Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

بلوچستان میں سکیورٹی فورسز پر حملے، کیپٹن سمیت 6 جان سے گئے

آئی ایس پی آر کا کہنا ہے کہ ’وطن کے ان بہادر بیٹوں نے مادر وطن کا دفاع کرتے ہوئے اپنی جانیں نچھاور کیں‘ (فائل فوٹو: اے ایف پی)
پاکستان کے صوبہ بلوچستان میں سال کے آخری دنوں میں سکیورٹی فورسز پر حملوں میں اچانک اضافہ دیکھا گیا ہے۔ 
صوبے کے آٹھ اضلاع میں اتوار کے روز نو بم دھماکے ہوئے جبکہ سکیورٹی فورسز کی چیک پوسٹ پر فائرنگ کے چار واقعات بھی رپورٹ ہوئے۔
حکام کے مطابق ’ان حملوں میں ایک فوجی افسر سمیت چھ سکیورٹی اہلکار جان سے گئے جبکہ 23 افراد زخمی ہوئے۔‘
’زیادہ تر حملوں میں سکیورٹی فورسز کو نشانہ بنایا گیا۔بم دھماکوں کے بعد کوئٹہ سمیت صوبے بھر میں سکیورٹی ہائی الرٹ کردی گئی ہے۔‘
صوبائی دارالحکومت کوئٹہ میں چھ گھنٹوں کے دوران یکے بعد دیگرے تین بم دھماکے ہوئے۔ پولیس حکام کا کہنا ہے کہ ’تینوں بم دھماکے دستی بم کے تھے جو نامعلوم افراد نے پولیس اور ایف سی کو نشانہ بنانے کے لیے پھینکے۔‘
’دھماکوں میں تین پولیس اہلکاروں سمیت 12 افراد زخمی ہوگئے۔ زخمیوں کو سول ہسپتال کوئٹہ پہنچایا گیا ہے۔ سول ہسپتال کے ترجمان ڈاکٹر وسیم بیگ نے بتایا کہ ’زخمیوں میں دو بچے بھی شامل ہیں۔ تمام زخمیوں کی حالت خطرے سے باہر بتائی جاتی ہے۔‘
پولیس کے مطابق ’پہلا دھماکہ اتوار کی سہ پہر کو کوئٹہ کے علاقے سبزل روڈ پر پولیس تھانہ امیر محمد دستی کے باہر ہوا۔‘
ڈی ایس پی شوکت جدون نے اردو نیوز کو بتایا کہ ’نامعلوم افراد کی جانب سے دو دستی بم پھینکے گئے جن میں سے ایک دھماکے سے پھٹ گیا جبکہ دوسرے کو بم ڈسپوزل سکواڈ نے ناکارہ بنا دیا۔‘ 
انہوں نے مزید کہ ’دستی بم کے حملے میں ایک کم عمر لڑکی اور خاتون سمیت چار راہ گیر زخمی ہوگئے۔‘
دوسرا دستی بم حملہ پولیس تھانہ سیٹلائٹ ٹاؤن کی حدود میں چالو باوڑی کے قریب پولیس ناکے پر کیا گیا جس میں تین پولیس اہلکار اور پانچ راہ گیر زخمی ہوئے۔ تیسرا بم دھماکہ کوئٹہ کے علاقے سریاب میں موسیٰ کالونی میں ریلوے پٹڑی کے قریب ہوا۔ ڈی ایس پی سلیم شاہوانی نے بتایا کہ ’نامعلوم افراد نے ایف سی کی چوکی سے چند سو فٹ کے فاصلے پر دستی بم پھینکا تاہم کوئی جانی نقصان نہیں ہوا۔ بظاہر حملہ آوروں کا مقصد صرف خوف وہراس پھیلانا تھا۔‘

حب میں پولیس تھانہ صدر کے باہر دھماکے میں تین افراد زخمی ہوئے جبکہ دو موٹر سائیکلیں تباہ ہوگئیں (فوٹو: بلوچستان پولیس)

یس ایس پی آپریشنز کوئٹہ عبدالحق عمرانی کا کہنا ہے کہ ’کوئٹہ میں یکے بعد دیگرے دو دستی بم حملوں کے بعد سکیورٹی انتظامات سخت کر دیے گئے، پولیس اور ایف سی اہلکار ناکہ بندی کر کے مشتبہ افراد کو تلاش کر رہے ہیں۔‘
سرکاری حکام کے مطابق ’سب سے ہولناک حملہ اتوار کی سہ پہر بلوچستان کے ضلع کوہلو سے تقریباً 80 کلومیٹر دور کاہان میں سہریں کہور کے مقام پر کیا گیا جس میں ایف سی 84 ونگ کی گاڑی کو بارودی سرنگ کے ذریعے نشانہ بنایا گیا۔‘
مقامی حکام نے اردو نیوز کو بتایا کہ ’سکیورٹی فورسز کے اہلکار بم ڈسپوزل ٹیم کے ہمراہ نامعلوم دہشت گردوں کی جانب سے بچھائی گئی بارودی سرنگوں کی صفائی کے لیے جارہے تھے کہ خود اس کا نشانہ بن گئے۔‘
پاکستانی فوج کے شعبہ تعلقات عامہ (آئی ایس پی آر) نے واقعے کی تصدیق کی ہے اور بتایا ہے کہ ’سکیورٹی فورسز کے اہلکار 24 دسمبر سے مصدقہ انٹیلی جنس کی بنیاد پر کاہان میں ایک آپریشن میں مصروف تھے۔‘
’اس دوران ہونے والے بم دھماکے میں کیپٹن فہد، لانس نائیک امتیاز، سپاہی اصغر، سپاہی مہران اور سپاہی شمعون جان کی بازی ہار گئے۔‘
مقامی لیویز کے مطابق ’اس حملے میں چھ اہلکار زخمی بھی ہوئے۔ لاشوں اور زخمیوں کو ہیلی کاپٹر کے ذریعے کوئٹہ منتقل کر دیا گیا۔‘

’پاکستان افغانستان سرحد کے قریب مقابلے میں ایک دہشت گرد مارا گیا جبکہ سپاہی حق نواز ہلاک اور دو زخمی ہوگئے‘ (فائل فوٹو: اے ایف پی)

آئی ایس پی آر کا کہنا تھا کہ ’وطن کے ان بہادر بیٹوں نے مادر وطن کا دفاع کرتے ہوئے اپنی جانیں نچھاور کیں۔ دشمن عناصر کی اس طرح کی بزدلانہ کارروائیاں بلوچستان کے امن اور خوش حالی کو سبوتاژ نہیں کرسکتیں۔
’سکیورٹی فورسز ہر قیمت پر دشمن کے مذموم عزائم کو ناکام بنانے کے لیے پر عزم ہیں۔‘
ایک اور حملہ بلوچستان کے ضلع ژوب سے تقریباً 100 کلومیٹر دور سمبازہ میں پاکستان افغانستان سرحد کے قریب ایف سی 69 ونگ کی فضل کریم چیک پوسٹ پر کیا گیا۔ 
پاکستانی فوج کے ترجمان ادارے آئی ایس پی آر نے اپنے بیان میں حملے کی تفصیل جاری کرتے ہوئے بتایا کہ ’مقابلے میں ایک دہشت گرد مارا گیا جبکہ سپاہی حق نواز ہلاک اور دو زخمی ہوگئے۔‘
آئی ایس پی آر کے مطابق ’انٹیلی جنس اطلاعات کی بنیاد پر ژوب کے علاقے سبمازہ میں گذشتہ 96 گھنٹوں سے آپریشن کیا جا رہا تھا۔‘
دہشت گرد بعض مشتبہ راستوں کو استعمال کرتے ہوئے پاکستان افغانستان سرحد سے داخل ہونے اور سکیورٹی فورسز اور شہریوں کو نشانہ بنانے کی کوشش کر رہے تھے۔‘
’علاقے کی مسلسل نگرانی کے دوران علی الصبح دہشت گردوں کے ایک گروہ کو روکا گیا۔ دہشت گردوں کے فرار کے راستے روکنے کے لیے ناکہ بنی گئی تو انہوں نے فائرنگ کردی۔‘

کاہان میں سہریں کہور کے مقام پر ایف سی 84 ونگ کی گاڑی کو بارودی سرنگ کے ذریعے نشانہ بنایا گیا (فائل فوٹو: اے ایف پی)

آئی ایس پی آر نے بتایا کہ ’اس دوران فائرنگ کا تبادلہ ہوا۔ دہشت گردوں کو سرحد پار سے ان کے سہولت کاروں نے سکیورٹی فورسز پر فائرنگ کرکے مدد فراہم کی۔‘
ادھر اتوار کی رات کو کراچی سے متصل بلوچستان کے ضلع حب میں پولیس تھانہ صدر کے باہر دھماکہ ہوا۔ ایس ایس پی دوشتین دشتی نے بتایا کہ ’دھماکے میں تین افراد زخمی ہوئے جبکہ دو موٹر سائیکلیں تباہ ہوگئیں۔‘
 ایس ایس پی کا مزید کہنا تھا کہ ’حملہ دستی بم کا تھا۔ حملہ آور فرار ہونے میں کامیاب ہوگئے جن کی گرفتاری کے لیے کوششیں جاری ہیں۔‘
ادھر خضدار کے علاقے جیلانی چوک پر پولیس کی گشت میں مصروف گاڑی پر نامعلوم موٹر سائیکل سواروں نے دستی بم پھینکا۔ 
ایس ایچ او سٹی محمد جان کے مطابق ’دھماکے سے گاڑی کو جزوی نقصان پہنچا تاہم کوئی جانی نقصان نہیں ہوا۔‘
 قلات میں بھی گرانی کے مقام پر ایک دستی بم دھماکہ ہوا۔ مقامی پولیس کے مطابق ’نامعلوم افراد نے بلوچستان سے قیمتی پتھر کراچی لے جانے والے ٹرک پر دستی بم سے حملہ کرنے کے بعد فائرنگ بھی کی تاہم کوئی جانی نقصان نہیں ہوا۔‘
دریں اثنا ضلع کیچ کے ضلعی ہیڈ کوارٹر تربت میں تعلیمی چوک پر نامعلوم افراد کی جانب سے دستی بم پھینکا گیا جو ایف سی کی چوکی سے کچھ فاصلے پر گر کر دھماکے سے پھٹ گیا تاہم کوئی جانی نقصان نہیں ہوا۔
اتور کو ہی تربت میں ایف سی کی جوسک چیک پر نامعلوم افراد نے دستی بم سے حملہ کیا تاہم کوئی جانی نقصان نہیں ہوا۔
تربت میں دو روز قبل بھی گوگدان کے مقام پر ایف سی کے قافلے پر نامعلوم دہشت گردوں کی فائرنگ سے چار اہلکار ہلاک اور ایک زخمی ہو گیا تھا۔ 
اس حملے کے بعد ضلعی انتظامیہ نے شہر میں دفعہ 144 نافذ کرکے موٹرسائیکل کی ڈبل سواری پر پابندی عائد کردی۔
کیچ ہی میں بلیدہ اور ہوشاب میں ایف سی کی چیک پوسٹوں پر فائرنگ کے دو واقعات رپورٹ ہوئے۔ایف سی ذرائع کے مطابق ’پنجگور میں پاکستان ایران سرحد کے قریب ایف سی 137 ونگ کی جوز چیک پوسٹ پر ایران کی حدود سے نامعلوم دہشت گردوں نے فائرنگ کی تاہم ان تینوں واقعات میں کوئی جانی نقصان نہیں ہوا۔
کوہلو اور تربت میں ہونے والے حملوں سمیت زیادہ تر کی ذمہ داری کالعدم بلوچ لبریشن آرمی (بی ایل اے) نے قبول کی ہے۔
محکمہ داخلہ بلوچستان کی رپورٹ کے مطابق ’صوبے میں گذشتہ سال کی نسبت دہشت گردی کے واقعات میں 11 فیصد اضافہ ہوا ہے۔ بلوچستان میں رواں سال دہشت گردی کے 290 واقعات میں 125 افراد ہلاک اور 417 زخمی ہوئے۔
چیف سیکریٹری بلوچستان عبدالعزیز عقیلی نے ٹوئٹر پر اپنے بیان میں کہا ہے کہ ’قانون نافذ کرنے والے اداروں اور ضلعی انتظامیہ کو ہائی الرٹ کر دیا گیا ہے۔ لوگوں سے درخواست ہے کہ وہ بہت محتاط رہیں۔‘سکیو

شیئر: