Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

ذرا ہٹ کے ذرا بچ کے: الگ گھر کے لیے طلاق کا ڈرامہ رچانے والے جوڑے کی کہانی

فلم کی کہانی ایسے میاں بیوی کی ہے جو الگ گھر کے لیے کسی بھی حد تک جا سکتے ہیں (فوٹو: سکرین گریب)
کنجوسی اور کفایت شعاری کی باہمی سرحد بالکل ایک باریک سی لکیر ہوتی ہے جو مڈل کلاس لوگوں سے بہتر کوئی نہیں جانتا۔ یہ اتنی باریک ہوتی ہے کہ کبھی کبھی تو نظر بھی نہیں آتی اور مڈل کلاسیے اپنے ارمانوں کی سمگلنگ کرتے کرتے اس کے آر پار ہوتے رہتے ہیں۔ بعض اوقات یہ ارمان پورے تو ہو جاتے ہیں لیکن اسی دوران رشتے، دوستیاں اور محبتیں برباد کر جاتے ہیں۔ 
ارے گھبرائیے نہیں میں کوئی بھاشن دینے نہیں آیا میں تو اس نئی فلم ’ذرا ہٹ کے ذرا بچ کے‘ کا مرکزی پلاٹ آپ کو سمجھا رہا تھا۔ اس بنیادی خیال کی گھمبیرتا کو بڑی خوب صورتی سے ڈائریکٹر لکشمن اوتیکر نے فلمایا ہے جو اس سے پہلے میمی(Mimi) اور لکا چھپی جیسی فلمیں بنا چکے ہیں۔  
فلم کے مرکزی کرداروں کے لیے اس بار انھوں نے وکی کوشل اور سارہ علی خان کا انتخاب کیا ہے جنہوں نے اداکاری کے معاملے میں بالکل مایوس نہیں کیا۔ ایسا لگتا ہے کہ سارہ کی شکل میں بالی وڈ انڈسڑی کو کرینہ کپور کا نعم البدل مل گیا ہے۔ اس فلم میں سارہ کی بے ساختہ اداکاری، مزاحیہ اور طنزیہ مکالموں کی ادائیگی (کامیڈی ٹائمنگ) اور خاص کر پنجابی لڑکی کے کردار میں غصے میں بولے جانے والے مکالمے سننے کے لائق ہیں۔  
وکی کوشل ویسے تو صنفِ نازک کی سماجی کسوٹی برائے شادی خانہ آبادی پر پورے اُترتے ہیں یعنی اونچا قد، گہرا رنگ اور وجیہ (ٹال، ڈارک اینڈ ہینڈسم) اور ساتھ ہی وہ یوری، سردار ادھم اور سام بہادر جیسی فلموں میں ایکشن رول نبھا کر ایک مستحکم اداکار کے طور پر اُبھر رہے ہیں۔

الگ گھر لینے کے لیے کچھ ایسی شرائط سامنے آتی ہیں کہ کپل اور سومیا کو دو نمبری کرنا پڑ جاتی ہے (فوٹو: این ڈی ٹی وی)

اس فلم میں انھوں نے اندور، مدھیہ پردیش میں رہنے والے ایک لڑکے کا کردار ادا کیا ہے جس کے لیے انہوں نے اندوری لہجہ سیکھنے کے لیے بھی خاصا وقت لگایا ہے۔ ان کے مکالموں کی بے ساختگی بھی سارہ کے مکالموں سے کم نہیں ہے۔ میری رائے کے مطابق وکی کوشل مستقبل میں کارتک آریان اور شاہد کپور کو ٹف ٹائم دے سکتے ہیں۔ 
فلم کی کہانی ایسے میاں بیوی کی ہے جو اپنے الگ گھر کا خواب دیکھتے ہوئے کسی حد کو بھی پار کر جانے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ کپل چاولہ ( وکی کوشل) اور سومیا ( سارہ علی خان) نیا مکان حاصل کرنے کے چکر میں طلاق تک لینے کے لیے تیار ہو جاتے ہیں۔ لیکن اگر طلاق ہو گئی تو گھر کس کام کا؟ الگ گھر کا خواب دونوں اسی لیے دیکھتے ہیں کہ سارا خاندان جو سر پر سوار رہتا ہے اس سے چھٹکارا حاصل کیا جا سکے۔ 
جائز اور ناجائز طریقوں سے اپنا گھر حاصل کرنے کی جانکاری لیتے لیتے دونوں کو پتہ چلتا ہے کہ سرکار نے بھی ایک ’اپنا گھر سکیم‘ شروع کی ہے۔ کوششوں کا دھارا سرکاری سکیم کی جانب موڑا جاتا ہے لیکن کچھ ایسی شرائط سامنے آتی ہیں کہ پھر دو نمبری کرنا پڑ جاتی ہے۔ 
فلم کا سکرین پلے لکھنے والوں میں مائترے باجپائی اور رمیض خان کے ساتھ ڈائریکٹر لکشمن اوتیکر کا نام بھی شامل ہے جنہوں نے تمام مکالموں کے ساتھ مکمل انصاف کیا ہے۔ 
مڈل کلاس کے وہ تمام گھرانے جو ( جوائنٹ فیملی سسٹم میں) اکٹھے رہتے ہیں، ان کے پاس اپنی محرومیوں کے متبادل طنز کے تیر وافر مقدار میں ہوتے ہیں جو وہ آپس میں ایک دوسرے پر چلا کر اپنی ذہنی کوفت کا ازالہ ممکن بناتے ہیں۔ یہی چیز لکھاریوں نے فلم کے طنزیہ اور مزاحیہ مکالموں کی صورت میں کہانی کے اندر فٹ کر دی ہے۔ 
فلم میں معاون اداکاروں نے بھی اتنی ہی جاندار اداکاری کی ہے جتنی مرکزی کرداروں نے۔ یہ اس بات کی نشاندہی ہے کہ فلم کی کاسٹنگ پیشہ ورانہ انداز سے کی گئی ہے۔ 
یہ فلم اگرچہ کوئی شاہ کار نہیں ہے اور شاید کسی ایوارڈ کی دوڑ میں بھی شامل نہ ہو سکے لیکن ایک سماجی موضوع پر بات کرتی فیملی انٹرٹینمنٹ فلم ہے. اس فلم کے گانے بھی سامعین پسند کر رہے ہیں جب کہ "پھر اور کیا چاہیے" نامی گانے کی ویڈیو یو ٹیوب پر 84 ملین سے زائد مرتبہ دیکھی جا چکی ہے۔ 
فلم ریٹنگ کے لحاظ سے آئی ایم ڈی بی پر 10 میں سے پچھلے ایک ہفتے کے اندر  7 سے 8 کا ہندسہ عبور کر چکی ہے جب کہ ٹائمز آف انڈیا اسے 5 میں سے 1۔3 کی ریٹنگ دیتا ہے۔ فلم کی کہانی تو پرانی ہی ہے لیکن مکالموں اور گانوں کی بنیاد پر فلم ناظرین کی توجہ حاصل کرنے میں کامیاب رہی ہے۔ 

شیئر: