Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

فوجی عدالتوں میں سویلینز کے کیسز، اس بینچ کو ’بینچ‘ نہیں سمجھتا: قاضی فائز عیسٰی

فوجی عدالتوں میں سویلینز کے مقدمات کے خلاف درخواستوں پر سماعت سپریم کورٹ میں ہوئی (فوٹو: روئٹرز)
پاکستان کی سپریم کورٹ میں فوجی عدالتوں میں سویلینز کے ٹرائل کے خلاف درخواستوں کی سماعت کرنے والے بینچ میں جسٹس قاضی فائز عیسٰی اور جسٹس سردار طارق مسعود نے یہ کہتے ہوئے بیٹھنے سے انکار کر دیا کہ ’بینچ کی تشکیل قانون کے مطابق نہیں ہوئی۔‘
قاضی فائز عیسٰی کا کہنا تھا کہ ’جہاز اڑانے سے پہلے پائلٹ اور معاون پائلٹ کا لائسنسن یافتہ ہونا ضروری ہے۔‘ بینچز کی تشکیل سے متعلق قانون کے بارے میں سپریم کورٹ کے فیصلے تک کسی بینچ میں نہیں بیٹھ سکتے۔ 
جمعرات کو سماعت کا آغاز  ہوا تو چیف جسٹس عمر عطا بندیال، اعتزاز احسن  اور ان کے وکیل لطیف کھوسہ کے درمیان بے تکلفی پر مبنی مکالمہ شروع ہوا جس میں چیف جسٹس نے لطیف کھوسہ کے اعتزاز احسن کا وکیل بنے پر تحسین کا اظہار کیا۔  
لطیف کھوسہ نے جواب میں ابھی کچھ کہنا ہی چاہا تو سپریم کور کے سینیئر ترین جج اور نامزد چیف جسٹس قاضی فائز عیسٰی نے کہا کہ ’اٹارنی جنرل صاحب آپ روسٹرم پر آ جائیں مجھے کچھ ابزرویشن دینی ہیں۔‘
اس دوران لطیف کھوسہ نے کہا کہ ’ہمیں خوشی کا اظہار تو کر لینے دیں جس پر قاضی فائز عیسٰی نے کہا کہ یہ سیاسی جلسہ نہیں ہے خوشی کا اظہار آپ باہر جا کر کیجیے گا۔‘ ان کے ان ریمارکس کے بعد کمرہ عدالت میں سنجیدگی چھا گئی۔

جسٹس قاضی فائز عیسٰی کا اظہار تعجب 

جسٹس قاضی فائز عیسٰی کا کہنا تھا کہ میں قومی زبان اردو میں بات کروں گا۔ عدالت کو  اختیار سماعت آئین کا  آرٹیکل 175/2 دیتا ہے۔

درخواستوں پر سماعت چیف جٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں ہوئی (فوٹو: سپریم کورٹ)

’تعجب ہوا کہ کل رات آٹھ بجے کازلسٹ میں میرا نام آیا۔ سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر بل غلط ہے یا صحیح اس پر کوئی بات نہیں کروں گا۔‘ 
 جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کا کہنا تھا کہ ’سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجربل ابھی بنا نہیں تھا کہ 13 اپریل کو سپریم کورٹ کے نو رکنی بینچ نے حکم امتناعی دیا۔ سپریم کورٹ نے سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجربل کی سماعت جولائی تک ملتوی کی۔ سپریم کورٹ رولز پڑھیں کیا کہتے ہیں۔ آئین سپریم کورٹ کو سماعت کا اختیار دیتا ہے۔ جج کا حلف کہتا ہے کہ آئین وقانون کے مطابق فیصلہ کروں گا۔ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایک قانون ہے۔‘  
’میں اس بینچ کو بینچ نہیں سمجھتا‘
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کا کہنا تھا کہ مجھے جو درخواست رات گئے موصول ہوئی اس میں عمران احمد خان کی بھی درخواست تھی۔ آج کازلسٹ میں آخر میں آنے والی درخواست سب سے پہلے مقرر کردی گئی۔ میں اس بینچ کو ’بینچ‘ تصور نہیں سمجھتا۔ میں کیس سننے سے معذرت نہیں کر رہا۔ پہلے سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجربل کا فیصلہ کیا جائے۔ میرا موقف یہ ہے کہ جب تک پریکٹس اینڈ پروسیجربل کو ٹھکانے نہ لگایا جائے تب تک میں کسی بینچ میں نہیں بیٹھ سکتا۔ 
ان کا کہنا تھا کہ میں اور جسٹس سردار طارق مسعود اس کشمکش میں تھے کہ کیس سننے سے معذرت کریں یا نہیں۔ سب سے معذرت چاہتا ہوں، میں بینچ سے اٹھ رہا ہوں، کیس سننے سے معذرت نہیں کر رہا۔ جب تک سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجربل کا فیصلہ نہ ہو میں کسی بینچ کا حصہ نہیں بن سکتا۔  
’آرمی ایکٹ 1952 سے موجود ہے ٹرائل بھی ہوئے کوئی نہیں بولا‘
اس موقع پر سپریم کورٹ کے دوسرے سینیئر جج جسٹس سردار طارق مسعود کا کہنا تھا کہ میں بھی جسٹس قاضی فائز عیسیٰ سے اتفاق کرتا ہوں۔ اس وقت ہم 9 ججز ہیں اور ہم فیصلہ کر دیتے ہیں تو اس کیس میں اپیل پر فیصلہ کون کرے گا؟ جب تک ان قوانین کا فیصلہ نہیں ہوتا تب تک ہم بینچ میں نہیں بیٹھ سکتے۔ 

جسٹس قاضی فائز عیسٰی نے بینچ کی تشکیل کو قانون کے منافی قرار دیا (فوٹو: سپریم کورٹ)

اعتزاز احسن کے وکیل لطیف کھوسہ کا کہنا تھا کہ اگر آپ کیس نہیں سنیں گے تو 25 کروڑ عوام کہاں جائیں گے۔ جسٹس سردار طارق مسعود نے کہا کہ 25 کروڑ عوام کا خیال پہلے کیوں نہیں آیا؟ جب تک ان قوانین کا فیصلہ نہیں ہوتا تب تک ہم بینچ میں نہیں بیٹھ سکتے۔ 
’یہ گھر نہیں سپریم کورٹ ہے‘
درخواست گزار اعتزاز احسن کا کہنا تھا کہ یہ کیس سن لیجیے۔ اس پر جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کا کہنا تھا کہ اعتزاز صاحب یہ گھر نہیں سپریم کورٹ ہے۔ میں آئین اور قانون کے سائے میں بیٹھ کر فیصلے کرتا ہوں۔ میں بینچ سے اٹھ نہیں رہا، یہ عدالت ہی نہیں۔ جب تک پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ پر فیصلہ نہیں ہوتا تب تک ہر بینچ غیرقانونی ہے۔ آئین اور قانون کے تحت فیصلے کرنےکا حلف اٹھایا ہے۔ 
’ممکن ہے پریکٹس اینڈ پروسیجر بل پر حکم امتناع ختم ہو جائے‘
اس موقع پر چیف جسٹس نے ایک مرتبہ پھر جسٹس منیب اختر کی طرف دیکھا اور پوچھا کہ میں بات کروں تو ان کی جانب سے ہاں کا اشارہ ہوا۔ جس کے بعد چیف جسٹس نے کہا کہ اعتزاز صاحب ایسا نہ کریں۔ عدالت کے ڈیکورم کا خیال کریں۔ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ پر اٹارنی جنرل نے کہا ترامیم کر رہے ہیں۔ ہمارے لیے تمام فاضل جج صاحبان کی عزت و احترام ہے۔ ہم نے جو کیا آئین کے مطابق کیا، چاہتے ہیں فیصلے حق اور انصاف کے مطابق ہوں۔ چاہتے ہیں فیصلے مخلوق خدا کی خاطر ہوں۔  
چیف جسٹس نے کہا کہ دو معزز سینیئر ججز نے اعتراض کیا ہے۔ ممکن ہے سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر بل پر حکم امتناع ختم ہوجائے۔ اس عدالت کی روایت کے مطابق دو سینیئر ججز کے اعتراض کے بعد تکرار نہ کریں۔ آپ کے کیس کا کوئی اور حل کرتے ہیں۔ ہم نے بھی یہ بینچ آئین کے تحت قسم کے مطابق بنایا ہے۔ یہاں ہم مخلوق خدا کے حق میں فیصلے کرنے کے لیے بیٹھے ہیں۔ 
چیف جسٹس کے ریمارکس کے بعد ابھی وکلا کی جانب سے قاضی فائز عیسٰی کو نہ اٹھنے کے لیے استدعا کی جا رہی تھی کہ جسٹس قاضی فائز عیسٰی نے چیف جسٹس سے کہا کہ وہ بینچ اٹھا دیں لیکن انہوں نے ان سنی کی۔ جس کے بعد جسٹس قاضی فائز عیسٰی کھڑے ہو گئے۔ چیف جسٹس نے انھیں بازو سے پکڑ کر بٹھانے کی کوشش کی لیکن وہ نہ مانے۔ اس دوران چیف جسٹس نے وکلا سے کہا کہ آپ تشریف رکھیں آپ کے کیس کا کوئی اور حل نکالتے ہیں۔  
جس کے بعد چیف جسٹس نے باقی ججزکی طرف دیکھا اور اٹھنے کا اشارہ کیا۔ کچھ ججز ابھی اٹھنا نہیں چاہتے تھے لیکن جسٹس قاضی فائز عیسٰی اور جسٹس سردار طارق مسعود کے اٹھ کر چلنے کے ساتھ ہی وہ بھی اٹھ گئے۔  
سات رکنی نیا بینچ تشکیل  
کچھ ہی دیر بعد چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے کیس کی سماعت کے لیے سات رکنی بینچ تشکیل دے دیا۔ اعتراض کرنے والے دونوں جج  جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اورجسٹس سردار طارق مسعود بینچ میں شامل نہیں۔ 
وقفےکے بعد سماعت کا آغاز ہوا تو بینچ میں شامل جسٹس منصورعلی شاہ کا کہنا تھا کہ میں ایک درخواست گزار جواد ایس خواجہ کا رشتہ دار ہوں،کسی کو میری بینچ میں شمولیت پر اعتراض ہے تو ابھی بتا دیں۔ 
اعتزاز احسن کا کہنا تھا کہ کسی کو آپ کی بینچ میں شمولیت پر کوئی اعتراض نہیں ہے۔ اٹارنی جنرل نے بھی کہا کہ آپ کے بینچ کا حصہ ہونے پر کوئی اعتراض نہیں ہے۔ 
چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ موسم گرما کی تعطیلات چل رہی ہیں اس لیے تمام فریقین دلائل مختصر رکھیں۔ چھٹیوں میں ہمارے بینچ دیگر رجسٹریز میں ہوتے ہیں۔ 
بعد ازاں کیس کی سماعت اس انداز سے آگے بڑھنے لگی کہ جیسے کچھ ہوا ہی نہیں۔  

شیئر: