Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

بلوچستان: نواز شریف سے مفاہمت کی امیدیں کیا بار آور ثابت ہوسکتی ہیں؟

بلوچستان کے سخت گیر قوم پرست حلقے نیشنل پارٹی پر بلوچستان کی صورتحال پر سخت گیر مؤقف اپنانے کی بجائے مفاہمت کی کوششوں پر تنقید کررہے ہیں۔ (فوٹو: ن لیگ فیس بک)
بلوچستان ایک بار پھر سیاسی کشمکش اور بے یقینی کا مرکز بنا ہوا ہے۔ بلوچستان نیشنل پارٹی (بی این پی) کے سربراہ سردار اختر مینگل گذشتہ دو ہفتوں سے مستونگ میں دھرنا دیے بیٹھے ہیں۔ وہ ایک ہی مطالبے پر ڈٹے ہوئے ہیں کہ بلوچ یکجہتی کمیٹی(بی وائی سی ) کی سربراہ ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ سمیت دیگر گرفتار خواتین کو رہا کیا جائے۔ دوسری جانب حکومت بھی سخت موقف اپنائے ہوئے ہے اور تھری ایم پی او میں گرفتار ماہ رنگ بلوچ کو رہا کرنے پر آمادہ نظر نہیں آتی۔
اس صورتحال میں سیاسی درجہ حرارت مزید بڑھ گیا ہے، تاہم نیشنل پارٹی کی قیادت اس کشیدہ ماحول میں ثالثی کا کردار ادا کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔ نیشنل پارٹی کے سربراہ سابق وزیراعلیٰ بلوچستان ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ نے گذشتہ روز ن لیگ کے قائد اور سابق وزیراعظم میاں نواز شریف سے لاہور میں پارٹی رہنماؤں کے ہمراہ اہم ملاقات کی ہے اور ان سے بلوچستان کے معاملات میں مفاہمانہ کردار ادا کرنے کی درخواست کی ہے۔
تجزیہ کاروں کا ماننا ہے کہ نواز شریف کردار ادا کریں تو بلوچستان کے معاملات میں بہتری آسکتی ہے اور حکومت اور بی این پی کے سربراہ سردار اختر مینگل کے درمیان جاری سیاسی کشمکش کم ہوسکتی ہے۔
نیشنل پارٹی کے مرکزی سیکریٹری جنرل سینیٹر جان محمد بلیدی کے مطابق یہ ملاقات اگرچہ پہلے سے طے شدہ تھی تاہم اس میں ہم نے بلوچستان کی موجودہ گھمبیر صورتحال، نوجوانوں اور خواتین کی گرفتاریوں، اختر مینگل کے لانگ مارچ اور دھرنے کے پس منظر سمیت تمام حقائق نواز شریف کے سامنے رکھے۔
اردونیوز سے گفتگو میں انہوں نے بتایا کہ نواز شریف نے اس ملاقات کے دوران اپنی مرکزی ٹیم کو بھی شامل کیا جس میں سپیکر قومی اسمبلی، وفاقی وزرائے دفاع، منصوبہ بندی، قانون اور خواجہ سعد رفیق سمیت دیگر اہم شخصیات شریک تھیں۔
جان بلیدی کے مطابق وزیر اعظم کے سوا ن لیگ کی پوری مرکزی قیادت ملاقات میں موجود تھی جس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ نواز شریف نے اس ملاقات کو کتنی اہمیت دی۔
جان بلیدی کے مطابق ہم نے میاں نواز شریف کو بتایا کہ بلوچستان کو طاقت سے کنٹرول کرنے کی باتیں ٹھیک نہیں۔ اس سے صوبے کی صورتحال مزید گھمبیر ہوگی۔ ان کے بقول ’ہم نے کہا کہ بلوچستان میں قومی مفاہمت کی پالیسی اپنانی ہوگی، بات چیت کا دروازہ کھولنا ہوگا اور اس کے لیے درکار اعتماد سازی کے اقدامات کرنے ہوں گے۔‘
نیشنل پارٹی کے رہنما کے مطابق اس ملاقات کے دوران ہم نے بلوچستان میں روزگار، تعلیم، گورننس اور مجموعی سیاسی محرومی کے مسائل بھی تفصیل سے بیان کیے۔ تین گھنٹے پر محیط اس ملاقات میں بی وائی سی کی رہنما ماہ رنگ بلوچ سمیت دیگر خواتین اور نوجوانوں کی گرفتاریوں کی رہائی پر خاص طور پر زور دیا گیا تاکہ سردار اختر مینگل کا دھرنا ختم ہوسکے۔

شہزادہ ذوالفقار کے مطابق ماہ رنگ بلوچ کی گرفتاری کے خلاف دائر درخواست پر بلوچستان ہائی کورٹ عدالت نے فیصلہ محفوظ کر لیا ہے۔ (فوٹو: اے ایف پی)

جان بلیدی نے کہا کہ ’میں سمجھتا ہوں کہ سردار اختر مینگل مشکل میں پھنس گئے ہیں۔ حکومت بھی پیچھے ہٹنے کو تیار نہیں۔ اس طرح صورتحال گھمبیر ہوگئی ہے فریقین کو اپنے رویوں میں لچک لانا ہوگی۔‘
ان کا کہنا تھا ہم چاہتے ہیں کہ کوئی درمیانی راستہ نکلیں اس لیے میاں نواز شریف سے درخواست کی کہ وہ بلوچستان کا دورہ کرکے سیاسی مفاہمت کے لیے فضا ہموار کریں۔
ان کا کہنا ہے کہ ہم نے نواز شریف کے سامنے بات رکھ لی اب یہ ان پر منحصر ہے کہ وہ کس حد کردار ادا کرتے ہیں۔ ہمیں اندازہ ہے کہ نواز شریف اور ن لیگ کی بھی اپنی حدود ہیں وہ چیزوں کو اپنے انداز میں دیکھتے ہیں۔ ہم چونکہ متاثرین ہیں اس لیے ہماری کوشش ہے کہ معاملات کو جلد از جلد معمول پر لائے جائیں۔
سینیٹر جان بلیدی نے اس بات پر افسوس کا اظہار کیا کہ مفاہمت کی ان کوششوں کے دوران سردار اختر مینگل نے ن لیگ اور نیشنل پارٹی پر غیر مناسب تبصرہ کیا جبکہ پیپلزپارٹی کے وزرا نے بھی اس کا جواب جس طریقے سے دیا وہ درست نہیں۔ سب کو اپنا باہمی احترام ملحوظ خاطر رکھنا ہوگا۔
 ان کا کہنا تھا کہ ’ہم ایک جمہوری سیاسی جماعت ہیں اور ہمیشہ سے مسائل کا حل سیاسی اور جمہوری طریقے سے نکالنے کی کوشش کی ہے۔‘
انہوں نے کہا کہ نیشنل پارٹی صرف سیاسی راستہ اپنانے پر یقین رکھتی ہے اور اس کے لیے تمام بڑی سیاسی جماعتوں بشمول ن لیگ، پیپلز پارٹی، پی ٹی آئی اور جے یو آئی سے رابطے ضروری ہیں۔ ان کے بقول’ہمیں ایک ایسا درمیانی راستہ نکالنا ہوگا جو سب کے لیے قابل قبول ہو اور سب کو اپنے طرز عمل میں لچک دکھانا ہوگی۔‘
جان بلیدی کا کہنا ہے کہ بلوچستان میں معاملات خطرناک حد تک دو انتہاؤں کی طرف جا رہے ہیں۔ طاقتور قوتوں نے 2018 اور 2024 کے انتخابات کے ذریعے نیشنل پارٹی، بی این پی، پشتونخوا ملی عوامی پارٹی، عوامی نیشنل پارٹی اور یہاں تک کہ جے یو آئی کو بھی دیوار سے لگا دیا ہے۔
ان کے بقول ’جب سیاسی قوتوں کو الگ تھلگ کیا جائے گا تو نتیجہ انتہا پسندی ہی نکلنا تھا۔ بلوچ یکجہتی کمیٹی کے ابھرنے کی ایک بڑی وجہ بھی یہی سیاسی خلا ہے۔‘
تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ بلوچستان کی موجودہ سیاسی صورتحال میں جہاں ایک طرف حکومت اور اختر مینگل اپنے اپنے موقف پر ڈٹے ہوئے ہیں۔ وہیں مفاہمتی سیاست کرنے والی جماعتیں جیسے نیشنل پارٹی، کچھ نہ کچھ بہتری کی امید لیے سامنے آئی ہیں۔ اب یہ نواز شریف سمیت دیگر قومی رہنماؤں پر منحصر ہے کہ وہ کتنی سنجیدگی سے اس تنازع کو حل کرنے کے لیے اپنا سیاسی وزن استعمال کرتے ہیں۔

جان بلیدی نے کہا کہ ’میں سمجھتا ہوں کہ سردار اختر مینگل مشکل میں پھنس گئے ہیں‘۔ (فوٹو: فیس بک)

سینیئر صحافی اور تجزیہ کار شہزادہ ذوالفقار کے مطابق نواز شریف اہم اور بھاری سیاسی شخصیت ہیں وہ اگر چاہیں تو بلوچستان کے معاملات میں اہم ادا کر سکتے ہیں۔ مرکز میں ان کی جماعت کی حکومت ہے، بلوچستان میں وہ حکومتی اتحاد کا حصہ ہیں اس لیے ان کی بات کو اسلام آباد نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔‘
انہوں نے کہا کہ یہ امید رکھنا کہ نواز شریف کے کردار سے بلوچستان کا سارے مسائل فوراً حل ہو جائیں گے غیر حقیقی ہے کیونکہ یہ مسائل نہایت پیچیدہ اور گہرے ہیں۔
تاہم ان کے مطابق ’اگر نواز شریف مخلصانہ طریقے سے سے مفاہمت کے عمل میں شامل ہو تو بہتری آسکتی ہے۔‘
بلوچستان کے سخت گیر قوم پرست حلقے نیشنل پارٹی پر بلوچستان کی صورتحال پر سخت گیر مؤقف اپنانے کی بجائے مفاہمت کی کوششوں پر تنقید کررہے ہیں۔
شہزادہ ذوالفقار کا کہنا ہے کہ نیشنل پارٹی جیسی جماعتوں کے لیے اس وقت صورتحال نہایت مشکل ہے کیونکہ ایک ایسا حلقہ طاقتور ہوتا جا رہا ہے جو پارلیمنٹ اور گفت و شنید کو غیر اہم سمجھتا ہے۔ انہوں نے کہاکہ ’گفت و شنید کے ابتدائی مراحل میں باتیں تلخ ہوں گی لیکن اگر نیت درست ہو تو وقت کے ساتھ نرمی آ سکتی ہے۔‘
سردار اختر مینگل نے گذشتہ روز پیپلز پارٹی کی قیادت پر سخت تنقید کی۔ جواب میں پیپلز پارٹی کے صوبائی وزرا اور ارکان اسمبلی صادق عمرانی، علی مدد جتک اور بخت محمد کاکڑ نے جمعرات کو پریس کانفرنس کرتے ہوئے سردار اختر مینگل پر دہشت گرد عناصر کی سرپرستی، کرپشن اور دھرنے کے بدلے سیاسی بلیک میلنگ جیسے سنگین الزامات لگائے۔
تجزیہ کار شہزادہ ذوالفقار کے مطابق ’پیپلز پارٹی کو سردار اختر مینگل کے سخت بیانات کا ردعمل دینا چاہیے تھا مگر اس نے ضرورت سے زیادہ ردعمل دیا جس سے دو طرفہ نقصان ہوگا۔‘
انہوں نے کہا کہ اس وقت اختر مینگل اور حکومت دونوں بند گلی میں پھنس چکے ہیں۔ ان کے بقول ’اگر اختر مینگل اپنا مطالبہ منوائے بغیر دھرنا ختم کرتے ہیں تو انہیں سیاسی نقصان ہوگا اور اگر حکومت ضد پر اڑی رہی تو راستوں کی بندش، آمدروفت اور معاشی سرگرمیوں کے متاثر ہونے سے عوامی غصہ بڑھ سکتا ہے۔‘
شہزادہ ذوالفقار کے مطابق ماہ رنگ بلوچ کی گرفتاری کے خلاف دائر درخواست پر بلوچستان ہائی کورٹ عدالت نے فیصلہ محفوظ کر لیا ہے۔ اس فیصلے سے صورتحال کسی قدر واضح ہو سکتی ہے۔
تجزیہ کار رشید بلوچ کے مطابق نیشنل پارٹی کی قیادت نے درمیانی راستہ نکالنے کی کوشش کی ہے۔ یہ ملاقات نواز شریف کی خواہش پر ہوئی اور نیشنل پارٹی نے ان سے درخواست کی کہ وہ سیاسی مفاہمت کے لیے کردار ادا کریں۔
رشید بلوچ کا ماننا ہے کہ اگرچہ نواز شریف خود بلوچستان کے معاملات میں مفاہمت چاہتے ہیں مگر ان کی جماعت کے کچھ حلقے خاص طور پر وفاقی حکومت کے اہم عہدوں پر فائز افراد انہیں بلوچستان کے معاملات سے دور رکھنا چاہتے ہیں کیونکہ ان کا خیال ہے کہ اس سے اسٹیبلشمنٹ ناراض ہو سکتی ہے۔
انہوں نے کہاکہ ’نواز شریف کو بلوچستان کے معاملات کا ادراک ہے اور وہ ایک ایسا راستہ نکالنا چاہتے ہیں جو آئینی دائرہ کار میں ہو۔‘
رشید بلوچ کا کہنا ہے کہ پیپلز پارٹی کی مرکزی قیادت اس تمام صورتحال میں خاموش تماشائی بنی ہوئی ہے حالانکہ وہ ایک اہم فریق ہے اور اگر چاہے تو درمیانی راستہ نکال سکتی ہے۔ انہوں نے مثال دی کہ سندھ میں بی وائی سی کی رہنما سمی دین کو رہا کیا گیا تو ماہ رنگ بلوچ کی رہائی بھی ممکن تھی۔ ’یہ کوئی ایسا مطالبہ نہیں جس پر عمل نہ ہو سکے مگر پیپلز پارٹی غالباً اس بوجھ کو ن لیگ پر ڈالنا چاہتی ہے۔‘

شیئر: