Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

اقتصادی بحالی کا منصوبہ، خلیجی ممالک پاکستان میں اربوں ڈالر کی سرمایہ کاری کریں گے: وزیراعظم

وزیراعظم شہباز شریف نے آئی ایم ایف سے معاہدے پر اسحاق ڈار کا بھی شکریہ ادا کیا۔ (فوٹو: سکرین گریب)
وزیراعظم شہباز شریف نے کہا کہ ان کی حکومت کے وضع کردہ اقتصادی بحالی کے نئے منصوبے کے تحت خلیجی ممالک سے سرمایہ کاری کی صورت میں مستقبل میں اربوں ڈالر پاکستان آئیں گے۔
جمعے کو لاہور میں آئی ایم ایف سے نئے معاہدے کے بعد گورنر ہاؤس میں وفاقی وزیر خزانہ اسحاق ڈار اور وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات مریم اونگزیب کے ہمراہ پریس کانفرنس کرتے ہوئے وزیراعظم شہباز شریف نے کہا کہ ’اس اقتصادی بحالی کے منصوبے کے تحت 40 لاکھ ملازمتیں پیدا ہوں گی۔ خلیجی ممالک سے اربوں ڈالر کی سرمایہ کاری آئے گی۔‘
اس ماہ کے شروع میں شہباز شریف نے اپنی حکومت کے نئے اقتصادی بحالی کے منصوبے کا اعلان کیا تھا، جس میں غیرملکی سرمایہ کاری، خاص طور پر خلیجی ممالک سے، کو راغب کرنے کے لیے خصوصی سرمایہ کاری سہولت کونسل کا قیام بھی شامل ہے۔
انہوں نے صحافیوں کے سوالات کے جواب دیتے ہوئے کہا کہ ’اس اقتصادی بحالی کے منصوبے کے تحت 40 لاکھ ملازمتیں پیدا ہوں گی۔ خلیجی ممالک سے اربوں ڈالر کی سرمایہ کاری آئے گی۔‘
وزیراعظم کا کہنا تھا کہ زراعت، انفارمیشن ٹیکنالوجی اور دفاعی پیداوار نئے منصوبے کے اہم عناصر ہیں۔
قرضوں کے حوالے سے انہوں نے کہا کہ ’آج اگر ہم ان قرضوں سے چھٹکارا حاصل کرنا چاہتے ہیں تو ہمیں خلیجی ریاستوں سے اربوں ڈالر کی سرمایہ کاری لانی ہو گی اور ایک کے بعد ایک معاہدے کرنے ہو گے۔‘
’یہ زرعی وسائل، زمینیں وہ (خلیجی ممالک) استعمال کریں گے، وہ اپنی ٹیکنالوجی اور افرادی قوت کو یہاں لائیں گے، لاکھوں نوکریاں پیدا ہوں گی، وہ اپنے مطلوبہ معیار کے مطابق پیداوار لیں گے اور ہمیں ڈالروں میں منافع نہیں دینا پڑے گا۔ اسی طرح وہ ہمارے معدنی وسائل کو پروسیس کر سکتے ہیں اور مصنوعات تیار کر سکتے ہیں اور منافع جائے گا لیکن ڈالروں میں نہیں بلکہ اشیا کی شکل میں۔ آئی ٹی کے لیے بھی ایسا ہی ہے۔‘
قبل ازیں شہباز شریف کا کہنا تھا کہ آئی ایم ایف کے ساتھ کئی ماہ سے جو بات چیت چل رہی تھی، وہ آج ایک انتہائی مثبت نتیجے پر پہنچی ہے۔
انہوں نے کہا کہ عوام پر اس سارے معاشی بوجھ اور بے پناہ مشکلات کے پہاڑ کی وجہ جاننا ضروری ہے۔
’2018 تک پاکستان نوز شریف کی قیادت میں تیزی سے ترقی کی راہ پر گامزن تھا۔ ہمارے جو بدترین ناقد ہیں ان کو بھی اس پر اختلاف کرنے کی جرات نہیں۔ اس لیے کہ 18-2017 میں ہماری ترقی کی شرح 6.2 تھی، اور پاکستان کا شمار دنیا کی تیزی سے سفر کرتی معیشتوں میں ہونے لگا۔ 20 20 گھنٹے کی لوڈشیڈنگ کا خاتمہ ہو چکا تھا اور نواز شریف کی قیادت میں سی پیک پر بڑی تیزی سے کام ہوا۔ بجلی کے منصوبے مکمل ہوئے اور پن بجلی کے منصوبوں پر کام شروع ہوا، سڑکوں کا جال بچھایا گیا اور شمسی توانائی کے منصوبے لگائے گئے۔‘
وزیراعظم نے کہا کہ کہنے کا مقصد یہ ہے کہ پاکستان دنیا کی دوسری قوموں کے ساتھ اس دوڑ میں بڑی تیزی سے آگے بھاگ رہا تھا۔ ’پھر بدترین دھاندلی کے ذریعے عمران نیازی کو اقتدار کی مسند پر زبردستی بٹھایا گیا، آر ٹی ایس بند ہوا، تاریخ میں پہلی مرتبہ دیہاتوں میں نتائج چند گھنٹوں میں آنے شروع ہوئے اور شہروں کے نتائج میں دنوں کی نہیں ہفتوں کی تاخیر ہوئی۔ سارا زمانہ جانتا ہے کہ وہ تاریخ کا بدترین الیکشن تھا۔‘
’اس کے نتیجے میں کیا ہوا کہ آئی ایم ایف کے ساتھ پہلے تو انہوں نے گفتگو میں اتنی ہچکچاہٹ دکھائی، اس میں چھ ماہ لگ گئے اور آپ سب جانتے ہیں کہ اس کے کیا نتائج نکلے۔ پھر جب آئی ایم ایف کے ساتھ معاہدہ ہوا تو سنگ دلی کے ساتھ اس کی دھجیاں اڑائی گئیں اور پاکستان کے وقار کو خاک میں ملانے کی ناپاک کوشش کی گئی۔‘

شہباز شریف نے کہا کہ ’سری لنکن صدر رانیل وکرماسنگھے نے ان کی ایم ڈی آئی ایم ایف سے ملاقات کا انتظام کیا۔‘ (فائل فوٹو: روئٹرز)

شہباز شریف کا کہنا تھا کہ ’پیرس میں کانفرنس کے ایک سیشن کے دوران سری لنکا کے صدر میرے پاس آئے اور مجھے کہا کہ آئی ایم ایف کی ایم ڈی بیٹھی ہیں، ان سے آپ کی ملاقاتیں ہو چکی ہیں لیکن میں نے ایک اور میٹنگ کا انتظام کیا ہے۔ میں نے کہا کہ آپ کی بہت مہربانی۔ وہ کانفرنس کا سیشن لمبا ہو گیا تو جب ختم ہوا تو آئی ایم ایف کی ایم ڈی میرے پاس آئیں اور کہا کہ پرائم منسٹر مجھے پریس کانفرنس کرنے کے لیے جانا ہے تو کھڑے کھڑے بات کر لیتے ہیں۔‘
’مجھے سری لنکا کے صدر نے کہا ہے کہ سری لنکا بہت بُری حالت سے گزرا ہے، خدا کرے کہ پاکستان کو ان حالات کا سامنا نہ کرنا پڑے۔ اب آپ بتائیں کہ یہاں پر دوست نما دشمن پاکستان کو سری لنکا جیسے حالات سے دوچار کرانا چاہتے تھے اور سری لنکا کے صدر دوست بن کر آئی ایم ایف کی ایم ڈی کو (پاکستان کے بارے میں) اچھے الفاظ کہہ رہے ہیں۔‘
انہوں نے کہا کہ ’ان مہینوں میں میری آئی ایم ایف کی ایم ڈی سے ایک ایک گھنٹے سے زائد وقت گفتگو ہوئی، ہم نے خطوط کا تبادلہ کیا۔ اسحاق ڈار اور ان کی ٹیم نے بڑی عرق ریزی سے تمام فیکٹس مہیا کیے، تمام شرائط پوری کرنے کی کوشش کی، سٹیٹ بنک نے اپنا حصہ ڈالا لیکن اس سب کے باوجود بات نہیں بن رہی تھی۔ پھر میری پیرس میں آئی ایم ایف کی ایم ڈی سے تفصیلی ملاقات ہوئی۔‘
’انہوں نے مجھے کہا کہ پرائم منسٹر وقت بہت گزر گیا ہے اور 30 جون کو بس چند دن رہ گئے ہیں۔ میں نے ان سے کہا کہ دیکھیں کون سی شرط ہم نے آپ کی نہیں مانی۔ اس مخلوط حکومت نے اپنا سیاسی سرمایہ داؤ پر لگا دیا، نوا شریف نے اپنا سرمایہ داؤ پر لگا دیا۔ میں نے میری پارٹی نے اور حکومت میں شامل دوسری اتحادی جماعتوں نے، سب نے اپنا سیاسی سرمایہ گنوا لیا۔ صرف اس لیے کہ ہم پاکستان کو ڈیفالٹ نہ ہونے دیں بلکہ پاکستان کے معاشی استحکام کے لیے کڑے اور کڑوے فیصلے ہم نے کیے۔ اب کون سی ایسی چیز ہے جو باقی رہ گئی ہے۔‘

شہباز شریف نے کہا کہ ’ان مہینوں میں میری آئی ایم ایف کی ایم ڈی سے ایک ایک گھنٹے سے زائد وقت گفتگو ہوئی۔‘ (فوٹو: حکومت پاکستان)

وزیراعظم شہباز شریف نے ایم ڈی آئی ایم ایف کے ساتھ اپنی ملاقات کے حوالے سے مزید کہا کہ ’انہوں (ایم ڈی آئی ایم ایف) نے مجھے دو تین چیزیں بتائیں۔ میں نے کہا کہ آپ فکر نہ کریں میں کوشش کرتا ہوں کہ اس معاملے میں اور بھی جس حد تک بڑھ سکتے ہیں بڑھیں۔ تو پھر انہوں نے کہا کہ دیکھیں جو دو ارب ڈالر کا گیپ ہے اس کا کیا ہو گا؟ میں نے کہا اچھا اس پر بھی بات کرتے ہیں۔ جب وہ میٹنگ ختم ہوئی تو میں نے اسحاق ڈار کو فون کیا کہ مہربانی کریں۔ ان کو کافی شکوک و شہبات تھے، میں نے کہا نہیں ایک آخری کوشش کریں تو اسحاق ڈار نے کہا کہ میں پوری کوشش کرتا ہوں۔‘
’وہاں مجھے پتہ چلا کہ اسلامی ترقیاتی بنک کے چیئرمین آئے ہوئے ہیں۔ میں نے اپنے سفیر کے ذریعے ان کو کانفرنس میں پیغام دیا کہ میں ان سے ملنا چاہتا ہوں۔ میں نے ان سے ملاقات کی اور بتایا کہ یہ معاملہ ہے دو ارب ڈالر کا فرق ہے تو میں نہیں چاہتا کہ آپ پر مزید بوجھ ڈالوں، آپ نے جنیوا میں ہماری سیلاب کے دوران بڑی مدد کی۔ انہوں نے کہا کہ آپ ہمارے بھائی ہیں اور وہ گئے اور ایک ارب ڈالر کا اعلان کر دیا۔ پھر میری کانفرنس کی سائیڈ لائن پر آئی ایم ایف کی ایم ڈی سے مزید دو ملاقاتیں ہوئیں۔ انہوں نے کہا کہ وزیراعظم ہم نہیں چاہتے کہ پاکستان ڈیفالٹ کرے ہم پوری کوشش کریں گے۔ آپ بھی آگے بڑھیں ہم بھی آگے بڑھیں گے۔ وہاں پر برف پگھلی اور وہ پیرس میں ٹرننگ پوائنٹ تھا۔ اور تین دن پہلے جب میں واپس آیا تو میری آئی ایم ایف کی ایم ڈی سے بات ہوئی تو اس طرح آج میں کہہ سکتا ہوں کہ ہمارا سٹاف لیول معاہدہ ہو چکا ہے۔ یہ تین ارب ڈالر کا نو ماہ کا سٹینڈ بائی معاہدہ ہے۔ 12 جولائی کو آئی ایم ایف بورڈ کی میٹنگ کے بعد قسطیں ملنی شروع ہو جائیں گی۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ان تین مہینوں میں چین نے پاکستان کو ڈیفالٹ ہونے سے بچایا اور اس کے کمرشل بنکوں کے جو قرضے ہم نے ادا کیے تھے وہ واپس کر دیے۔
وزیراعظم نے مشکل وقت میں مدد کرنے پر سعودی عرب، متحدہ عرب امارات اور اسلامی ترقیاتی بنک کا بھی شکریہ ادا کیا۔

شیئر: