بلوچستان میں نگراں وزیراعلٰی کے نام پر ’تنازع‘ حل کیوں نہیں ہو رہا ہے؟
بلوچستان میں نگراں وزیراعلٰی کے نام پر ’تنازع‘ حل کیوں نہیں ہو رہا ہے؟
بدھ 16 اگست 2023 19:24
زین الدین احمد -اردو نیوز، کوئٹہ
تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ زیادہ امکان ہے کہ پارلیمانی کمیٹی بھی اتفاق رائے پیدا نہ کرسکے۔ (فوٹو: فیس بک)
منگل کی رات کو جب پاکستانی ٹی وی چینلز پر نشر ہونے والی خبروں سے یہ لگ رہا تھا کہ رقبے کے لحاظ سے ملک کے سب سے بڑے صوبے بلوچستان کے نگراں وزیراعلٰی کا انتخاب خوش اسلوبی سے ہوگیا اور نواب اکبر خان بگٹی کے نواسے میر علی مردان ڈومکی کے نام پر اتفاق کرلیا گیا، تاہم اچانک ڈرامائی صورت حال پیدا ہوگئی۔
بلوچستان عوامی پارٹی کے جام گروپ کی کوششوں کے نتیجے میں قائد حزب اختلاف کی جانب سے اپنے امیدوار کو دستبردار کرانے کے بعد توقع کی جارہی تھی کہ وزیراعلٰی عبدالقدوس بزنجو علی مردان کے نام کی منظوری کے لیے تیار سمری پر دستخط کردیں گے تاہم قدوس بزنجو اپنی مرضی کے برخلاف اس فیصلے پر تیار نہ تھے اور اچانک غائب ہوگئے۔
وہ اس وقت تک غائب رہے جب تک گھڑی پر 12 نہیں بج گئے۔ یوں تین دن کی مقررہ آئینی مدت ختم ہوگئی اورنگراں وزیراعلٰی کے تقرر کا معاملہ طول پکڑ کر پارلیمانی کمیٹی کے پاس چلا گیا۔
اس طرح نگراں وزیراعلٰی کے معاملے پر بلوچستان میں پرانے اتحادی مخالف اور سابق مخالف ہم خیال بن گئے۔
جمعیت علمائے اسلام، بلوچستان نیشنل پارٹی اور پشتونخوا ملی عوامی پارٹی پر مشتمل حزب اختلاف کا اتحاد ٹوٹ گیا جبکہ جے یو آئی اپنے پرانے مخالف جام گروپ کے ساتھ مل گئی۔
تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ زیادہ امکان ہے کہ پارلیمانی کمیٹی بھی اتفاق رائے پیدا نہ کرسکے اور گذشتہ دور کی روایت کے مطابق معاملہ حتمی فیصلے کے لیے الیکشن کمیشن کے پاس چلا جائے۔
نگراں وزیراعلٰی بلوچستان کے تقرر کے لیے وزیراعلٰی عبدالقدوس بزنجو، تحلیل شدہ بلوچستان اسمبلی کے قائد حزب اختلاف ملک سکندر ایڈووکیٹ سمیت صوبے کے سیاسی رہنماؤں اور نگراں وزیراعلٰی کے امیدواروں نے گذشتہ کئی روز سے اسلام آباد میں ڈیرے ڈال رکھے تھے۔
جوڑ توڑ کی کوششیں عروج پر تھیں۔ نگراں وزیراعظم انوار الحق کاکڑ، جے یو آئی کے سربراہ مولانا فضل الرحمان، صوبائی امیر مولانا عبدالواسع، بلوچستان نیشنل پارٹی کے سربراہ سردار اختر مینگل، سابق وزیراعلٰی جام کمال خان سمیت کئی اہم شخصیات سرگرم رہیں مگر آخر وقت تک اتفاق رائے پیدا نہ کیا جاسکا۔
پارلیمانی کمیٹی کے ارکان کے ناموں پر بھی حزب اختلاف کی جماعتوں میں اختلافات پیدا ہوگئے ہیں (فائل فوٹو: اردو نیوز)
وزیراعلٰی عبدالقدوس بزنجو کی ایڈوائس پر بلوچستان کی صوبائی اسمبلی 12 اگست کو تحلیل ہوئی۔ اس طرح آئین کی شق 224 کے تحت وزیراعلٰی اور قائد حزب اختلاف کے پاس نگراں وزیراعلٰی کے انتخاب پر مشاورت کے لیے تین دن یعنی 15 اگست رات 12 بجے تک کا وقت تھا، تاہم اس دوران وزیراعلٰی عبدالقدوس بزنجو اور اپوزیشن لیڈر ملک سکندر ایڈووکیٹ کے درمیان صرف ایک ہی ملاقات ہوئی۔
صحافی اور تجزیہ کار عرفان سعید کے مطابق اس ملاقات میں جے یو آئی نے سابق رکن قومی اسمبلی انجینیئر محمد عثمان بادینی کا نام پیش کیا مگر وزیراعلٰی عبدالقدوس بزنجو نے یہ کہہ کر کوئی بھی نام تجویز نہیں کیا کہ ابھی ان کی ساتھیوں سے مشاورت مکمل نہیں ہوئی۔ وزیراعلٰی نے کہا کہ اگلی ملاقات میں وہ نام پیش کریں گے مگر یہ اگلی ملاقات اس آئینی مدت میں ہو ہی نہ سکی۔
صحافی و تجزیہ کار رشید بلوچ کے مطابق صرف قائد حزب اختلاف ملک سکندر ایڈووکیٹ باضابطہ طور پر اپنے امیدوار انجینیئر عثمان بادینی کا نام سامنے لائے تھے۔ وزیراعلٰی عبدالقدوس بزنجو اور نہ ہی حزب اختلاف کی دوسری بڑی جماعت بلوچستان نیشنل پارٹی آخر وقت تک کوئی نام سامنے لائی۔
میڈیا اور سوشل میڈیا پر نگراں وزیراعلٰی کے لیے مجوزہ امیدواروں کے درجن بھر نام چل رہے تھے جن میں کئی بدنام زمانہ افراد بھی شامل تھے جس سے کنفویژن پیدا ہوگئی۔
رشید بلوچ کے مطابق میڈیا پر جتنے بھی نام لیے جا رہے تھے اس میں علی مردان ڈومکی کا نام شامل نہیں تھا۔ ان کا نام بلوچستان عوامی پارٹی سے تعلق رکھنے والے سابق وزیراعلٰی جام کمال خان کے گروپ کی جانب سے پیش کیا گیا۔ جام کمال اور علی مردان ڈومکی کی نگراں وزیراعظم انوار الحق کاکڑ سے بھی ملاقات ہوئی۔
منگل کی رات کو اسلام آباد کے بلوچستان ہاؤس میں وزیراعلٰی اور قائد حزب اختلاف سمیت تمام سٹیک ہولڈرز جمع تھے (فائل فوٹو: فیس بک)
ان کے بقول جے یو آئی عثمان بادینی کے نام پر ڈٹی ہوئی تھی مگر نگراں وزیراعظم انوارالحق کاکڑ بظاہر باجوڑ واقعہ پر تعزیت کرنے اسلام آباد میں جمعیت علمائے اسلام کے سربراہ مولانا فضل الرحمان سے ملنے گئے تو وہاں بلوچستان کے نگراں وزیراعلٰی کے معاملے پر مذاکرات کیے گئے۔
عرفان سعید کے مطابق اس ملاقات میں جے یو آئی نگراں سیٹ اپ میں حصہ دینے سمیت بعض یقین دہانیوں پر علی مردان کو بطور نگراں وزیراعلٰی قبول کرنے پر تیار ہوگئی۔ اسلام آباد کے صحافیوں نے شاید دیکھا کہ جے یو آئی اپنے امیدوار سے دستبردار ہوگئی تو معاملہ طے پاگیا اور غلط خبریں نشر کردیں کہ نگراں وزیراعلٰی کے لیے علی مردان ڈومکی کو دونوں جانب سے متفقہ طور پر نامزد کردیا گیا ہے مگر شاید ان صحافیوں کو بلوچستان کی سیاست اور بلوچستان عوامی پارٹی کے اندر اختلافات کا علم نہیں تھا یا پھر وہ عبدالقدوس بزنجو کی شخصیت سے بہتر واقف نہیں تھے۔
ان کا کہنا تھا کہ اسلام آباد سے غلط خبریں نشر ہونے پر کوئٹہ میں بھی صحافیوں پر اپنے اداروں کا دباؤ تھا کہ وہ علی مردان ڈومکی کی نامزدگی کی خبر دیں۔ ’ہم نے کہا کہ جب تک سمری پر دستخط نہیں ہوتے اور کوئی اعلان نہیں کرتا تو خبر کیسے دیں۔ بعض صحافیوں کی جلد بازی نے سارے معاملے کو پیچیدہ بنا دیا۔‘
رشید بلوچ کے مطابق اس معاملے میں جام کمال اور نگراں وزیراعظم سمیت بہت ساری شخصیات کردار ادا کر رہی تھیں۔ جام کمال گروپ اور جے یو آئی میں ہم آہنگی پیدا ہوگئی مگر دیکھنا یہ چاہیے تھا کہ آئینی طور پر یہ اختیار جام کمال کا نہیں بلکہ وزیراعلٰی اور قائد حزب اختلاف کا تھا۔ جب وزیراعلٰی ہی راضی نہیں تو سمری پر دستخط کیسے ہوتے؟
عرفان سعید کہتے ہیں کہ وزیراعلٰی عبدالقدوس بزنجو نے اگرچہ آخری وقت تک اپنے امیدوار کا نام پیش نہیں کیا مگر وہ اپنے قریبی رشتہ دار ضلع آواران کے ڈسٹرکٹ کونسل چیئرمین نصیر بزنجو یا پھر بلوچستان نیشنل پارٹی کے گوادر سے سابق رکن صوبائی اسمبلی حمل کلمتی کو عبوری حکومت دینا چاہتے تھے۔ ’اس لیے انہوں نے تمام تر کوششوں اور دباؤ کے باوجود علی مردان ڈومکی کے نام پر اتفاق نہیں کیا اور قصداً معاملے کو اس وقت تک لٹکائے رکھا جب تک آئینی مشاورت کے لیے مقررہ وقت گزر نہیں گیا۔ اس طرح معاملہ پارلیمانی کمیٹی کے پاس چلا گیا۔‘
اسلام آباد میں کیا ہوا؟
منگل کی رات کو اسلام آباد کا بلوچستان ہاؤس توجہ کا مرکز بنا ہوا تھا جہاں وزیراعلٰی اور اپوزیشن لیڈر سمیت تمام سٹیک ہولڈرز جمع تھے۔ بلوچستان سے تعلق رکھنے والے صحافی و اینکر پرسن شاہد رند بھی وہیں موجود تھے۔
میر علی مردان ڈومکی سابق سینیٹر حضور بخش ڈومکی کے بیٹے اور نواب اکبر خان بگٹی کے نواسے ہیں (فائل فوٹو: فیس بک)
انہوں نے اردو نیوز کو بتایا کہ عبدالقدوس بزنجو بلوچستان ہاؤس میں ہی موجود تھے اور جب انہیں علم ہوا کہ معاملہ ان کی مرضی کے مطابق آگے نہیں بڑھ رہا تو وہ وہاں سے اچانک غائب ہوگئے۔
ان کا کہنا تھا کہ چیئرمین سینیٹ صادق سنجرانی اور اپوزیشن لیڈر ملک سکندر ایڈووکیٹ سمیت کئی شخصیات نے مقررہ وقت کے اندر وزیراعلٰی سے ملنے کی کوشش کی مگر وزیراعلٰی 12 بجے سے پہلے کسی سے ملے ہی نہیں۔
بلوچستان ہاؤس کے ذرائع نے اردو نیوز کو بتایا کہ وزیراعلٰی عبدالقدوس بزنجو منگل کی رات کو اچانک نجی گاڑی میں بلوچستان ہاؤس سے نکل کر نامعلوم مقام کی طرف چلے گئے۔ سرتوڑ کوششوں کے بعد معلوم ہوا کہ وزیراعلٰی عبدالقدوس بزنجو ایک نجی عمارت میں موجود ہیں تو کئی اہم شخصیات انہیں نگراں وزیراعلٰی کے تقرر کی سمری پر دستخط کرنے پر قائل کرنے کے لیے ملنے گئیں مگر وزیراعلٰی اپنے کمرے سے ہی باہر نہ نکلے۔
ذرائع کے مطابق عبدالقدوس بزنجو رات ایک بجے کے بعد ہی کمرے سے باہر نکلے تب تک بہت دیر ہوچکی تھی۔ عبدالقدوس بزنجو نے اس موقع پر کہا کہ 15 اگست کی تاریخ گزرنے کے بعد اب آئینی طور پر معاملہ پارلیمانی کمیٹی کے پاس چلا گیا ہے۔
علی مردان ڈومکی کی بطور وزیراعلٰی نامزدگی کی خبریں نشر ہونے پر صحافیوں سے ٹیلی فون پر بات کرتے ہوئے بلوچستان نیشنل پارٹی کے سربراہ سابق وزیراعلٰی سردار اختر مینگل نے شکوہ کیا کہ بلوچستان کی تحلیل شدہ اسمبلی میں حزب اختلاف کی دوسری بڑی جماعت ہونے کے باوجود حکومت اور نہ ہی حزب اختلاف نے نگراں وزیراعلٰی کے تقرر کے معاملے پر انہیں اعتماد میں لیا۔
بلوچستان عوامی پارٹی جام کمال کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک کے بعد دو واضح حصوں میں تقسیم ہے (فائل فوٹو: اے پی پی)
ان کا کہنا تھا کہ جنہوں نے علی مردان ڈومکی کو نگراں وزیراعلٰی بنانا ہے وہ بنا کر ہی رہیں گے مگر آئینی و قانونی تقاضوں کو بہرحال پورا کرنا چاہیے۔
بلوچستان عوامی پارٹی جام کمال کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک کے بعد دو واضح حصوں میں تقسیم ہے۔ ایک گروپ عبدالقدوس بزنجو، صادق سنجرانی اور دوسرے گروپ کی قیادت جام کمال، انوارالحق کاکڑ اور سرفراز بگٹی کر رہے ہیں-
عرفان سعید کے مطابق حزب اختلاف کی جمعیت علمائے اسلام اور بلوچستان نیشنل پارٹی نے 2021 میں جام کمال کو وزارت اعلٰی سے ہٹانے میں عبدالقدوس بزنجو کا بھرپور ساتھ دیا۔ تب سے قدوس بزنجو اور حزب اختلاف میں اچھی ہم آہنگی تھی اسی وجہ سے ان جماعتوں کو ’فرینڈلی اپوزیشن‘ کہا جاتا تھا۔
ان کا کہنا ہے کہ وفاق میں نگراں حکومت بننے کے بعد اب سیاسی حالات تبدیل ہوگئے ہیں۔ نگراں وزیراعلٰی کے تقرر پر جمعیت علما اسلام اور بلوچستان نیشنل پارٹی (مینگل) کا اتحاد ٹوٹ گیا ہے اور جے یو آئی کی قدوس بزنجو سے بھی دوریاں پیدا ہوگئی ہیں۔ اب جے یو آئی کل کے مخالف یعنی جام گروپ کی ہم خیال بن گئی ہے۔
تجزیہ کاروں کے نزدیک انوار الحق کے نگراں وزیراعظم بننے کے بعد جام گروپ کے اثرو رسوخ میں اضافہ ہوا ہے۔ جمعیت حمایت کے بدلے نگراں سیٹ اپ سمیت مستقبل کے منظر نامے میں سیاسی فوائد حاصل کرنا چاہتی ہے۔
پارلیمانی کمیٹی کے ارکان کے ناموں پر بھی اختلافات
سپیکر بلوچستان اسمبلی جان محمد جمالی کا کہنا ہے کہ آئین کی شق 224 کے تحت وزیراعلیٰ اور قائد حزب اختلاف کی جانب سے تین دن کی آئینی مدت میں اتفاق رائے پیدا نہ ہونے کی صورت میں نگراں وزیراعلیٰ بلوچستان کے تقرر کا معاملہ اب پارلیمانی کمیٹی کے پاس چلا گیا ہے۔
ان کے مطابق اب تحلیل شدہ اسمبلی کے حکومتی اور اپوزیشن بنچوں کے تین تین ارکان پر مشتمل کمیٹی تشکیل دی جائے گی جس کے لیے جماعتوں سے نام طلب کر لیے گئے ہیں۔ یہ کمیٹی وزیراعلیٰ اور قائد حزب اختلاف کی جانب سے تجویز کردہ دو دو ناموں پر غور کرے گی۔ اگر تین دن کے اندر کسی نام پر متفق نہ ہوئے تو معاملہ الیکشن کمیشن کے پاس چلا جائے گا جو 48 گھنٹوں میں کمیٹی کی جانب سے تجویز کردہ دو دو ناموں میں کسی ایک کا انتخاب کرے گا۔
تجزیہ کاروں کے مطابق انوار الحق کے وزیراعظم بننے کے بعد جام کمال گروپ کے اثرو رسوخ میں اضافہ ہوا ہے۔ (فوٹو: اے پی پی)
بلوچستان اسمبلی سیکریٹریٹ کے حکام نے اردو نیوز کو بتایا ہے کہ پارلیمانی کمیٹی کے ارکان کے ناموں پر بھی حزب اختلاف کی جماعتوں میں اختلافات پیدا ہوگئے ہیں۔ جے یو آئی سے تعلق رکھنے والےقائد حزب اختلاف ملک سکندر ایڈووکیٹ کی جانب سے پارلیمانی کمیٹی کے لئے یونس عزیز زہری، عبدالواحد صدیقی اور محمد نواز کاکڑ کے نام تجویز کیے گئے ہیں۔ تینوں کا تعلق جے یو آئی سے ہے۔
اپوزیشن لیڈر کی جانب سے پارلیمانی کمیٹی کے لیے تینوں نام اپنی جماعت سے تجویز کرنے پر اپوزیشن کی جماعت بی این پی اور پشتونخوا میپ نے سپیکر کو خط لکھ دیا اور اپوزیشن کی جماعتوں کو برابر کی نمائندگی دینے کا مطالبہ کردیا۔ ان کا مؤقف ہے کہ تکنیکی طور پر ایک ہی جماعت سے تین ارکان کی نامزدگی غلط ہے۔
بی این پی نے صوبائی اسمبلی میں پارلیمانی لیڈر ملک نصیر شاہوانی اور پشتونخوا ملی عوامی پارٹی نے نصر اللہ زیرے کو پارلیمانی کمیٹی کا حصہ بنانے کی درخواست کی ہے۔
دوسری جانب عبدالقدوس بزنجو نے پارلیمانی کمیٹی کے لیے بلوچستان عوامی پارٹی کے سردار عبدالرحمان کھیتران اور حکومتی جماعت عوامی نیشنل پارٹی کے انجینئر زمرک خان اچکزئی کے ساتھ ساتھ تیسرا نام اپنا تجویز کیا ہے۔
جے یو آئی کے ایک سینیئر عہدے دار نے اردو نیوز کو بتایا کہ جے یو آئی نے نگراں وزیراعلیٰ کے لئے انجینئر محمد عثمان بادینی کے ساتھ ساتھ جام کمال گروپ کے میر علی مردان ڈومکی کا نام بھی تجویز کیا ہے۔ ان کے مطابق مشاورتی عمل میں علی مردان ڈومکی کے نام پر ہی زور دیا جائے گا۔
دوسری جانب عبدالقدوس بزنجو نے نگراں وزیراعلیٰ کے مجوزہ ناموں کے لیے سپیکر کو اب تک مراسلہ نہیں لکھا۔
وزیراعلیٰ عبدالقدوس بزنجو کی ایڈوائس پر بلوچستان کی صوبائی اسمبلی 12 اگست کو تحلیل ہوئی۔
تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ میر علی مردان ڈومکی ہی کے نگراں وزیراعلیٰ بننے کے امکانات زیادہ ہیں۔
میر علی مردان ڈومکی کون ہیں؟
میر علی مردان خان ڈومکی سابق سینیٹر حضور بخش ڈومکی کے بیٹے اور نواب اکبر خان بگٹی کے نواسے ہیں۔
میر علی مردان ڈومکی کا تعلق بلوچستان کے ضلع سبی کے علاقے لہڑی کے معروف سیاسی گھرانے سے ہے۔ وہ 13 اکتوبر 1972 کو پیدا ہوئے۔ ان کے والد میر حضور بخش ڈومکی 1975 سے 1977 تک سینیٹر رہے۔
علی مردان ڈومکی نے علامہ اقبال یونیورسٹی اسلام آباد سے سوشیالوجی میں ماسٹرز کیا۔ وہ 2002 میں تحصیل لہڑی کے بلا مقابلہ ناظم منتخب ہوئے اور 2005 تک اس عہدے پر رہے۔2005ء سے 2010 تک ضلع ناظم سبی رہے۔
علی مردان کے بھائی میر دوستین ڈومکی 2013 میں کوہلو سبی ڈیرہ بگٹی سے رکن قومی اسمبلی بنے اور شاہد خاقان عباسی کی کابینہ میں وزیر مملکت سائنس و ٹیکنالوجی رہے۔