Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

’آپ کسی کو مارنے والے ہیں‘، ٹائٹن کے بارے میں خدشات کو نظر انداز کیا گیا؟

میک کیلم روب نے کہا کہ آبدوز میں حفاظتی فیچرز کی کمی تھی۔ (فائل فوٹو: روئٹرز)
گذشتہ ماہ ٹائٹینک جہاز کے ملبے تک سفر کرنے والی آبدوز ’ٹائٹن‘ کے گہرائی میں پھٹنے کے بعد کی تفصیلات سے لگتا ہے کہ آبدوز کے حفاظتی نظام سے متعلق دی گئی وارننگز کو کمپنی نے نظرانداز کیا۔
برطانوی اخبار گارڈین کی ایک رپورٹ کے مطابق اس حادثے سے جڑی تفصیلات ’اوشن گیٹ‘ نامی کمپنی کے مہم پر جانے والے مسافروں کے تحفظ سے متعلق رویے پر سوالات کھڑے کر رہی ہیں۔
یہ تباہ ہونے والی آبدوز مبینہ طور پر نیچے کی جانب جاتے ہوئے اپنا وزن کم کر چکی تھی تاہم یہ معلوم نہیں کہ آیا یہ اترائی کے دوران معمول کی چیز تھی یا پھر جان بوجھ کر مشن کو ترک کرنے کی کوشش تھی۔
اس حادثے میں ٹائٹن کے پانچوں مسافر ہلاک ہو گئے تھے۔

’آبدوز عین اسی جگہ پر تھی جہاں اسے ہونا چاہیے تھا‘

روب میک کیلم کا شمار آبدوزوں کے نمایاں ماہرین میں ہوتا ہے۔ انہوں نے سنہ 2000 میں روسی آبدوزوں کی مدد سے ٹائٹینک جہاز کے ملبے تک جانا شروع کیا تھا۔
روب میک کیلم نے اس مشن کے آغاز سے قبل ہی ’اوشن گیٹ‘ کے بارے میں تحفظات کا اظہار کرنا شروع کر دیا تھا۔
روب میک کیلم نے گارڈین کو بتایا کہ ’کبھی کبھار آبدوز کی رفتار کم کرنے کے لیے وزن گھٹایا جاتا ہے اور کبھی اوپر کی جانب چڑھنے کے لیے کافی زیادہ وزن کم کرنا پڑتا ہے۔‘
’اب آپ کو یہ جاننے کے لیے ڈائیو لاگ کو پڑھنا ہو گا کہ تباہی سے قبل آبدوز کا وزن کیوں کم کیا جا رہا تھا۔‘
انہوں نے کہا کہ یہ آبدوز ’بالکل اسی جگہ پر تھی جہاں اسے ہونا چاہیے تھا‘ اور یہ کہ اسے پھٹنے میں محض مِلی سیکنڈ کا وقت لگا۔
آبدوزوں میں ’فلائٹ ڈیٹا ریکارڈر نہیں ہوتا ہے، اس لیے آپ آبدوز اور اوپر والے جہاز کے درمیان رابطے پر انحصار کرتے ہیں۔ جب تک کہ لاگ آبدوز سے کوئی تشویش ظاہر نہ کرے، تب تک ہمیں پتا نہیں چلے گا۔‘

’اوشن گیٹ نے وارننگز پر توجہ نہیں دی‘

دوسری جانب معروف امریکی اخبار ’نیو یارکر‘ نے بھی یکم جولائی کو ایک طویل مضمون میں میک کیلم اور دیگر ماہرین کی اوشن گیٹ کی کشتیوں اور آبدوزوں کے بارے میں خبردار کرنے کی کوششوں کا ذکر کیا ہے۔
حکومتی اہلکاروں اور اوشن گیٹ نے ان انتباہات پر زیادہ توجہ نہیں دی۔
نیو یارکر کے مطابق اوشن گیٹ کمپنی کے شریک بانی سٹوکٹن رش نے روب میک کیلم سے بھی رابطہ کیا تھا۔
میک کیلم نے نیو یارکر کو بتایا کہ ’وہ چاہتے تھے کہٖ ان کے لیے یہ ٹائٹینک آپریشن کروں۔ اس وقت میں واحد شخص تھا جسے وہ ٹائٹینک تک کمرشل مہمات کے حوالے سے جانتے تھے۔ سٹوکٹن رش کا منصوبہ ایک قدم آگے جا کر اس مہم کے لیے ایک خاص سواری بنانے کا منصوبہ تھا۔‘
میک کیلم نے بتایا کہ انہوں نے مارکیٹنگ اور لاجسٹک سے متعلق کچھ تراکیب رش کو بتائیں اور اوشن گیٹ کی ورک شاپ میں بھی گئے تاکہ وہ اوشن گیٹ کی آبدوز سائیکلوپس ون کو دیکھیں جو 15 ہزار فٹ زیرآب جانے کے لیے تیار کی گئی تھی۔‘

’سائیکلوپس ٹو کو بعد میں ’ٹائٹن‘ کا نام دیا گیا‘

جریدے نیو یارکر کے مطابق سٹوکٹن رش اس مہم کے لیے سائیکلوپس ون آبدوز کے ڈیزائن کے زیادہ تر حصے کو استعمال کرنا چاہتے ہیں۔ جریدے کے مطابق اسی سائیکلوپس ٹو کو بعد میں ’ٹائٹن‘ کا نام دیا گیا۔
میک کیلم روب نے کہا کہ ’اس آبدوز میں حفاظتی فیچرز کی کمی تھی۔‘
انہوں نے نیو یارکر کو بتایا کہ ’ناکامی کے کئی پہلو تھے بشمول اس کے کہ اس میں بلیوٹوتھ سسٹم استعمال کیا گیا حالانکہ ہر آبدوز کو ہارڈ وائرڈ سسٹم سے کنٹرول کیا جاتا ہے تاکہ آپ سگنل غائب ہو جانے کی وجہ سے مارے نہ جائیں۔ سائیکلوپس کی ایک ٹیسٹ ڈائیو کے دوران میں پھنس گیا تھا۔‘
میک کیلم نے اس مہم کا حصہ نہ بننے کا فیصلہ کیا۔ انہوں نے گارڈین کو بتایا کہ یہ فیصلہ مختلف قسم کے حفاظتی خدشات کی وجہ سے ہوا جن میں یہ بھی شامل ہے کہ آبدوز کی لانچنگ کا طریقہ کار بڑے جہاز کے بجائے ایک کشتی کی طرح تھا۔

’میں ایسی تنقید کو اپنی ذات کی تذلیل سمجھتا ہوں۔‘

سنہ 2018 میں میک کیلم کی جانب سے حفاطتی خدشات پر مبنی ایک میل کو اوشن گیٹ کے شریک بانی سٹوکٹن رش نے اپنی ذات پر تنقید کے طور پر لیا تھا اور اصرار کیا تھا کہ وہ کچھ نیا کرنا چاہتے ہیں۔
رش نے دعویٰ کیا تھا کہ ٹائٹن اور اس کا حفاظتی نظام اس وقت استعمال ہونے والی کسی بھی چیز سے کہیں جدید ہے۔‘
سٹوکٹن رش نے اپنی جوابی ای میل میں کہا تھا کہ ’ہم انڈسٹری کے کھلاڑیوں کی حفاظتی نظام سے متعلق تنقید سن سن کر تھک گئے ہیں اور یہ نئی اختراعات کو روکنا چاہتے ہیں۔‘
’جب سے گوئیلیرومو اور میں اوشن گیٹ شروع کی ہے ہم یہی بے بنیاد چیخ و پکار سن رہے ہیں کہ ’تم کسی کو مارنے والے ہو۔‘
رش نے کہا کہ ’میں ایسی تنقید کو سنجیدگی سے اپنی ذات کی تذلیل سمجھتا ہوں۔‘
اوشن گیٹ کی آبدوز سائیکلوپس ون میں میکل کیلم کے ساتھ ٹیسٹ ڈائیو پر جانے والے پائلٹ ڈیوڈ لاچرِج کو بعد میں کمپنی نے نوکری سے برطرف کر دیا تھا۔ ان کے اور میک کیلم کے درمیان بھی آبدوز کے حفاظتی فیچرز سے متعلق خدشات پر مبنی کئی ای میلز کا تبادلہ ہوا۔
گارڈین کے مطابق سٹوکٹن رش کے ایک دوست کارل سٹینلے نے بھی انہیں آبدوز کے ناقص سیفٹی سسٹم کے بارے میں خبردار کیا تھا۔

شیئر: