لاہور کے وہ 9 بچے جو قریبی رشتہ داروں کے ہاتھوں قتل ہوئے
لاہور کے وہ 9 بچے جو قریبی رشتہ داروں کے ہاتھوں قتل ہوئے
ہفتہ 19 اگست 2023 5:35
عیشہ جہانگیر، لاہور
یکم جنوری سے پندرہ جون تک پنجاب کے دس اضلاع میں 1390 بچے مخلتف جرائم کا شکار ہوئے۔ فائل فوٹو: فری پکس
لاہور کے علاقے ہنجروال کے رہائشی خرم شہزاد کے چہرے پر ندامت کے کوئی آثار نہیں تھے۔ اس کے کانوں میں اب بھی اپنی سابقہ بیوی فروہ کے یہ الفاظ گونج رہے تھے: ’فاطمہ تمہاری بیٹی نہیں ہے۔‘
فروہ کے اس انکشاف کے بعد گویا اس کی ٹانگوں میں جان ہی نہیں رہی تھی۔
یہ دن کاٹنا اس کے لیے مشکل ہو گیا تھا۔ رات ہوئی تو اس نے تین برس کی معصوم فاطمہ کے منہ پر ہاتھ رکھ کر اس زور سے دبایا کہ اس کے سانسوں کی ڈور ہی ٹوٹ گئی۔
لاہور کے علاقے ہنجروال میں چند روز قبل ملزم خرم شہزاد نے اپنی ہی بیٹی فاطمہ کو قتل کیا اور اپنے جرم پر پردہ ڈالنے کے لیے اسے جناح ہسپتال لے گیا۔ باپ نے ہسپتال میں اپنی بیٹی کی اچانک موت کی دہائی دی مگر ڈاکٹروں سے اس کا جرم پوشیدہ نہ رہ سکا۔
انہوں نے بچی کے چہرے پر دبائو کے نشان دیکھ لیے تھے، جس پر ہسپتال انتظامیہ نے فوری طور پر مقامی پولیس سے رابطہ کیا۔ ہنجروال پولیس نے بچی کی لاش تحویل میں لے کر پوسٹ مارٹم کروانے کا فیصلہ کیا مگر اس دوران بچی کا باپ فرار ہو چکا تھا۔
پولیس کی مدعیت میں کمسن فاطمہ زہرہ کے قتل کا مقدمہ درج کیا گیا اور واقعے کے اگلے ہی روز ملزم خرم شہزاد کو گرفتار کرلیا گیا۔
ملزم نے پولیس حراست میں بتایا کہ ’فروہ اس کی سابقہ بیوی ہے، شادی کے کچھ سال بعد ہی فروہ کے ساتھ لڑائی جھگڑا معمول بن گیا تھا۔ دونوں کے درمیان رشتہ محض برائے نام رہ گیا تھا۔‘
ملزم نے مزید کہا کہ ’اختلافات اس قدر بڑھے کہ نوبت طلاق تک پہنچ گئی۔ دو سال پہلے میں نے فروہ کو طلاق دے دی اور بچے اپنے پاس رکھ لیے لیکن ماں کو بچوں سے ملنے کی اجازت تھی۔‘
خرم شہزاد نے تفتیش کاروں کو بتایا کہ ’قتل کی واردات سے ایک دن پہلے فروہ بچوں سے ملنے آئی اور پرانی باتوں پر پھر تکرار ہو گئی۔ اس دوران فروہ نے کہا کہ ’فاطمہ زہرہ تہماری بیٹی نہیں، اس کی رگوں میں میرے ایک دوست کا خون دوڑ رہا ہے۔‘
ملزم کا منصوبہ کیا تھا؟
ملزم خرم شہزاد نے پولیس تفتیش میں بتایا کہ ’اس کا فاطمہ کے بعد باقی تین بچوں کو قتل کرنے کے بعد خود کشی کرنے کا منصوبہ تھا۔‘
پولیس نے فاطمہ زہرہ کے قتل کے مقدمے کی تفتیش میں اس کی ماں فروہ کو بھی شامل کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔
بچوں کے قتل اور اغوا میں قریبی رشتہ دار ملوث پائے گئے۔ فائل فوٹو: پنجاب پولیس
یہ اس نوعیت کا ایسا پہلا واقعہ نہیں ہے۔ رواں سال لاہور میں نو کم سن بچوں کو بے دردی سے قتل کیا جا چکا ہے، جن میں قاتل کوئی انجان یا غیر نہیں بلکہ سگا باپ، دادا، خالو، سوتیلا باپ اور کوئی قریبی رشتہ دار یا جاننے والا ہی تھا۔
پولیس تفتیش میں بچوں کو قتل کرنے کی وجوہات تقریباً ملتی جلتی ہیں۔ لیکن کچھ واقعات ایسے بھی ہیں جن کے محرکات یا قاتل کی پس پردہ سوچ سامنے آنے پر تفتیش کار بھی حیران رہ گئے، جس کی حالیہ مثال لاہور کے علاقے گجر پورہ میں چھ سالہ بچے کے قتل کی لرزہ خیز واردات ہے۔
بہو سے شادی کی خواہش
56 سالہ مبینہ ملزم نذیر احمد کے اپنے پوتے غلام مصطفیٰ کو قتل کرنے کی وجہ بھی مختلف نہیں۔
اس نے پولیس کے سامنے اعترافِ جرم کرتے ہوئے بتایا کہ ’چھ سالہ غلام مصطفیٰ مجھ سے بہت زیادہ لگاؤ رکھتا تھا۔ وہ ذیادہ تر کھیلتا بھی میرے ساتھ ہی تھا۔‘
اس نے قتل کی وجہ بیان کرتے ہوئے کہا کہ ’وہ اپنی بہو کو اپنے بیٹے سے طلاق دلوا کر خود اس سے شادی کرنا چاہتا تھا۔‘
ملزم نذیر احمد نے اپنے پوتے غلام مصطفیٰ کو اغوا کرنے کے بعد بیٹے تنویر سے موبائل پر رابطہ کیا اور کہا کہ ’اگر اپنی بیوی مہناز کو طلاق دیدے اور مہناز مجھ شادی کر لے تو بچہ خیر و عافیت سے گھر واپس آ جائے گا ۔ لیکن ایسا نہ ہوا تو وہ بچے کو قتل کر دے گا۔‘
ملزم نذیر دو دن تک اپنے پوتے غلام مصطفیٰ کو لے کر مختلف مقامات پر چھپتا رہا۔
دادا پوتا میو ہسپتال کے ایمرجنسی وارڈ کے کلوز سرکٹ کیمروں میں بھی دیکھے گئے۔ نذیر احمد نے دو دن بعد بالآخر اپنے کندھے پر رکھے رومال سے معصوم پوتے کا گلا دبا کا اس کا قتل کر دیا اور لاش گندے نالے کے قریب پھینک دی۔
بستر گندا کیوں کیا؟
شیرا کوٹ میں سوتیلے باپ نے تین سالہ بچے کو محض اس بات پر قتل کر دیا کہ اس معصوم نے سوتے ہوئے بستر پر پیشاب کر دیا تھا۔
ملزم عثمان نے 20 روز پہلے ہی بچے کی والدہ سے نکاح کیا تھا۔
پولیس کی مدعیت میں کمسن فاطمہ زہرہ کے قتل کا مقدمہ درج کر کے مقتولہ کے والد کو گرفتار کیا گیا۔ فائل فوٹو: فری پکس
خاتون نے پہلے خاوند کی وفات کے بعد عثمان سے دوسری شادی کی تھی۔ اس کی پہلے شادی سے دو بیٹیاں سویرا، فاطمہ اور بیٹا چاند علی پیدا ہوئے جنہیں وہ دوسرے شوہر کے پاس چھوڑ کر کام پر جاتی تھی۔
ملزم چاند علی نے وقوعہ کے روز بستر گندا کرنے پر چاند علی پر اس قدر تشدد کیا کہ بچہ جاں بر نہ ہو سکا۔
ملزم نے دورانِ تفتیش انکشاف کیا کہ وہ بچے کو جنسی ذیادتی کا نشانہ بھی بناتا تھا۔
باپ نے جب جنگل میں لے جا کر کم سن بیٹے کا قتل کیا
پولیس نے گوالمنڈی کے علاقے سے سکول جاتے ہوئے لاپتہ ہونے والے گیارہ سالہ اذان کے اغوا کا مقدمہ ابتدا میں نامعلوم افراد کے خلاف درج کیا تھا۔ لیکن کلوزسرکٹ فوٹیج میں بچے کو سگے باپ کے ساتھ جاتے ہوئے دیکھا گیا۔
پولیس نے پھل فروش رفیق کو حراست میں لے کر پوچھ گچھ کی تو ملزم نے سگے بیٹے کو محمود بوٹی کے قریب جنگل میں لے جا کر قتل کرنے کا اعتراف کر لیا۔
استاد، رشتہ دار یا پڑوسی، قابل اعتبار کون؟
رائیونڈ کے علاقے میں آٹھ سالہ بچے کو مدرسے کے معلم نے مبینہ طور پر جنسی ذیادتی کا نشانہ بنانے کے بعد تشدد کیا اور پھر قتل کرنے کی نیت سے چھت سے نیچے پھینک دیا۔
بچہ 10 روز چلڈرن اسپتال میں زیرِعلاج رہنے کے بعد دم توڑ گیا۔ پولیس نے ملزم قاری طارق کو گرفتار کر لیا۔
رائیونڈ میں ہی پیش آنے والے ایک اور واقعے میں آٹھ سالہ بچے کو اس کے خالو مسکین عنایت نے قتل کرکے لاش ننکانہ صاحب کی نہر میں پھینک دی۔
کاہنہ اور نشترکالونی میں بھی دو بچوں کو مبینہ طور پر جنسی زیادتی کے بعد قتل کیا گیا، جن کے ملزمان مقتول بچوں کے پڑوسی نکلے۔
ایس پی آپریشنز اقبال ٹاؤن عثمان ٹیپو نے حال ہی میں پیش آنے والے ایک ایسے ہی واقعے کی تفتتیش کی ہے۔
عثمان ٹیپو نے اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ ’قتل کے واقعات کی تفتیش میں ایسے لرزہ خیز انکشافات ہوتے ہیں کہ دل دہل جاتا ہے۔ یقین نہیں آتا کہ کوئی اتنا قریبی رشتہ اس قدر بھیانک روپ بھی اختیار کر سکتا ہے۔‘
انہوں نے بتایا کہ ’بچوں کے ساتھ ہونے والے جرائم میں اکثر کوئی قریبی رشتہ دار، جاننے والا یا ایسا شخص ملوث نکلتا ہے جو بچے کے والدین کو اچھی طرح جانتا ہے کیوں کہ ایسے لوگوں کے ساتھ بچے بآسانی گھل مل جاتے ہیں جنہیں وہ گھر آتے جاتے یا والدین سے بے تکلف ہوتا دیکھ چکے ہوں۔‘
انہوں نے مزید کہا کہ ’بچے چونکہ آسان ہدف ہوتے ہیں جنہیں بہلانا بھی مشکل نہیں ہوتا۔ اس لیے بچوں کو بڑا خطرہ کسی غیر یا انجان سے زیادہ جاننے والوں اور اپنوں سے ہوتا ہے۔‘
بچوں کے خلاف جرائم کے اعداد وشمار
محکمہ داخلہ کی ایک حالیہ رپورٹ کے مطابق رواں سال یکم جنوری سے پندرہ جون تک پنجاب کے دس اضلاع میں 1390 بچے مخلتف جرائم کا شکار ہوئے، جن میں لڑکیوں کی نسبت لڑکوں کی تعداد زیادہ ہے۔
اعداد وشمار کے مطابق جنسی ذیادتی، تشدد اور قتل سمیت مخلتف جرائم کا نشانہ بننے والوں میں 959 بچے اور 431 بچیاں شامل ہیں۔ بچوں کے ساتھ جرائم کے سب سے زیادہ 220 واقعات شیخوپورہ میں رپورٹ ہوئے۔
رپورٹ میں یہ نشاندہی بھی کی گئی ہے کہ 55 فیصد واقعات متاثرین کے پڑوسی جب کہ 107 واقعات میں رشتہ دار ایسی وارداتوں میں ملوث تھے۔
محکمہ داخلہ کی اس رپورٹ کے مطابق لاہور کے 89 بچوں کو مختلف واقعات میں تشدد، جنسی زیادتی کا نشانہ بنایا گیا یا قتل کر دیا گیا، جن میں سے 34 مقدمات کی تفتیش اس وقت جاری ہے۔