Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

ہم کوئی ن لیگ ہیں کہ مشکل حالات میں حکومت سے نکل جائیں: ندیم افضل چن

پاکستان پیپلز پارٹی کے رہنما ندیم افضل چن نے حکومتی اتحاد سے الگ ہونے کے تأثر کو مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ حکومت آئینی مدت پوری کرے گی اور پیپلز پارٹی آئینی مدت کی تکمیل تک حکومت میں رہے گی۔
انہوں نے اردو نیوز کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ ’ہم ن لیگ تھوڑی ہیں کہ پہلے چھ ماہ میں ہی کہہ دیں کہ مشکل حالات ہیں تو ’ہم یہ گئے‘ جیسے 2008 میں ہوا تھا۔‘  
دونوں بڑی سیاسی جماعتوں کے درمیان نوک جھونک کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ ’پاکستان پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن کے درمیان چھوٹے چھوٹے سیاسی اختلاف ضرور ہیں اور ہونے بھی چاہییں کیونکہ مرکزی قیادت پر دوسرے تیسرے درجے کی قیادت اور کارکنان کا دباؤ ہوتا ہے۔ لیکن اتنے اختلافات نہیں ہیں کہ ہم گالی گلوچ کی طرف چلے جائیں۔‘

’ن لیگ کے ساتھ سیٹ ایڈجسٹمنٹ کے لیے مرے نہیں جا رہے‘

پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کے سابق چیئرمین نے کہا کہ ’ن لیگ ہماری اتحادی جماعت ہے۔ پیپلز پارٹی نے ان کو وزارت عظمیٰ دی ہے اور کوئی لالچ نہیں کیا۔ میرے خیال میں ن لیگ کو پنجاب، کے پی اور اسلام آباد میں سپیس دینی چاہیے۔ وزیراعظم نے آج بھی اسلام آباد میں ایک منصوبے کا افتتاح کیا تھا۔ ہمارے سیکرٹری جنرل یہاں سے ہیں، ہمارے امیدوار ہیں، اگر وزیراعظم ان کو بلا لیتے تو کیا حرج تھا۔ آپ ہمارے بھی وزیراعظم ہیں، آپ سب کے ساتھ ایک جیسا سلوک کریں۔ پنجاب میں اگر آپ اپنے ہارے ہوئے امیدواروں کو منصوبے دے رہے ہیں تو بیس تیس فیصد پیپلز پارٹی کو بھی دیں۔‘  
’بطور اتحادی سیاسی جماعت کو سپیس دینی چاہیے۔ مخالف جماعت تو اپنی سپیس خود بخود بنا لیتی ہے۔ اگر ہم ان کے خلاف وہاں تقریریں شروع کر دیں تو جگہ تو بن جائے گی تو وہ مناسب نہیں ہوتا کہ ہم حکومت میں بھی ہوں اور ہم تقریریں بھی ان کے خلاف کریں۔‘
عام انتخابات میں ن لیگ کے ساتھ سیٹ ایڈجسٹنٹ کے حوالے سے پوچھے گئے سوال کے جواب میں ندیم افضل چن کا کہنا تھا کہ ’ہماری کوئی اتنی خواہش ہے سیٹ ایڈجسٹمنٹ کی اور نہ ہی ہم اس کے لیے مرے جا رہے ہیں۔ اس وقت ن لیگ کے ساتھ اتحاد یا سیٹ ایڈجسٹمنٹ اتنے فائدے میں نہیں ہے۔ گراؤنڈ پر صورت حال دیکھیں تو ن لیگ کی وہ صورت حال ہے جو 2013 کے انتخابات میں ہماری (پیپلزپارٹی) کی تھی۔‘ 

’پی ٹی آئی کا ورکر دراصل پرانا پیپلز پارٹی کا ورکر ہے‘

ایک سوال کے جواب میں ندیم افضل چن نے بتایا کہ ’بحث ہوئی تھی اور سب سے رائے مانگی گئی تو میں نے کہا کہ اگر ہم اپنی نظریاتی مخالف جماعت اسلامی سے بات کر سکتے ہیں تو پی ٹی آئی کے ساتھ اتحاد میں بھی کوئی حرج نہیں ہے۔ پی ٹی آئی کا جو ورکر ہے وہ بنیادی طور پر پیپلز پارٹی کا پرانا ورکر ہے۔ ان کے والدین پی پی سے تھے، ان کے خاندان اور خون اور خون جو ہے،  وہ پرانا پیپلیا خون ہے وہ بھٹواسٹ ہیں۔‘  
انہوں نے کہا کہ ’پی ٹی آئی ورکرز موٹیویشنل تقریریں سن سن کر ریاست اور اداروں کے خلاف ہو گئے ہیں۔ میں سمجھتا ہوں ان لوگوں ہمیں انگیج کرنا چاہیے۔ ہمیں ان کو اس جھنجھٹ سے نکالنا چاہیے۔‘  

ندیم افضل چن نے کہا کہ ’ہم حکومت میں بھی ہوں اور تقریریں بھی ان کے خلاف کریں، یہ مناسب نہیں ہوتا (فائل فوٹو: پی پی پی، ٹوئٹر)

ان کا کہنا تھا کہ ’پی ٹی آئی کے ساتھ اتحاد کے حوالے سے میں نے تجویز دی اس پر بحث ہوئی اور اکثریت نے پی ٹی آئی کے ساتھ اتحاد کی مخالفت کی۔‘ 

’کمپرومائزڈ لوگوں سے کوئی ہمدردی نہیں‘

نو مئی کے واقعات اور اس کے بعد کی صورت حال کے حوالے سے بات کرتے ہوئے ندیم افضل چن نے کہا کہ ’نو مئی کو جن لوگوں نے املاک کو آگ لگائی اور نقصان پہنچایا ہے ان کے خلاف ایکشن ہونا چاہیے۔ لیکن یہ نہیں ہونا چاہیے کہ ہم سیاسی لوگ اپنے حلقوں میں لسٹیں دیں کہ یہ لوگ ملوث ہیں، ان کے خلاف کارروائی ہونی چاہیے۔ پی ٹی آئی کے ورکرز یا اپنے مخالفین کو سیاسی انتقام کا نشانہ نہیں بنانا چاہیے۔‘ 
ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ ’پریس کانفرنس کرنے والا جواب دے سکتا ہے۔ اگر کسی کے اوپر دباؤ ہے جب تک وہ خود نہ مانے ہم اس پر کیسے تبصرہ کر سکتے ہیں۔ یا تو کہے ناں کہ مجھے دباؤ ڈال کر پریس کانفرنس کروائی گئی ہے۔ جو اتنا کمزور اور کمپرومائزڈ ہے، ہم اس سے کیا ہمدردی کر سکتے ہیں۔ ہم کسی تگڑے اور خود دار آدمی سے ہمدردی کر سکتے ہیں۔ بزدلوں سے کیا ہمدردی۔‘ 

’عوام غصے کا اظہار پرچی کے ذریعے کریں گے‘ 

مستقبل کے سیاسی منظرنامے پر بات کرتے ہوئے ندیم افضل چن نے کہا کہ ’اگر شفاف انتخابات ہوئے تو پرانے ضیا الحقی مائنڈ سیٹ کو شکست ہو گی۔ پروگریسو، لبرل اور جمہوری لوگ جیتیں گے۔‘  
انہوں نے کہا کہ ’کے پی کے میں ایک سیاسی جماعت کے لیے کوشش کی جا رہی اور اس کا پلڑا بھاری ہے جو کہ زیادتی ہے۔ سب جماعتوں کو ایک جیسا موقع ملنا چاہیے۔‘  
ندیم افضل چن نے شکوہ کیا کہ ’کے پی کے، پنجاب اور اسلام آباد میں لیول پلیئنگ فیلڈ آئیڈیل نہیں ہے۔‘
انہوں نے کہا کہ ’اتحادی حکومت نے اگر انتخابات میں جانا اور جیتنا ہے تو لوگوں کو باور کرانا ہو گا کہ ہم مخلص اور غریب کی آواز ہیں۔ اس کے لیے عملی اقدامات کرنا پڑیں گے اور اشرافیہ کو قربانیاں دینی پڑیں گی۔ یہ نہیں ہوسکتا کہ آپ دو دو تین تین پلاٹس بھی لیں اور گھر بھی لیں اور غریب بھوکا مرتا رہے۔ اس سے عوام میں غصہ بڑھ رہا ہے اور لوگ اس کا اظہار پرچی کے ذریعے کریں گے۔ یہ سب سے کمزور طبقے کے احتجاج کا طریقہ ہے۔‘
انہوں نے کہا کہ آپ کو عوام کی نبض پر ہاتھ رکھنا ہو گا اور ان کے دکھ درد کو سمجھنا ہو گا۔ صرف پاکستان میں ہی نہیں بیرون ملک پاکستانیوں کا بھی خیال کرنا ہو گا۔  
ندیم افضل چن نے کہا کہ ’اوورسیز ہمارے ہیں، ہم تو کبھی ان کو گالی نہیں دیتے۔ ہم ان کو طعنہ نہیں دیتے۔ بے نظیر شہید نے جلاوطنی کاٹی تو اس وقت بھی اوورسیز تھے ، کو ان سے پیار کرتے تھے۔ بھٹو شہید کے لیے جتنے احتجاج برطانیہ، امریکہ، یورپ اور دیگر ممالک میں ہوئے ، وہ اوورسیز پاکستانیوں ہی نے کیے۔ جلا وطنی میں ہمارے رہنماؤں کو سنبھالا۔ خود بھی کئی اوورسیز ہیں جن میں سے میں سینکڑوں کے نام لے سکتا ہوں جو ضیاالحق مافیا سے بچ کے گئے تھے، آج بھی وہیں بس رہے ہیں۔‘ 

’اسٹیبلشمٹ نیوٹرل ہوئی تو ’نیوٹرل‘ کو گالی بنا دیا گیا‘

موجودہ حکومت کی تشکیل اور مستقبل میں اسٹیبلشمنٹ کے کردار کے حوالے سے ندیم افضل چن نے کہا کہ ’اسٹیبلشمنٹ کا ہمیشہ اثرورسوخ ہوتا ہے اور ہر دور میں رہا ہے۔ کبھی زیادہ اور کبھی کم ہوتا ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ ہمیں (سیاسی کلاس کو) اپنی ذمہ داریاں خود نبھانی چاہییں اور اداروں کو ملوث نہیں کرنا چاہیے۔‘  

ندیم افضل چن کے بقول ’میں نے جنرل باجوہ کے سامنے کہا تھا کہ آپ نے غلط کیا ہے‘ (فائل فوٹو: سکرین گریب) 

جب ان سے پوچھا گیا کہ ادارے نے تو سیاست میں مداخلت سے باہر رہنے کا اعلان کر دیا تھا تو ندیم افضل چن نے کہا کہ ’اداروں نے نیوٹرل ہونے کی کوشش کی تو ہم نے انہیں گالیاں دینا شروع کر دیں۔ میں نے جنرل باجوہ کے سامنے کہا تھا کہ آپ نے غلط کیا ہے اور انہوں نے تسلیم بھی کیا۔ جب انہوں نے کوشش کی تو ہم نے انہیں جانور کہا اور نیوٹرل کو گالی بنا دیا۔‘  

’والد صاحب کی خواہش ہے کہ ہم سیاست چھوڑ دیں‘  

اپنے والد کی گرفتاری کے حوالے سے پوچھے گئے سوال کا جواب دیتے ہوئے ندیم چن نے کہا کہ ’میرے والد صاحب کو گرفتار کرنے کی وجہ کیا تھی، کوئی ماننے کے لیے تیار نہیں ہے۔ پولیس والے بھی چپ ہو جاتے ہیں۔ اب میں تھانیداروں کے خلاف کیا درخواست دوں؟ چادر اور چار دیواری کا تقدس بھی پامال ہوا۔ میرے والد گھر میں جائے نماز پر بیٹھے تھے جب ان کو لے کر گئے۔ فیملی بھی موجود تھی۔ ہمارے ساتھ زیادتی تو بڑی ہوئی۔‘  
ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ ’میرے والد صاحب کی خواہش ہے کہ میرے بچے سیاست چھوڑ دیں۔ اگر حکم دیں گے تو میں ان کے حکم کا پابند ہوں گا۔ ابھی انہوں نے مشورہ دیا ہے تو اس پر میں اپنی جماعت کا بھی پابند ہوں اس لیے اپنی جماعت سے بات کروں گا۔‘ 
انہوں نے کہا کہ ’والد صاحب سمجھتے ہیں کہ آپ ایماندارانہ سیاست نہیں کر سکتے۔ ملک کا نظام ایسا ہے کہ منتخب ارکان کچھ نہیں کر سکتے۔ پہلے ووٹ کے لیے عوام کی منتیں کرتے ہیں اور پھر بیوروکریسی کی منتیں کرنا پڑتی ہیں۔ ہم دفتروں میں بھیک مانگتے ہیں۔‘
’اگر سوچنے والا دل ہو تو اسے اللہ کو جواب دینے کا خوف بھی ہوتا ہے لیکن ہمارے 80 فیصد ساست دان یا تو خود کرپٹ ہیں یا پھر سہولت کار ہیں۔‘

شیئر: