صبح کی ڈیوٹی سے پہلے جب کانسٹیبل حسن مختار اپنی پولیس یونیفارم پہنتے ہیں تو ان کے ذہن میں ایک ہی خیال ہوتا ہے کہ ’اگلی بار سکول کے بچوں کو کون سی نئی چیز سکھائی جائے؟‘
پنجاب کے ضلع خانیوال سے تعلق رکھنے والے 24 سال کے پولیس کانسٹیبل حسن مختار اپنے فرائض کے ساتھ ساتھ ایک مقامی سرکاری سکول میں بچوں کو سائنس بھی پڑھا رہے ہیں۔
مزید پڑھیں
رٹے کی بجائے سوچنے، سٹیج پر بولنے اور خود اعتمادی سِکھانے کے منفرد انداز نے نہ صرف بچوں کو نئی دنیا سے روشناس کرایا ہے بلکہ یہ بھی ثابت کیا ہے کہ ایک استاد کا اخلاص معاشرے کو بدلنے میں اہم کردار ادا کر سکتا ہے۔
حسن مختار کہتے ہیں کہ ’میں نے خود سکول میں وہ دن دیکھے ہیں جہاں بچوں کو جذباتی طور پر توڑا جاتا تھا۔ اب میری کوشش ہے کہ ہر بچہ اپنی آواز میں بات کرے، چاہے وہ آواز پہلی بار کانپتی ہی کیوں نہ ہو۔‘
’ان بچوں کو خود اعتماد بنانا میرا مشن ہے۔‘ اُن کے شاگرد آج کتابیں کھولنے کے ساتھ ساتھ اپنے اندر چُھپی ہوئی صلاحیتوں کے دروازے بھی کھول رہے ہیں۔
حسن مختار گذشتہ اڑھائی سال سے پولیس کے محکمے میں بطور کانسٹیبل خدمات انجام دے رہے ہیں، تاہم ان کا اصل جذبہ اور کام سرکاری سکول کے بچوں کو فارغ اوقات میں تعلیم دینا ہے۔
حسن مختار نے ڈگری کالج خانیوال سے بیچلرز کی ڈگری حاصل کر رکھی ہے۔ انہوں نے اردو نیوز کو بتایا کہ ان کے والد گورنمنٹ ماڈل ہائی سکول خانیوال میں اُستاد رہ چکے ہیں اور اب گورنمنٹ مڈل سکول بی 6 میں ہیڈ ماسٹر ہیں۔
حسن مختار نے بھی اپنی تعلیم سرکاری اداروں سے حاصل کی اور اسی تجربے نے انہیں سرکاری سکولوں کے بچوں پر توجہ مرکوز کرنے پر مجبور کیا۔
وہ کہتے ہیں کہ ’میں نے سکول اور کالج میں رٹے کے سوا کچھ نہیں دیکھا۔ بچوں پر تنقید کی جاتی ہے اور ان کا مذاق بنایا جاتا ہے جس سے وہ احساس کمتری کا شکار ہو جاتے ہیں۔ کتابوں کے مطالعے نے میری سوچ بدلی اور میں نے عہد کیا کہ ہر بچے کو خوداعتماد بناؤں گا۔‘

انہوں نے پہلے نجی سکولوں میں پڑھانا شروع کیا لیکن پھر زیادہ توجہ سرکاری سکول کے بچوں پر دینا شروع کی۔ حسن نے اپنے گھر کے قریب واقع سرکاری سکول میں بطور وزیٹنگ لیکچرار مفت تدریس کا آغاز کیا۔
حسن مختار بچوں کو سائنس پڑھاتے ہیں اور ہر سبق کے بعد انہیں سٹیج پر بلا کر کہتے ہیں کہ وہ اپنے ساتھیوں کو سمجھائیں۔
ان کے مطابق ’جو بچہ مڈل کلاسز میں سٹیج پر بولنا سیکھ جائے وہ زندگی میں کبھی پیچھے نہیں رہتا۔ یونیورسٹی سے لے کر عملی زندگی تک اس کی شخصیت نکھر جاتی ہے۔‘
یہ سلسلہ تین سال سے جاری ہے اور اب ان کے تمام طلبہ سٹیج پر پراعتماد طریقے سے بولنے لگے ہیں۔ کتاب مکمل ہونے پر وہ بچوں کی پانچ چھ ٹیمیں بنا کر سائنسی مقابلے کراتے ہیں جہاں بچے ایک دوسرے سے سوالات پوچھتے ہیں۔
حسن مختار بتاتے ہیں کہ وہ یہ سب کچھ اپنے فارغ اوقات میں کرتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ’میں جب لاہور میں ملازمت کرتا تھا تو ہر ماہ پانچ چھٹیاں ملتی تھیں۔ ان چھٹیوں میں گھر نہیں بیٹھتا تھا بلکہ سکول پڑھانے جاتا تھا۔‘

حسن مختار نے نظام تعلیم، پبلک سپیکنگ اور خود اعتمادی جیسے موضوعات پر مضامین بھی لکھے ہیں اور انہی موضوعات پر ہر وقت بچوں کو نئے انداز میں پڑھانے کے طریقے بھی ڈھونڈتے ہیں۔
انہوں نے ایک واقعہ بیان کیا کہ اویس نام کے ایک طالب علم سٹیج پر بولنے سے بہت ڈرتے تھے۔ شروع شروع میں وہ صرف دو لفظ بول پاتے تھے۔ میں نے انہیں سمجھایا اور بولنے کے گُر سکھائے۔
’جب اویس سیکھ گئے تو میں نے ان کی ایک ویڈیو بنائی جس میں وہ شاعری سنا رہے تھے۔ اس ویڈیو پر 30 لاکھ ویوز آئے۔ اس پر اویس کو سکول کی طرف سے انعام بھی دیا گیا اور اب انہیں سکول کا سٹار سمجھا جاتا ہے۔‘
حسن مختار کا کہنا ہے کہ اساتذہ اور والدین نے ان کے کام کو بہت سراہا ہے۔ والدین ان سے رابطہ کر کے اس بات پر خوشی کا اظہار کرتے ہیں کہ ان کے بچوں میں مثبت تبدیلی آرہی ہے۔
وزیر تعلیم پنجاب رانا سکندر حیات دو مرتبہ ان کی تحریروں کو اپنے سوشل میڈیا اکاؤنٹ پر شیئر کر چکے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ’جب وزیر تعلیم نے میری پوسٹ لگائی تو مجھے یقین ہو گیا کہ انسان اگر تخلیقی کام کرتا رہے تو اس کی آواز بہت دور تک پہنچ سکتی ہے۔‘