Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

دیر کے مشہور سیاحتی مقامات، ’محبت بیان کرنا محال‘

’ہم لاہور سے دیر گئے تھے، دیر کے لوگ اس قدر مہمان نواز ہیں کہ  ہمارے پہنچنے پر ہمیں خوبانی، آڑو اور اخروٹ پیش کیے گئے، ہمارے ساتھ موجود خواتین کوتحائف بھی دیے۔ خواتین کے استعمال کی ایک خاص ٹوکری بھی ہمیں تحفے میں پیش کی گئی۔‘
لاہور سے خیبر پختونخوا کے ضلع دیر کی سیر پر جانے والے امجد حسین بخاری کے مطابق دیر کا علاقہ جتنا خوبصورت ہے وہاں کے لوگ اس سے کئی گنا زیاہ خوشدل اور مہمان نواز ہیں۔ 
دیر کا علاقہ ان دنوں فیس بک پر دیر کے نوجوان نصراللہ سے دوستی کر کے  پاکستان پہنچنے والی انجو نامی انڈین خاتون کے حوالے سے خبروں میں ہے۔ انجو ان دنوں دیر میں ہیں جہاں ان کا نصراللہ سے نکاح ہو گیا ہے اور اب ان کا نیا نام فاطمہ ہے۔
دیر کی خوبصورتی کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہے۔ موسم گرم ہو یا سرد، پاکستانیوں کے لیے عموماً سیر و سیاحت کے لیے دیر کا خوبصورت علاقہ بشمول کمراٹ  پہلا انتخاب ہوتا ہے۔
بے شمار آثار قدیمہ کے مقامات کے ساتھ قدرتی حسن کا امتزاج سیاحوں کی خصوصی توجہ کا مرکز رہتا ہے۔ یہاں کے عجائب گھر میں 22 سو سے زیادہ قدیم نمونے رکھے گئے ہیں جن میں گندھارا تہذیب کے 1444 نمونے شامل ہیں۔ ان نمونوں میں لارڈ بدھا کے مجسمے اور دو ہزار سال پرانے بدھ مت کے فن پارے بھی شامل ہیں۔
دیر کا تاریخی پس منظر
دیر کے رہائشی واجد علی نے اردو نیوز کو بتایا کہ ’1969 میں ریاست دیر کا  قبائلی ایجنسی کے طور پر پاکستان سے الحاق ہوا۔  1970 میں جب ملاکنڈ ڈویژن کا وجود سامنے آیا تو  اس ریاست کو ایک ضلع کا درجہ دیا گیا۔ 1996 میں انتظامی اور مرکزی دفاتر  تک رسائی کو آسان بنانے کے لیے اسے دو حصوں میں تقسیم کیا گیا۔‘
واجد علی کے مطابق تمام سرکاری دفاتر اور انتظامی عمارتیں  دیر پائین میں قائم تھے جس کے بعد  دیر کو دیر بالا اور دیر پائین میں تقسیم کیا گیا۔ دیر پائین کا ہیڈ کوارٹر بلامبٹ اور بڑا تجارتی شہر تیمر گرہ، جبکہ دیر اپر کا ہیڈ کوارٹر اور اہم تجارتی مرکز دیر ٹاؤن ہے۔
دیر بالا کے مشرق میں ضلع سوات، مغرب میں افغانستان کا صوبہ کُنار، شمال میں چترال اور جنوب میں ضلع لوئر دیر ہے۔ دیر کو افغانستان سے ملانے والا علاقہ شنگارا پاس کہلاتا ہے جبکہ چترال کے ساتھ اسے لواری پاس ملاتا ہے۔ 
دیر نام کی وجہ تسمیہ اور متفرق آراء
دیر نام کی وجہ تسمیہ سے متعلق مقامی سطح پر مختلف آراء پائی جاتی ہیں۔ کئی لوگوں کے مطابق دِیر ’دیر‘ سے نکلا ہے۔
اس حوالے سے دیر کے رہائشی واجد بتاتے ہیں کہ ’ایک وقت میں اسلام آباد اور پشاور سے ایک بس دیر کے لیے چلتی تھی، لیکن یہ بس ہمیشہ دیر یعنی تاخیر سے یہاں پہنچتی جس کی وجہ سے اس علاقے کا نام دیر پڑ گیا جو دھیرے دھیرے دِیر کی شکل اختیار کر گیا۔‘
کئی لوگوں کا یہ بھی کہنا ہے کہ دیر چونکہ تاریخی حوالوں سے کافی ذرخیز علاقہ رہا ہے تو یہاں ایک علمی اور معروف شخصیت کا  پتلا تھا جس کا نام دِیر ہونے کی بدولت اس پورے علاقے کا نام دیر پڑ گیا۔ کئی محققین  بتاتے ہیں کہ دِیر سنسکرت زبان کا لفظ ہے جس کا مطلب عبادت گاہ یا یا خانقاہ ہے۔
یہ علاقہ گندھارا تہذیب کے حوالوں سے بھی مشہور ہے جس کے ثبوت یہاں کے عجائب گھر میں موجود ہیں۔ اس وجہ سے اس نام کے لیے اس وجہ تسمیہ کو زیادہ اہمیت دی جاتی ہے۔ کچھ مقامی بزرگوں کے مطابق  دیر کا نام اصل میں دیر قصبہ کی وجہ سے پڑا۔ ’یہ قصبہ دیر ریاست کا دارلحکومت تھا جو آج بھی دیر بالا کا ضلعی ہیڈ کوارٹر ہے۔‘
دیر میں رہنے والے یوسفزئی قبائل ملیزی کہلاتے ہیں جو کہ ملے بابا کے چار بیٹوں سے منسوب ہیں۔ علاوہ ازیں دیر لوئیر اور دیر اپر کے نمایاں قبائل میں اتمان خیل، وردگ معیار، روغانی، گجر، سواتی، ترکلانی وغیرہ قابل ذکر ہیں۔ 

 تیمرگرہ سے آگے جاتے ہوئے سب سے پہلا خوبصورت مقام لڑم ٹاپ کا آتا ہے (فوٹو: اردو نیوز)

دیر کا آخری نواب
کتابوں میں والی دیر کے حوالے سے کئی کہانیاں ملتی ہیں۔ بتایا جاتا ہے کہ دیر کے آخری نواب شاہ جہاں ایک انتہائی ظالم شخص تھے۔ انہوں نے اپنی قوم کا جینا حرام کر رکھا تھا۔ مقامی رہائشی نے اردو نیوز کو بتایا کہ ’شاہ جہاں کچھ دنوں کے وقفے سے اپنے نوکر بجھوایا کرتا تھا اور ہر گھر سے گھی، مرغے اور لکڑیاں وغیرہ اپنے محل لانے کے احکامات جاری کرتا تھا۔‘
واجد علی کے مطابق ’نواب نہیں چاہتا تھا کہ دیر واسیوں کے ہاتھ میں قلم دکھے۔ تاہم آج دیر کے لوگ قدیم طرز زندگی کے بعد جدیدیت کو اپنا رہے ہیں جس کا انفراسٹرکچر، صحت، تعلیم اور سیاحت کی سہولیات ہر گزرتے دن کے ساتھ بہتر ہوتی جا رہی ہیں۔ آج یہاں کے لوگوں کو بہتر تعلیم سمیت صحت دیگر بنیادی سہولیات تک رسائی آسان ہے۔‘
دیر  کے مشہور اور کشھ غیر معروف سیاحتی مقامات
آج کل دیر کی سیاحتی اہمیت سے انکار ممکن نہیں۔ یہاں کے ابر آلود  پہاڑی سلسلے، خوبصورت قدرتی مناظر، خوشبو دار گلاب کے پھول، آثار قدیمہ کے خزانے، اور موسمی پھل سیاح اور فطرت سے محبت کرنے والوں کے لیے تسکین کا باعث ہیں۔
عطا اللہ ساگر طویل عرصہ سے دیر کے خوبصورتی پر کام کر ر ہے ہیں۔ انہوں نے دیر کے اکثر مقامات کو تصویری شکل میں محفوظ کر لیا ہے، جبکہ متعدد قومی اور بین الاقوامی سیاحوں کے ساتھ  مل کر سیر و تفریح کے دوران علاقے کی ترجمانی بھی کی ہے۔ انہوں نے اردو نیوز کے ساتھ  دیر کے خوبصورت سیاحتی مقامات، مسائل اور سہولیات کے حوالے سے گفتگو کی ہے۔
عطا اللہ بتاتے ہیں کہ سوات موٹر وے سے پُل چوکی پر جب آپ نیچے جائیں تو دیر سمیت چترال اور باجوڑ کے سیاحتی مقامات کی جانب یہی راستہ جاتا ہے۔ آگے کی جانب چکدرہ سے ہوتے ہوئے تیمرہ گرہ کا علاقہ آتا ہے جو چار اضلاع دیر بالا، دیر پائین، اپر اور لوئر چترال کا جنکشن ہے۔
عطا اللہ نے اردو نیوز کو معلومات فراہم کرتے ہوئے بتایا کہ تیمرہ گرہ میں متعدد ہوٹلز موجود ہیں جہاں اکثر سیاح قیام کرتے ہیں یا اگر گاڑی میں کوئی خرابی ہو تو اسی مقام پر ٹھہر کر ٹھیک کیا جاتا ہے۔ تیمرہ گرہ ایک ایسا مقام ہے جہاں سیاح اپنے اگلے سیاحتی مقام کا انتخاب کرتے ہیں۔ یہاں سے تقریبا 45 کلومیٹر آگے تک تمام سیاحتی مقامات موجود ہیں۔

دیر کی خوبصورت آبشاریں شاہ بن شاہی کے علاقے میں موجود ہیں (فوٹو: اردو نیوز)

عطا اللہ نے مختلف سیاحتی مقامات کا ذکر کرتے ہوئے بتایا کہ تیمرگرہ سے آگے جاتے ہوئے سب سے پہلا خوبصورت مقام لڑم ٹاپ کا آتا ہے جو آج کل سیاحوں کی توجہ کا مرکز بنا ہوا ہے۔ اس کے بعد شاہی بن شاہی آتا ہے جو دیر کے دونوں اضلاع کو آپس میں ملاتا ہے۔ یہ وہ مقام ہے جو خوبصورت ترین علاقہ ہونے کے ساتھ ساتھ ہر قسم سہولیات کا مرکز بھی ہے۔
انہوں نے کہا کہ شاہی بن شاہی میں ہوٹلز، مختلف پارکس، ریسٹ ہاؤسز سمیت ایک نیشنل گراؤنڈ بھی موجود ہے۔ شاہی بن شاہی ایک ایسا علاقہ ہے جہاں درجہ حرارت انسانی جسم کے درجہ حرارت کے عین مطابق ہوتا ہے۔ انسان کو یہاں گرمی محسوس ہوتی ہے اور نہ ہی  سردی لگتی ہے۔ برفباری کے دنوں میں یہاں لوگ سکیٹنگ کے لیے آتے ہیں۔
دیر کی خوبصورت آبشاریں اسی علاقے میں موجود ہیں جبکہ دیگر قدرتی مناظر سیاحوں کو اپنے سحر میں جھکڑ لیتے ہیں۔ عطا اللہ ساگر نے بتایا کہ اس علاقے میں پارکنگ کی سہولت بھی موجود ہے۔ یہاں کی سڑکیں ٹھیک ہیں، چھ سے سات کلو میٹر تک سڑک خراب ہے، تاہم اس سے آگے کا راستہ بالکل صاف ہے۔
شاہی بن شاہی سے نکلنے کے بعد خوبصورت موڑ آجاتے ہیں جہاں ہر موڑ پر دل چاہتا ہے کہ رک کر خوبصورت وادیوں سے محظوظ ہو لیں۔
اردو نیوز کو مقامی لوگوں نے بتایا کہ پنجاب سمیت پاکستان کے دیگر علاقوں سے لوگ شاہی بن شاہی کا انتخاب کرتے ہیں جبکہ اس کے بعد منڈا اور اس سے آگے براول چلے جاتے ہیں۔ 
دیگر سیاحتی مقامات میں مسکینی درہ، براول، کلپانی، میدان اور گنبت بانڈا مشہور ہیں۔ مسکینی وہ خوبصورت علاقہ ہے جہاں اکثر ٹک ٹاکر ویڈیوز بنانے کے لیے آتے ہیں۔

دیر کے لوگوں کا بنیادی ذریعہ معاش کھیتی باڑی اور زراعت ہے (فوٹو: اردو نیوز)

عطا اللہ نے کہا کہ اکثر قومی اور بین الاقوامی سیاح کمراٹ کا انتخاب کرتے ہیں جہاں صاف پانی کے ایسے حسین چشمے ہیں کہ انسان دیکھتا ہی رہ جاتا ہے۔ تاہم کمراٹ سے واپسی پر لوگوں کو معلوم ہوتا ہے کہ یہاں ایک ایسا مقام بھی ہے جو ابھی تک زیادہ توجہ حاصل نہیں کر پایا ہے۔ اپنی جمالیات کی تسکین کے لیے لوگ پھر اسی علاقے یعنی براول کی جانب رخ کرتے ہیں جو کہ نہایت ہی خوبصورت علاقہ ہے۔ لیکن اب تک کسی نے توجہ نہیں دی۔ 
ان کے مطابق ’اس کےعلاوہ علاقے کا سب سے بڑا اور مشہور دریا ’پنجکوڑہ‘ بھی سیاحتی اور تاریخی حیثیت رکھتا ہے۔ یہ ایک ایسا دریا ہے جو یہاں کے لوگوں کے لیے زندگی کی سی حیثیت رکھتا ہے۔ دیر اور کوہستان میں ہندو کش کے بلند و بالا پہاڑوں سے نکلنے والا یہ دریا جہاں پورے ضلع کی معیشت میں اہم کردار ادا کرتا ہے وہیں یہ گندھارا تہذیب کے حوالے سے بھی مشہور ہے۔
دیر کے لوگوں کا ذریعہ معاش
اردو نیوز نے مقامی سطح پر لوگوں کے بود باش اور مشہور سوغاتوں کے حوالے سے بھی سے دریافت کیا ہے۔ یہاں کے لوگوں کا بنیادی ذریعہ معاش کھیتی باڑی اور زراعت ہے، جبکہ گھریلو سطح پر دست کاری کا کام بھی کیا جاتا ہے۔
واجد علی نے کو بتایا کہ مقامی لوگ روایت پسند ہیں اور محنت مزدوری کرتے ہیں۔ زیادہ تر لوگ کھیتی باڑی کرتے ہیں جبکہ اکثر لوگوں نے مزدوری کی غرض سے سعودی عرب جیسے ملکوں کا رخ کیا ہوا ہے۔
مقامی سطح پر فن کاری اور دستکاری کی صنعت کو کافی اہمیت حاصل ہے۔ دیر کی مشہور ٹوپی کے بارے میں سب جانتے ہیں، وہ یہاں کے مقامی لوگ بناتے ہیں۔ اس کے علاوہ دیر کے چاقو دنیا بھر میں مشہور ہیں جو مقامی لوگ اپنے ہاتھوں سے تیار کرتے ہیں۔

دیر کی دستکاری کے ساتھ ساتھ یہاں کی مہمان نوازی اور مختلف سوغاتیں بھی مشہور ہیں (فوٹو: اردو نیوز)

واجد علی نے خیبر پختونخوا کے مشہور شاعر اباسین یوسفزئی کے شعر کا مفہوم بتاتے ہوئے کہا کہ ’اباسین صاحب فرماتے ہیں کہ جاپان سب کچھ کر سکتا ہے، لیکن دیر میں بننے والا چاقو نہیں بنا سکتا۔‘ دیر کی دستکاری کے ساتھ ساتھ یہاں کی مہمان نوازی اور سوغاتیں بھی مشہور ہیں۔ جاپانی پھل، خوبانی، اخروٹ، شاہ توت اور آڑو سمیت کئی دیگر پھل بھی اس علاقے میں پائے جاتے ہیں۔ 
دیر والوں کی مہمان نوازی
لاہور کی خاتون صحافی کومل اسلم نے دیر کے مقامی لوگوں کے رویے اور دیر میں اپنی سیر و تفریح  کا تجربہ بیان کرتے ہوئے اردو نیوز کو بتایا کہ انہوں نے وہاں ایک اپنائیت دیکھی ہے۔
’دیر میں ہمیں اس قدر محبت ملی کہ بیان کرنا محال ہے۔ وہاں کے لوگ نرم مزاج ہیں اور ان میں ایک  اپنائیت والا احساس بدرجہ اتم موجود تھا۔ دیر واسیوں میں مہمان نوازی کوٹ کوٹ کے بھری ہے۔ انہوں نے ہمارے ساتھ بیٹھ کر بات چیت کی، ان کی گفتگو کا انداز میں کبھی نہیں بھول سکتی، سب سے خاص بات یہ تھی کہ وہاں کے بچے بہت اچھے تھے جو ہر وقت ہماری مدد کے لیے تیار کھڑے ہوتے تھے۔
کومل اسلم کے مطابق دیر کے لوگ نسبتاً بہت خوش دکھائی دیتے ہیں۔

شیئر: