Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

زرعی انقلاب کے منصوبے ’گرین پاکستان اینیشیٹو‘ پر کتنا عمل درآمد ممکن ہے؟

سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا ’گرین پاکستان انیشیٹو ‘ پایہ تکمیل تک پہنچے گا اور اپنے مقاصد حاصل کر سکے گا؟ (فوٹو: اے پی پی)
پاکستان کی وفاقی حکومت اور فوج کے تعاون سے ملک میں زرعی انقلاب لانے کے لیے ایک بڑے منصوبے ’گرین پاکستان انیشیٹو‘ کا اعلان کیا گیا ہے جس کے تحت زراعت میں غیر ملکی سرمایہ کاری لائی جائے گی، زیر تعمیر نہروں کو مکمل کیا جائے گا، ہائبرڈ بیجوں کی پیداوار میں اضافہ کیا جائے گا، جدید آبپاشی کے منصوبوں، ٹیکنالوجی اور شمسی اور ہوائی توانائی کے استعمال سے زرعی پیداوار میں اضافہ کیا جائے گا۔ 
اس کے علاوہ سیلابی پانی کو بھی نہروں کے ذریعے استعمال کرنے کے لیے کام کیا جائے گا۔ 
یہ پہلی مرتبہ نہیں ہے کہ حکومتی سطح پر زراعت میں انقلاب لانے کے پروگرام کا اعلان کیا گیا ہو۔ ماضی میں بھی متعدد حکومتوں کی جانب سے اس طرح کے منصوبے متعارف کروائے جاتے رہے ہیں۔ 
ایسے میں سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا ’گرین پاکستان انیشیٹو ‘ پایہ تکمیل تک پہنچے گا اور اپنے مقاصد حاصل کر سکے گا؟ 
حقیقی زرعی انقلاب یا انتخابی دعوٰی 
مظہر گردیزی ٹاٹے پور، تحصیل ملتان صدر میں ایک وسیع رقبے پر متعدد اجناس کاشت کرتے ہیں جن میں سر فہرست گندم، مکئی، آلو، آم اور دیگر نقد آمدن فراہم کرنے والی فصلیں شامل ہیں۔ 
 وہ زراعت میں آنے سے پہلے ایک بینکار تھے اور 1982 میں انہوں نے ذاتی شوق کی خاطر ایک بڑے بینک کے مینیجر کی پوزیشن سے مستعفی ہو کر زراعت شروع کی تھی۔ اس کے بعد سے وہ کئی حکومتوں کے متعدد ایسے منصوبے دیکھ چکے ہیں جن پر عملدرآمد ہونے کی صورت میں پاکستان میں زرعی خود مختاری اور خوشحالی کے دعوے کیے گیے تھے۔ 
وہ اس پروگرام کے بارے میں بات کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ اگر عزم ہو تو پاکستان میں زرعی انقلاب لانا ممکن ہے، لیکن ماضی میں ایسے کئی منصوبے بیوروکریسی کی عدم دلچسپی اور مافیاز کے منفی کردار کی نذر ہو چکے ہیں اور اب تک کی صورتحال کے مطابق بظاہر یہ منصوبہ بھی ایک انتخابی نعرہ ہی لگتا ہے۔ 
پانی کی فراہمی ایک بڑا مسئلہ 
مظہر گردیزی کی نظر میں اس منصوبے کی تکمیل میں بھی کئی چیلینجز درپیش ہیں اور زمینی سطح پر اس کے ثمرات کا فائدہ اٹھانے کے لیے ابھی مزید تحقیق کی ضرورت پڑے گی۔ 
وہ کہتے ہیں کہ ’پانی کی فراہمی ایک بڑا مسئلہ ہے۔ زیر زمین پانی کی سطح بہت نیچے ہے۔ ڈرپ اریگیشن نظام کافی مہنگا پڑتا ہے، اس منصوبے کے تحت سولر سسٹم کے تحت پانی فراہم کرنے کی بات کی جا رہی ہے، لیکن یہ بھی ملک کے جنوبی حصوں میں مکمل اور بآسانی قابل عمل نہیں ہے۔‘

مظہر گردیزی کے مطابق اس منصوبے پر سو فیصد عملدرآمد کے لیے ملک میں پھیلے ہوئے مافیاز کا قلع قمع کرنا بھی ضروری ہے (فوٹو: اے ایف پی)

’زمینوں کے ایک مناسب قطعے کو سیراب کرنے کے لیے درکار شمسی توانائی کے نظام پر تقریباً 36 لاکھ روپے خرچ آتا ہے، لیکن یہ سردیوں کے مہینوں میں اتنا سود مند نہیں ہے۔ سردیوں میں سورج کم وقت کے لیے نکلتا ہے اور تقریباً چار گھنٹوں کی توانائی کے ذریعے وسیع زمینوں کو سیراب کرنا ممکن نہیں ہے۔‘ 
گرین انیشیٹو مافیاز سے کیسے نمٹے گا؟ 
مظہر گردیزی کے مطابق اس منصوبے پر سو فیصد عملدرآمد کے لیے ملک میں پھیلے ہوئے مافیاز کا قلع قمع کرنا بھی ضروری ہے۔ 
’حکومت نے کسانوں کے لیے کھاد پر سبسڈی دے رکھی ہے جس کے حصول کا طریقہ یہ ہے کہ آپ کھاد کی بوری پر لگے کوپن دکھا کر اس پر دی گئی سبسڈی حاصل کر سکتے ہیں۔ لیکن ہم جب یہ سبسڈی لینے جاتے ہیں تو وہاں بیٹھے مافیا کہتے ہیں کہ آپ آدھے پیسے ہمیں دیں گے تبھی آپ کو سبسڈی ملے گی۔‘ 
ان کے مطابق ’کھاد اس لیے بھی مہنگی ہے کہ پہلے تو پاکستان میں بنتی ہی کم ہے اور جو بنتی ہے اس کی بڑی مقدار افغانستان سمگل ہو جاتی ہے۔ اس منصوبے میں کھاد کی فراہمی اور اس کی قیمتیں کم کرنے کے بارے میں ابھی تک کسی حکمت عملی کا نہیں بتایا گیا۔‘ 
’زرعی اجناس کی قیمتوں کو کم رکھنے کے لیے بھی مافیاز سرگرم ہیں۔ حکومت نے کپاس کی کاشت کو فروغ دینے کے لیے امدادی قیمت 85 سو روپے مقرر کی ہے، لیکن مارکیٹ میں اس کی زیادہ سے زیادہ قیمت 75 سو روپے مل رہی ہے۔ اسی طرح مکئی کی بھی مناسب قیمت نہیں مل رہی، اور حکومت اس مسئلے سے نمٹنے کے لیے کچھ نہیں کر رہی۔‘  
مظہر گردیزی سمجھتے ہیں کہ ’گرین انیشیٹو‘ کو کامیاب بنانے کے لیے مافیاز کے خاتمے کے ساتھ ساتھ بیجوں، فصلوں کی پیداوار میں اضافے کے لیے کھاد اور ادویات اور کیڑے مارنے والے کیمیائی مواد کی سستی اور وافر فراہمی انتہائی ضروری ہے۔ 
’پاکستان میں کوئی زرعی دوا نہیں بنتی، انڈیا کئی میں خود کفیل ہے‘ 
تاہم فصلوں کی پیداوار میں بہتری کے لیے فراہم کی جانے والی ادویات  کے نظام کا وسیع تجربہ رکھنے والے اختر علی تارڑ کا خیال ہے کہ ان ادویات اور کیمیائی مادوں کی زیادہ قیمتوں کے باعث فصلوں کی پیداوار مہنگی ہے اور حکومت اگر واقعی زراعت کے فروغ میں سنجیدہ ہے تو اسے ملک میں زرعی ادویات کی تیاری اور ان پر ٹیکس کے خاتمے کے لیے کام کرنا چاہیے۔

اختر تارڑ کے خیال میں پاکستان کی زراعت کی پستی کی ایک بڑی وجہ حکومتوں کے منصوبوں میں تسلسل نہ ہونا ہے (فوٹو: اے ایف پی)

’پاکستان میں کوئی کیمیکل یا دوائی نہیں بنتی، جبکہ انڈیا میں کئی ادویات تیار ہوتی ہیں۔ ہماری حکومت اگر ٹیکس ہی ختم کر دے تو ان ادویات کی قیمت 30 فیصد تک کم ہو جائے گی جس کے بعد پیداوار میں کئی گنا اضافہ ہو گا۔‘ 
تسلسل کا فقدان 
اختر تارڑ کے خیال میں پاکستان کی زراعت کی پستی کی ایک بڑی وجہ حکومتوں کے منصوبوں میں تسلسل نہ ہونا ہے اور اگر اس منصوبے پر کامیابی سے عملدرآمد کروا لیا گیا تو پھر واقعی بہت بڑا فرق پڑے گا۔ 
’پرویز مشرف کے دور حکومت میں گریٹر تھل کینال اور دوسرے نہری نظاموں کا منصوبہ آیا تھا، لیکن بعد میں آنے والی حکومتوں نے اس کو آگے نہیں بڑھایا۔ بھل صفائی پروگرام پر بھی مکمل طریقے سے عملدرآمد نہیں ہوا۔‘ 
بنجر زمینوں پر کاشت بڑا قدم 
اختر تارڑ کے مطابق بنجر زمینوں کو قابل کاشت بنانا درحقیقت ایک بہت بڑا قدم ہے اور اگر ایسا ممکن ہو گیا تو پاکستان کی پیداوار میں بڑا اضافہ ہو گا۔ لیکن ابھی تک کوئی حکومت ایسا نہیں کر سکی کیونکہ ان کی توجہ اس طرف ہے ہی نہیں۔  
گرین ایشیٹو کی کامیابی کی ضمانت فوج کا کردار ہے 
تاہم کارپوریٹ فارمنگ کے ماہر نصیر اللہ خان کا ماننا ہے کہ اس منصوبے کی کامیابی کی ضمانت اس میں پاکستانی فوج کا اشتراک ہے۔ 
اردو نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ جب بھی پاکستان میں فوج نے کوئی فیصلہ کیا ہے تو انہوں نے مسائل کا حل دیا ہے اور اس مرتبہ بھی ایسا ہی ہو گا۔ 

نصیراللہ خان کے مطابق پاکستان کے زرعی شعبے میں 30 ارب ڈالر پیداوار کی قوت ہے (فوٹو: اے ایف پی)

نصیراللہ خان کے مطابق پاکستان کے زرعی شعبے میں 30 ارب ڈالر پیداوار کی قوت ہے اور غیر ملکی سرمایہ کاری کے ذریعے آنے والی بڑی مشینری، بیج اور ٹیکنالوجی کے ذریعے یہ ہدف جلد حاصل کیا جا سکتا ہے۔ 
’زراعت ایسا شعبہ ہے جس میں آپ محض چھے ماہ میں پیداوار حاصل کر سکتے ہیں۔ ہم آج بیج بو کر چھے ماہ بعد منافع کما سکتے ہیں۔ اگر عزم ہو تو پھر کوئی رکاوٹ نہیں ہے۔‘ 
چینی سرمایہ کاروں نے پاکستانی زمینیں حاصل کرنا شروع کر دیں 
مظہر گردیزی نے اردو نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ حکومتی منصوبے کے اجرا سے پہلے ہی چینی سرمایہ کار پاکستان میں زراعت کے لیے لیز پر زمینیں حاصل کر رہے ہیں اور اس میں اضافے کا امکان ہے۔ 
’میرے علاقے میں ایک ایکڑ ایک سال کے لیے ایک لاکھ 30 ہزار روپے کے قریب لیز پر لیا جا رہا ہے اور آنے والے دنوں میں اس میں اضافہ ہو سکتا ہے۔‘ 

شیئر: