حکمراں اتحاد کو بھی زیادہ مسئلہ ٹی وی چینلز سے ہے: ماریہ میمن کا کالم
حکمراں اتحاد کو بھی زیادہ مسئلہ ٹی وی چینلز سے ہے: ماریہ میمن کا کالم
پیر 24 جولائی 2023 9:12
ماریہ میمن
موجودہ حکومت کے مختصر دور میں پیمرا کا ترمیمی بل بھی منظور ہوا۔ فائل فوٹو: اے ایف پی
موجودہ حکومت کے مختصر دور کے بالکل آخری ہفتے چل رہے ہیں اور اس میں لگاتار اور تابڑتوڑ اقدامات کیے جا رہے ہیں۔ ترقیاتی منصوبوں کی برسات ایک طرف ہے تو دوسری طرف دھڑا دھڑ قوانین بھی بنائے جا رہے ہیں۔
پیمرا کا ترمیمی بل بھی ایسے ہی نئے مجوزہ قوانین میں سے ایک ہے جو یک دم کہیں سے نمودار ہوا ہے اور دنوں کے حساب سے کمیٹیوں سے نکلتا ہوا اب قانون بننے کے آخری مراحل میں ہے۔
جو اسمبلی اور حکومت اپنے آخری ہفتے بلکہ آخری دن پورے کر رہی ہو اس کے سامنے نگران حکومت کا قیام، الیکشن کی تیاری اور ملک میں امن و امان کے معاملات ہونے چاہییں تھے چہ جائیکہ اس کو دلچسپی ہو کہ ٹی وی چینلز پہ چلنے والی خبروں پر مزید کیا کارروائی کی جائے۔
وہ حکومت جو کہ مشکل سے آئی ایم ایف کی ڈیل حاصل کر سکی ہو، جس نے تازہ تازہ بجلی کی قیمت بڑھائی ہو اور جس کے سامنے ملک میں تیل کی سپلائی کے مسائل چل رہے ہوں اس کی ترجیح ٹی وی پر چلنے والی خبروں کو ہی کنٹرول کرنا رہ گیا۔
دوسری طرف یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ اس قانون کی ٹائمنگ کافی سوچ سمجھ کر رکھی گئی ہے۔
الیکشن کی آمد آمد ہے اور کسی بھی حکومت کی طرح اور اس فہرست سے کوئی بھی حکومت مبرا نہیں، حکمران اتحاد کو بھی سب سے زیادہ مسئلہ ٹی وی چینلز سے ہی ہے۔ انتخاب میں بھی ان کا فوکس ٹی وی چینل ہی ہوں گے۔
جس طرح کی نگران حکومت کی تشکیل کا ذکر ہو رہا ہے اس کے بعد قوی امید یہی ہے نگران حکومت بھی اسی سیٹ اپ کا تسلسل ہو گا۔ ایسے وقت میں چینلز کا کچھ نہ کچھ انتظام تو ضروری تھا اس لیے یہ قانون فوری طور پاس کرانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔
پی ڈی ایم کی حکومت کے جمہوری اور آئینی رویوں پر سوالیہ نشان تو بہت سارے تھے، اس قانون کے ساتھ ان میں ایک اور اہم نشان کا اضافہ ہو گیا۔ جمہوریت کی علمبردار روایتی سیاسی جماعتیں صحافتی اور رائے کی آزادی کی دعوے دار بھی تھیں مگر اب ان دعوں کا دور دور تک کچھ پتہ نہیں چل رہا۔
پیپلز پارٹی کا کردار سب سےمایوس کن رہا ہے۔
ایک وقت تھا کہ پیپلز پارٹی کے اپنے لوگ اپنی ہی حکومت سے صحافت کے خلاف اقدامات پر علیحدہ ہوتے رہے ہیں اور اب یہ وقت ہے کہ حکومت کا حصہ ہوتے ہوئے دم سادھ کے بیٹھے ہیں۔ یا پھر شاید یہ کہنا بھی حسن ظن ہی شمار ہو گا ورنہ واضح طور پر وہ ان تمام اقدمات میں بھرپور طریقے سے برابر کے شریک ہیں۔
یہ جماعتیں جانتے بوجھتے ہوئے بھی یہ فراموش کر چکی ہیں کہ اقتدار کا پہیہ دوسری طرف بھی گھومے گا اور پھر ان کو اظہار رائے کی آزادی کی اہمیت دوبارہ یاد آئے گی۔
وزارت اطلاعات کی طرف سے اس قانون کا حسب روایت جذباتی دفاع بھی جاری ہے باوجود اس کے کہ صحافتی تنظیموں، سینیئر صحافیوں اور انسانی حقوق کی تنظیموں کی طرف سے اس قانون پر شدید تحفظات کا اظہار بھی کیا گیا ہے۔
تمام سنجیدہ طبقات کی طرف سے اس قانون کے misuse کیے جانے کو نوشتۂ دیوار بتایا جا رہا ہے۔ قانون دانوں کی طرف سے بھی مس انفارمیشن اور ڈس انفارمیشن کے درمیان فرق کا تعین کرنے میں مشکلات کی طرف اشارہ کیا گیا ہے۔
مجوزہ قانون انتظامی ادارے یعنی پیمرا کو صحافیوں کے الفاظ میں ان کی نیت کے تعین کا بھی غیر عملی اختیار دیتا ہے اور جرمانے کی رقم کو بغیر کسی صائب وجہ کے بڑھاتے ہوئے کہیں کا کہیں لے گیا ہے۔
قانون کوئی بھی مکمل نہیں ہوتا اور ہر سسٹم میں بہتری کی گنجائش ہوتی ہے مگر ترامیم کا کوئی وقت اور کوئی طریقہ ہوتا ہے۔ اگر کسی خبر سے کسی فرد کو کوئی اعتراض ہےتو اس کا حل موثر اور بر وقت عدالتی نظام میں ہے نا کہ انتظامی اداروں کو اختیارات دے کر ان کو مزید طاقتور کرنے میں۔
دوسرا اہم پہلو اس قانون میں جلد بازی سے متعلق ہے۔ مثبت اور موضوع تبدیلی کے لیے سب سے ضرروی ہے کہ اس میں پیشہ ورانہ اور قانونی رائے بھی شامل ہو۔ اس کا ایک موزوں طریقہ یہ ہو سکتا ہے کہ کسی غیر جانبدار اور تجربہ کار شخصیت کی زیر نگرانی ایک کمیشن یا کمیٹی تشکیل دی جاۓ جو تمام فریقین سے رائے لے کر اپنی سفارشات پیش کرے اور اس میں جلد بازی سے بھی پرہیز کیا جائے۔
یہ سب کچھ مگر اسی صورت میں ممکن ہے کہ اگر قانون لانے والے اپنے سیاسی مفاد کے بجائے آزادی رائے کے ساتھ کمٹمنٹ رکھتے ہوں۔