Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

سعودی عرب میں خواتین کو بااختیار بنانے کےلیے اقدامات، جی 20 اجلاس میں بریفنگ

سعودی عرب نے وژن 2030 کے تحت خواتین کے لیے کام کیا ہے ( فوٹو: عرب نیوز)
سعودی عرب کی لیبر 20 کی نمائندہ ریمہ صالح الیحییٰ نے انڈیا میں ختم ہونے والے جی 20 انگیجمنٹ گروپ سربراہی اجلاس کے دوران مملکت میں خواتین کو بااختیار بنانے کی پالیسیوں کے بارے میں بریفینگ دی ہے۔
عرب نیوز کے مطابق لیبر 20 یا ایل 20 بڑی معیشتوں کے گروپ کے 11 سرکاری نیٹ ورکنگ گروپس میں سے ایک ہے جو ان ممالک کے کارکنوں کے مفادات کی نمائندگی کرتا ہے جو مل کر دنیا کی 66 فیصد آبادی اور عالمی اقتصادی پیداوار کے تقریباً 75 فیصد کی نمائندگی کرتے ہیں۔
جی 20 گروپ کی صدارت اس سال انڈیا نے کی۔ گروپ کے ترجیحی شعبے ’یونیورسل سوشل سیکورٹی‘ اور ’خواتین اور کام کا مستقبل‘ ہیں۔
سعودی شوریٰ کونسل کی رکن ریمہ صالح الیحییٰ جنہوں نے مملکت کی پہلی خاتون نائب وزیر برائے نجی اعلیٰ تعلیم کے طور پر کام کیا، خواتین اور کام کے مستقبل سے متعلق لیبر 20 ٹاسک فورس کی سربراہی کی۔
انہوں نے عرب نیوز کو بتایا کہ ’ 22 اور 23 جون کو پٹنہ، بہار میں منعقدہ لیبر20 سمٹ اس پیش رفت کو ظاہر کرنے کا ایک اچھا موقع تھا جو سعودی عرب نے اپنے وژن 2030 تنوع کے منصوبے کے تحت خواتین کے لیے کیا ہے‘۔
ریمہ صالح الیحییٰ نے کہا کہ  شاہ سلمان اور ولی عہد محمد بن سلمان نے مارکیٹ میں خواتین کی شرکت کو بڑھانے کے لیے بہت محنت کی ہے۔
انہوں نے کہا کہ ’ سعودی حکومت نے بہت سی پالیسیاں متعارف کروائیں جن میں خواتین کے لیے کام کی جگہ میں لچک، دور دراز کام کے انتظامات اور کام کے لچکدار اوقات جس سے ایک خاتون کو فائدہ پہنچے گا جو کام اور خاندانی ذمہ داریوں کو نبھا رہی ہے‘۔
واضح رہے کہ سعودی وژن 2030 کے تحت خواتین کی ملازمت کی شرح کو کم از کم 30 فیصد تک پہنچانے کا ہدف ہے۔ مزید خواتین کی قیادت کے عہدوں پر کام کرنے کی بھی حوصلہ افزائی کی جاتی ہے۔
ریاض میں پرنس سلطان یونیورسٹی کی سابق نائب ریکٹر ریمہ صالح الیحییٰ جی 20 میں خواتین سعودی مندوبین کی شرکت کو ان مقاصد تک پہنچنے کے لیے سعودی عرب کی کوششوں کے طور پر دیکھتی ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ’ اس (سربراہی اجلاس) کا حصہ ہونے کے ناطے میں اس بات کی مثال تھی کہ کس طرح ہماری حکومت کی جانب سے ہماری حمایت کی گئی، ہمارے ملک نے اپنی بہترین کوشش کرنے اور ہمارے قائدانہ کردار میں مردوں کے برابر ہونے کی کوشش کی۔ وہ خواتین کو بااختیار بنا رہے ہیں کہ وہ کمپنیوں میں بھی قائدانہ کردار ادا کریں‘۔
انہوں نے مزید کہا کہ ’ جی 20 ممالک اپنی ضروریات کے لحاظ سے مختلف ہوتے ہیں، وہ ملک کی معیشت کے ساتھ ساتھ سماجی منصوبہ اور تعلیم کی اوسط سطح کے لحاظ سے اپنی صلاحیتوں میں مختلف ہوتے ہیں، (لیکن) تقریباً تمام خواتین کو اسی طرح چیلنج کیا جاتا ہے‘۔
’ ہمیں تمام ممالک کی حمایت حاصل تھی۔ وہ پہلے ہی دیکھ چکے ہیں اور انہوں نے وہ پیش رفت سنی ہے جو سعودی عرب میں ہو رہی ہے۔ دنیا اسے دیکھ سکتی ہے‘۔

شیئر: