Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

کالام کے ’پہاڑوں کا شہزادہ‘ جس کی لاش تین دن بعد ملی

انعام منیر سوات یونیورسٹی کے گولڈ میڈلسٹ تھے۔ (فوٹو: اردو نیوز)
پہاڑ سر کرنا اس کا جنون تھا، ایک ایسا جنون جس کے لیے وہ کوئی بھی قیمت ادا کرنے پر تیار تھا۔ وہ پہاڑوں میں زندگی کے مختلف رنگ تلاش کیا کرتا تھا لیکن ’پہاڑوں کے شہزادے‘ کے نام سے مشہور مہم جو انعام منیر کے لیے یہ جنون ایک دن ان کی موت بن جائے گا، یہ کسی نے نہیں سوچا تھا۔
27 جولائی کو جب چھٹیاں ہوئیں تو انعام منیر نے ہمیشہ کی طرح اپنے ساتھیوں کے ساتھ کالام کے پہاڑی سلسلے گودر پاس میں پہاڑوں کے مناظر کو قریب سے محسوس کرنے کا فیصلہ کیا لیکن انہیں کیا معلوم تھا کہ یہ مہم جوئی ان کی اپنی سانسیں چھین لے گی۔
کالام میں گودر پاس کے برفانی پہاڑی سلسلے کی ٹریکنگ پر جانے والے انعام منیر ایک سکول ٹیچر تھے جنہوں نے یونیورسٹی آف سوات سے عمرانیات میں ایم فل کی ڈگری حاصل کر رکھی تھی۔ وہ گولڈ میڈلسٹ ہونے کے علاوہ ایک بہترین شاعر بھی تھے۔
سوات ٹریکنگ کلب کے ایک رُکن نے اردو نیوز کو بتایا کہ ’انعام منیر پہاڑوں کا شہزادہ تھا۔ اسے چھٹیوں میں پہاڑوں پر جانے کا شوق تھا۔‘
ٹریکنگ کلب کے ایک اور رُکن نے بلند و بالا پہاڑی سلسلوں میں انعام منیر کی مہم جوئی کی کہانی سناتے ہوئے کہا کہ ’انعام سوات سے اپنے ساتھیوں کو لے کر کالام کے پہاڑی علاقے دیسان بانڈہ کے ذریعے گودر پاس کے لیے روانہ ہوا تھا۔ انعام منیر اپنے ساتھیوں کے ساتھ گودر بانڈہ پہنچ گیا لیکن وہاں ایک رات گزارنے کے بعد اس کی طبیعت خراب ہونے لگی اور دس بجے تک وہ اپنے ٹینٹ میں بیمار پڑا رہا۔‘   
انعام منیر کے ساتھ ٹریکنگ پر جانے والے لیاقت علی خاوری نے بتایا کہ ’انعام کی طبعیت جب ٹھیک ہوئی تو اس نے چڑھائی جاری رکھنے کے لیے کہا۔ ہم نے چڑھائی شروع کر دی لیکن انعام کی طبیعت پھر خراب ہو نے لگی۔‘
لیاقت علی خاوری کے مطابق ‘انہوں نے انعام کی خراب صحت کو دیکھتے ہوئے اس سے بیگ پکڑا اور اس کا ہاتھ تھام کر چڑھائی جاری رکھی۔ اس دوران اچانک موسم خراب ہو گیا۔ شدید بارش ہونے لگی۔ ہم ٹریکرز دو گروپس میں تقسیم ہو گئے۔‘

انعام منیر کے ساتھ جانے والے دوستوں کو پولیس نے گرفتار کیا ہے۔ (فوٹو: اردو نیوز)

لیاقت علی خاوری نے بتایا کہ ’ثاقب نثار اور انعام منیر پیچھے رہ گئے جب کہ وہ اپنے ساتھیوں کے ساتھ آگے بڑھتے گئے۔
سوات ٹریکنگ کلب کے مطابق ’ثاقب نثار ان کو اوپر سے اشارہ کر رہے تھے کہ میں کنڈول میں دو جھیلیں دیکھنے جا رہا ہوں۔ آپ میرے پیچھے آتے جاؤ، وہ بتاتے ہیں کہ یہ ایک ایسا علاقہ ہے جہاں موسم دیکھتے ہی دیکھتے تبدیل ہو جاتا ہے اور کئی میٹر تک آگے کچھ دکھائی نہیں دیتا۔‘
’جب انعام کا ساتھی اوپر گیا تو انعام نیچے اسی مقام پر ٹھہر گیا۔ اتنے میں وہ بے چین ہو گیا اور محفوظ مقام پر جانے کی کوشش کرتا رہا نتیجتاً گودر پاس کے قریب ایک گلیشیئر کے قریب اپنا ٹینٹ نصب کر کے فون چارج کرنے لگا۔ اس نے سوچا ہوگا کہ شاید سارے لوگ اس طرف گئے ہوں گے تو واپسی بھی یہیں سے آئیں گے۔ لیکن پھر معلوم نہیں ساری رات اس کے ساتھ کیا ہوا اور وہ کس طرح زندگی اور موت کی جنگ لڑتا رہا۔
وہ بتاتے ہیں کہ ’جہاں یہ سارے لوگ ٹریکنگ پر گئے تھے وہاں نیٹ ورک بالکل کام نہیں کرتا، اس لیے دوسرے دن وہ جب نیچے اترے تو اس گروپ میں انعام منیر شامل نہیں تھا۔ انہوں نے پھر سوات اور قریبی ٹریکنگ کمیونٹی کو واقعہ سے متعلق آگاہ کیا تو سوات اور کالام سے مختلف ٹیمیں انعام منیر کی تلاش میں نکل پڑیں۔‘
تین روز بعد دو اگست کو دن کے 12 بجے انعام منیر کی لاش پہاڑوں میں پڑی ملی۔
کالام سے پولیس اور ریسکیو ٹیمیں دسیان پہنچیں۔ وہاں سے انعام کی لاش کو واپس لانے میں بہت دشواری پیش آئی۔
کالام ہسپتال میں اس کا پوسٹ مارٹم کیا گیا جبکہ صبح 11 بجے انعام کا جنازہ پڑھا گیا۔

تین روز بعد 2 جولائی کو انعام منیر کی لاش پہاڑوں سے ملی۔ (فوٹو: اردو نیوز)

انعام منیر نے 135 کے قریب پہاڑ سر کیے۔ وہ اپنے ہر سفر کا احوال اپنے فیس بُک پیج اور پروفائل پر ٹریول ڈائری کی صورت میں لکھا کرتے تھے اور اسی کے ساتھ ہی یوٹیوب پر وی لاگز بھی اپلوڈ کرتے تھے۔
انعام منیر کی بے وقت موت کے حوالے سے مقدمہ درج کیا جا چکا ہے اور ان کے ساتھ مہم جوئی پر جانے والے دیگر ساتھیوں کو گرفتار کیا گیا ہے۔ 
اُردو نیوز نے اس حوالے سے پولیس کا موقف جاننے کی کوشش کی لیکن رابطہ نہیں ہو سکا۔

شیئر: