی نے اردو نیوز کو بتایا کہ پنجرہ پل تک پہنچنے میں ایک سے دو دن مزید لگ جائیں گے۔
انہوں نے بتایا کہ کوئٹہ سے بابر خان خجک کی سربراہی میں 10 سے زائد نوجوانوں پر مشتمل گروپ نے مجبور  ہوکر یہ احتجاج ریکارڈ کرانے کا فیصلہ کیا۔
سخت گرمی میں پیدل چلتے ہوئے شرکا کے پاؤں میں چھالے پڑچکے ہیں۔
پنجرہ پل این65 قومی شاہراہ پر واقع ہے جو  کوئٹہ کو ضلع کچھی، سبی، نصیرآباد، جعفرآباد کے ساتھ ساتھ سندھ  کے شہر سکھر کو ملاتی ہے۔ یہاں سے روزانہ ہزاروں مسافر اورمال بردار گاڑیاں گزرتی ہیں۔
یہ پل گزشتہ سال اگست میں مون سون کی طوفانی بارشوں کے نتیجے میں آنے والے ایک بڑے سیلابی ریلے میں بہہ گیا تھا۔
وزیراعظم شہباز شریف نے گذشتہ سال ستمبر میں وزیراعلیٰ بلوچستان عبدالقدوس بزنجو کے ہمراہ دورہ کرکے پل کا دورہ کرکے اس جلد تعمیر کا وعدہ کیا تھا۔ وزیراعظم نے ہنگامی طور پر عارضی پل بنانے والوں کی تعریف کرتے ہوئے ان کے لیے 80 لاکھ روپے انعام کا اعلان بھی کیا تھا۔
سحرگل خلجی کہتے ہیں کہ وزیراعظم نے آٹھ ماہ میں پل کی دوبارہ تعمیر مکمل کرنے کا وعدہ کیا تھا لیکن 10 ماہ گزرنے کے باوجود پل کی تعمیر کا کام شروع ہی نہیں ہوسکا۔

لانگ مارچ کے شرکا کوئٹہ سے ضلع کچھی  میں واقع پنجرہ پل  تک تقریباً 115 کلومیٹر فاصلہ  پیدل طے کررہے ہیں۔ (فوٹو: فیس بک)

ان کا کہنا تھا کہ چھوٹے پائپ ڈال کر ندی پر عارضی راستہ بنایا گیا ہے جو آئے روز مختلف وجوہات کی بنا پر بند ہوجاتا ہے۔  بیک وقت ایک سے زائد گاڑی پل سے نہیں گزر سکتی جس کی وجہ سے گاڑیوں کی لمبی قطاریں لگی رہتی ہیں اور خواتین، بچوں، بزرگوں اور بیماروں سمیت ہزاروں افراد کو سخت گرمی میں گھنٹوں گاڑیوں میں بیٹھ کر انتظار کرنا پڑتا ہے۔
سحر گل خلجی کا کہنا تھا کہ معمولی بارش ہو تو عارضی پل کو بہا کر لے جاتا ہے غیر ہموار ہونے کی وجہ سے بڑی گاڑی الٹ جائے تو بھی گھنٹوں تک راستہ بند رہتا ہے۔
چنگیز بلوچ اس راستے سے ہر ہفتے گزرتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ اس اہم شاہراہ پر سفر کرنا مسافروں کے لیے عذاب بن گیا ہے، خواتین، بچے اور بوڑھے روزانہ سخت گرمی میں گھنٹوں گھنٹوں ٹریفک میں پھنسے رہتے ہیں۔ کوئٹہ سے سبی تک کا راستہ پہلے تین گھنٹے میں طے ہوجاتا تھا اب پانچ سے چھ گھنٹوں میں بھی منزل تک نہیں پہنچتے۔
این ایچ اے حکام کے مطابق پنجرہ پل کی تعمیر نو کے لیے ایشیائی ترقیاتی بینک کے ساتھ قرض کے معاملے پر دستخط کر دیے گئے ہیں اور اب ٹھیکہ جاری کرنے کا مرحلہ چل رہا ہے۔
این ایچ اے کے ڈپٹی ڈائریکٹر امداد حسین سولنگی نے اردو نیوز کو بتایا کہ پل کی تعمیر میں ڈیڑھ سے دو سال لگ سکتے ہیں اس لیے این ایچ اے نے ٹریفک کے بلاتعطل بہاؤ کے لیے پہلے سے بہتر نیا عارضی راستہ بنانے کا فیصلہ کیا ہے۔
انہوں نے بتایا کہ دوسو سے تین سو میٹر چوڑائی کا کنکریٹ کا عارضی راستہ بنانے کا کام شروع کر دیا گیا ہے اس میں ایک سے دو ماہ لگ سکتے ہیں۔ تکمیل کے بعد ٹریفک کی روانی میں بہتری آئے گی۔
ایچ ایچ اے حکام نے گذشتہ ماہ سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے مواصلات کو بتایا تھا کہ فرانس نے متاثرہ مقام کے لئے ایک ’ہنگامی پل‘ تحفے میں دیا ہے لیکن فرانسیسی پل لمبائی میں چھوٹا ہے اور وزن بھی کم لے سکتا ہے اس لیے اسے نصب نہ کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔

Caption

بلوچستان میں گزشتہ سال آنے والے سیلاب سے18 بڑے پل تباہ ہوئے تھے جن کی تعمیر نو پر 20 ارب روپے سے زائد لاگت کا تخمینہ لگایا گیا ہے۔
وفاقی سیکریٹری مواصلات اورچیئرمین نیشنل ہائی وے اتھارٹی کیپٹن محمد خرم آغا نے جمعرات کو کوئٹہ کا دورہ کرکے منصوبوں پر پیشرفت جائزہ لینے کے بعد بتایا کہ متاثرہ پلوں کی تعمیر نو کے لیے ایشیائی ترقیاتی بینک کے ساتھ  معاملات طے کیے جارہے ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ پنجرہ  پل، بی بی نی، لنڈا، کانٹا اور بلیلی کے پلوں کی تعمیر نو کے 3 ارب 20 کروڑ روپے کے منصوبوں کے ٹینڈر کا عمل جاری ہے ان پر تعمیراتی کام رواں سال اگست میں شروع ہوجائے گا۔

لورالائی سے کوئٹہ پیدل لانگ مارچ

اسی طرح کا ایک اورلانگ مارچ لورالائی سے عوامی نیشنل پارٹی کے کارکنوں نے شروع کر رکھا اور 260 کلومیٹر طویل فاصلہ پیدل طے کرکے جمعرات کو کوئٹہ پہنچے ہیں۔
 لانگ مارچ کی قیادت کرنے والے منظور کاکڑ کا کہنا ہے کہ وہ  سڑکوں اور عوامی منصوبوں میں تاخیر اور کرپشن کے خلاف احتجاج کے لئے نکلے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ لوگوں کے لئے یہ حیرت کی بات ہوگی کہ ہم رکن اسمبلی اور صوبائی وزیر کے گھر کو جانے والی سڑک کی تعمیر کا مطالبہ کررہے ہیں۔ لورالائی سے دکی اور سنجاوی والی سڑک کا یہ منصوبہ تاخیر کا شکار ہے جس کی وجہ سے مریضوں اور مسفروں کو سخت مشکلات کا سامنا ہے۔

بلوچستان میں گذشتہ تین برس کے دوران پیدل لانگ مارچ کا طریقہ احتجاج مقبولیت اختیار کرتا جا رہا ہے۔ (فیس بک)

ان کا کہنا ہے کہ سرکاری زمینوں پر قبضہ ختم کرنے، لورالائی کے علاقے میختر کا انتظامی درجہ بڑھا کر سب ڈویژن کرنے اور درگئی کدیزئی ڈیم کی مرمت اور بے قاعدگیوں کی تحقیقات بھی ہمارے مطالبات میں شامل ہیں۔

پیدل مارچ احتجاج کا مؤثر ذریعہ

بلوچستان میں گذشتہ تین برس کے دوران پیدل لانگ مارچ کا طریقہ احتجاج مقبولیت اختیار کرتا جا رہا ہے۔ پانی، صحت اور تعلیم جیسے بنیادی حقوق کے حصول کے لیے متعدد بار نوجوان سینکڑوں کلومیٹر لمبا سفر پیدل طے کر کے اپنا احتجاج ریکارڈ کرا چکے ہیں۔
احتجاج کا یہ طریقہ آسان نہیں۔ مسلسل کئی دنوں تک پیدل چلنے کی وجہ سے پاؤں میں چھالے پڑ جاتے ہیں۔ کئی ساتھی بھی سفر کے درمیان حوصلہ ہار کر ساتھ چھوڑ جاتے ہیں مگر تمام سختیوں اور مشکلات کے باوجود بلوچستان کے نوجوان مطالبات منوانے کے لیے پیدل مارچ ہی کیوں کرتے ہیں؟
کوئٹہ کے سینیئر صحافی عبدالخالق رند کے مطابق چونکہ بلوچستان میں فاصلے طویل ہیں۔ دور دراز کے علاقوں سے جب پیدل مارچ کرکے لوگ کوئٹہ تک آتے ہیں تو انہیں کئی کئی دنوں تک جسمانی مشقت، موسم کی سختیاں اور دیگر تکالیف برداشت کرنا پڑتی ہیں اس لیے انہیں عوامی ہمدردی اور میڈیا کی توجہ حاصل ہو جاتی ہے۔ حکومتی ایوانوں تک بھی بات جلد پہنچ جاتی ہے اور نمائندوں پر بھی دباؤ بڑھ جاتا ہے۔‘
انہوں نے بتایا کہ حالیہ سالوں میں ہونے والے لانگ مارچ کے شرکا مطالبات منوانے میں بھی کامیاب رہے اس لیے اب لوگ اسے احتجاج کا موثر ذریعہ سمجھتے ہیں۔
 

شیئر: